ایک تازہ غزل احباب کی نذر
بات اب ضبط سے باہر ہے، مجھے رونے دو
دل مرا درد کا خوگر ہے ، مجھے رونے دو
ایک برسات کا منظر ہے عیاں آنکھوں سے
اِک تلاطم مرے اندر ہے، مجھے رونے دو
شدتِ غم نہ کہیں مانگ لے نذرانہِ جاں
اب کے شاید یہی بہتر ہے، مجھے رونے دو
جب سے ساقی نے دیا بزم نکالا مجھ کو
تب سے مینا ہے نہ ساغر ہے، مجھے رونے دو
یادِ رفتہ ہے، غمِ ہجر ہے، تنہائی ہے
ہر گھڑی ایک ہی منظر ہے، مجھے رونے دو
عُمرگُزری ہے مری جس کو صبا کہتے ہوئے
حیف وہ موجہِ صرصر ہے، مجھے رونے دو
جو سجاتا تھا در و بام مِرے، پھولوں سے
اُس کے ہاتھوں میں بھی پتھر ہے، مجھے رونے دو
بات بے بات بھر آتی ہیں یہ آنکھیں میری
مجھ میں باقی یہی جوہر ہے، مجھے رونے دو
وقتِ رخصت جو دیا اُس نے رضاؔ عُذرِ جفا
وہ مجھے آج بھی اَزبر ہے، مجھے رونے دو
برائے توجہ اساتذہ
محمد یعقوب آسی صاحب و
الف عین صاحب