بات اب ضبط سے باہر ہے، مجھے رونے دو

ابن رضا

لائبریرین
ایک تازہ غزل احباب کی نذر

بات اب ضبط سے باہر ہے، مجھے رونے دو
دل مرا درد کا خوگر ہے ، مجھے رونے دو

ایک برسات کا منظر ہے عیاں آنکھوں سے
اِک تلاطم مرے اندر ہے، مجھے رونے دو

شدتِ غم نہ کہیں مانگ لے نذرانہِ جاں
اب کے شاید یہی بہتر ہے، مجھے رونے دو

جب سے ساقی نے دیا بزم نکالا مجھ کو
تب سے مینا ہے نہ ساغر ہے، مجھے رونے دو

یادِ رفتہ ہے، غمِ ہجر ہے، تنہائی ہے
ہر گھڑی ایک ہی منظر ہے، مجھے رونے دو

عُمرگُزری ہے
مری جس کو صبا کہتے ہوئے
حیف وہ موجہِ صرصر ہے، مجھے رونے دو

جو سجاتا تھا در و بام مِرے، پھولوں سے
اُس کے ہاتھوں میں بھی پتھر ہے، مجھے رونے دو

بات بے بات بھر آتی ہیں یہ آنکھیں میری
مجھ میں باقی یہی جوہر ہے، مجھے رونے دو

وقتِ رخصت جو دیا اُس نے رضاؔ عُذرِ جفا
وہ مجھے آج بھی اَزبر ہے، مجھے رونے دو


برائے توجہ اساتذہ
محمد یعقوب آسی صاحب و الف عین صاحب
 
آخری تدوین:

محمدظہیر

محفلین
بہت عمدہ ۔۔۔

اسی طرح کا فراز کا شعر یاد آیا
ضبط لازم ہے مگر دُکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا!
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت نوازش بھائی ۔ خوش رہے
پسند اوری کا شکریہ یا حبیب

واہ، کیا کہنے ابن رضا بھائی۔ بہت خوب

نزیر بھائی بہت شکریہ۔ سلامت رہیے


ملتانی بھائی آپ کا کنایہ کافی غور طلب ہے۔ :sneaky:توجہ کے لیے نوازش:):flower:
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل کہی ہے۔
اب کہ شاید یہی بہتر ہے
سے مراد؟ اسے اب کے÷یا اب کی ہونا چاہئے نا!

عُمرگُزری ہے صبا کہتے ہوئے جس کو مِری
÷÷الفاظ بدلے جائیں، ’مری‘ آخر میں اچھا نہیں لگ رہا۔

جو سجاتا تھا در و بام مِرے پھولوں سے
مرے پھول؟ مراد تو میرے در و بام سے ہے نا!!

بات بے بات بھر آتی ہیں یہ آنکھیں میری
جیسا آسی بھائی کا خیال ہے، ’یہ‘ بھرتی کا ہے۔ اسے یوں کیا جا سکتا ہے
بات بے بات ہی بھر آتی ہیں آنکھیں میری
 
Top