سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ لال مسجد سے لیکر ڈیرہ اسماعیل خاں اور واہ کینٹ کے خود کش حملوں اور ، ملک کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک کوئی مذہبی عالم کھڑا نہیں ہوا ، کسی نے طالبان کے اس اقدام کی کھلے الفاظوں میں کبھی مذمت نہیں کی ۔ کسی نے خود کش حملوں کی ایماندارانہ نفی نہیں کی ۔ یہ علماؤں کی ایک ایسی مجرمانہ اور پراسرار خاموشی ہے کہ جس پر جتنی بھی حیرت کی جائے وہ کم ہے ۔ مجھے حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ اردو محفل پر بھی کسی کو ( ایک خاص طبقہ ) یہ جسارت نہیں ہوئی کہ وہ اس درندگی کے پُر زور الفاظ میں مذمت کریں ۔ اور تو اور ، وہ قاتلوں کو صرف اس لیئے رعایت دے رہے ہیں کہ وہ کسی کے کہنے یا اکسانے پر خون و آگ کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ اس میں غیر ملکیوں اور دیگر طاقتوں کی مداخلت کا ذکر کرکے اپنی نااہلیوں ، کوتاہیوں ، کمزوریوں ، کم علمیوں اور جہالت کا دفاع کر رہے ہیں ۔ مجھے اس پر حیرت ہوتی ہے کہ یہ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کو اپنی ہر اس غلطی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو غلطی ان کی حماقتوں اور نااہلیوں سے وجود میں آئیں ۔ اور جس سے پھر ان طاقتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ جن لوگوں پر یہ اپنی کوتاہیوںکو چھپانے کے لیئے انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ اگر انہوں نے صرف " بیڈ شیٹس " ہی ان سے خریدنا ترک کردیں تو ان کی آدھی سے زیادہ ٹیکسٹائل انڈسٹیرز زمین بوس ہوجائیں ۔ باقی چیزوں کا کیا ذکر ۔ !
خود کش حملوں میں جو بھی جاں بحق ہوا وہ سب مسلمان تھے ۔ ان میں کوئی امریکی ایجنٹ نہیں تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب کو اس درجہ بے رحمی سے مارنے کا آخر جواز کیاہے ۔ ؟ کیا ان لوگوں میں بے شمار ناحق لوگ قتل نہیں کیئے گئے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کے دن اللہ کی عدالت پر یقین رکھنے والا کوئی شخص اس بات کی نفی کرے گا کہ اللہ نے خود قرآن میں بغیر کسی حق کے کسی کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کون سا فقہ ، کون سا فہمِ دین ان کو اتنی ہمت اور جرات دیتا ہے کہ یہ لوگ ٹی وی اور ریڈیو پر آکر اس جرم کو باآسانی قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہوگا ۔ جب دین کے نام پر اتنا بڑا فتنہ برپا ہو رہا ہو تو یہ علماء کرام کیوں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ سرِ عام آکرکیوں نہیں کہتے کہ یہ جرمِ سنگین ہے ۔ اور دین کی کسی بھی رُو سے اسے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں علماء کا تو کیا ذکر خیر کیا جائے ۔ مگر وہ علماء کرام جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ٹی وی اور دیگر میڈیا پر ان کے مقالے اور انٹریوز کی بھرمار ہوتی ہے ۔ انہوں نے بھی کبھی اس جرم پر کوئی دو ٹوک رویہ نہیں اپنایا ۔ کبھی بھی ان متعین افراد کے اس اقدام کے بارے میں صحیح اور غلط ہونے کا کبھی فتویٰ نہیں لگایا ۔ خود کش حملوںکے بارے میں تو یہ اصولی بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ اقدام سراسر غلط ہے ۔ اور وہ فلاں ابنِ فلاں کے اس اقدام کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ اور اس کو خلاف شرع قرار دیتے ہوئے ایسے تمام اقدامات کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں ، جہاں بیگناہ مارے جا رہے ہوں ۔مگر ایسا نہیں ہوا ۔ علماء کی یہ لاتعلقی اور سنگین خاموشی کیسے کیسے المیوں کو جنم دے رہی ہے ۔ کاش اس کا کوئی اندازہ کر پاتا ۔ ایک طرف ساری دنیا میں اسلام بدنام ہو رہا ہے ۔ اور یہاں مسلمان انتشار اور خون و آگ میں خود سے ہی نبرو آزما ہیں ۔ ایک طرف یہ لوگ زرداری اور دیگر لوگوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر اپنی قوت کا احساس دلا رہے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے اس معاملے میں مجرمانہ خاموشی اپنا رکھی ہے ۔ اور ہم ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ان گناہوں کو چھپانے کے لیئے غیروں پر انگلیاں اٹھاتے کہ سب ان کا ہی کیا دھرا ہے ۔
انا اللہ وانا اللہ راجعون