باجوڑ میں قبائلیوں کا طالبان کے خلاف اقدام

ظفری

لائبریرین
بلآخر ۔۔۔۔ قبائلیوں نے طالبان اور انتہا پسندوں کے خلاف خود سے ایکشن لے لیا ہے ۔ اور باجوڑ‌ میں‌ جہاں شدت پسندوں کے گھر جلائے گئے وہاں انہوں نے تمام شدت پسندوں کو محدود وقت دیکر اپنے علاقوں سے نکل جانے کو کہا ہے ۔ بصورتِ دیگر وہ قبائلی لشکر کی صورت میں‌ ہر اس گاؤں ، دیہات پر حملہ کریں گے جہاں یہ شدت پسند پائے جائیں گے ۔


up76.gif
 

خرم

محفلین
ان ظالمان کی سرکوبی کے لئے یہی طریقہ درست ہے۔ یا تو یہ ہمیشہ کے لئے تائب ہو جائیں‌یا جلد از جلد واصل جہنم ہوں اور اس مقصد کے لئے ہر قربانی چھوٹی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ لال مسجد سے لیکر ڈیرہ اسماعیل خاں اور واہ کینٹ کے خود کش حملوں اور ، ملک کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک کوئی مذہبی عالم کھڑا نہیں‌ ہوا ، کسی نے طالبان کے اس اقدام کی کھلے الفاظوں میں کبھی مذمت نہیں کی ۔ کسی نے خود کش حملوں کی ایماندارانہ نفی نہیں کی ۔ یہ علماؤں کی ایک ایسی مجرمانہ اور پراسرار خاموشی ہے کہ جس پر جتنی بھی حیرت کی جائے وہ کم ہے‌ ۔ مجھے حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ اردو محفل پر بھی کسی کو ( ایک خاص طبقہ ) یہ جسارت نہیں‌ ہوئی کہ وہ اس درندگی کے پُر زور الفاظ میں مذمت کریں ۔ اور تو اور ، وہ قاتلوں کو صرف اس لیئے رعایت دے رہے ہیں کہ وہ کسی کے کہنے یا اکسانے پر خون و آگ کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ اس میں غیر ملکیوں اور دیگر طاقتوں کی مداخلت کا ذکر کرکے اپنی نااہلیوں ، کوتاہیوں ، کمزوریوں ، کم علمیوں اور جہالت کا دفاع کر رہے ہیں ۔ مجھے اس پر حیرت ہوتی ہے کہ یہ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کو اپنی ہر اس غلطی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں‌ جو غلطی ان کی حماقتوں اور نااہلیوں سے وجود میں آئیں ۔ اور جس سے پھر ان طاقتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ جن لوگوں پر یہ اپنی کوتاہیوں‌کو چھپانے کے لیئے انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ اگر انہوں نے صرف " بیڈ شیٹس " ہی ان سے خریدنا ترک کردیں‌ تو ان کی آدھی سے زیادہ ٹیکسٹائل انڈسٹیرز زمین بوس ہوجائیں ۔ باقی چیزوں کا کیا ذکر ۔ !

خود کش حملوں میں جو بھی جاں بحق ہوا وہ سب مسلمان تھے ۔ ان میں ‌کوئی امریکی ایجنٹ نہیں تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب کو اس درجہ بے رحمی سے مارنے کا آخر جواز کیاہے ۔ ؟ کیا ان لوگوں میں‌ بے شمار ناحق لوگ قتل نہیں کیئے گئے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کے دن اللہ کی عدالت پر یقین رکھنے والا کوئی شخص اس بات کی نفی کرے گا کہ اللہ نے خود قرآن میں بغیر کسی حق کے کسی کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کون سا فقہ ، کون سا فہمِ دین ان کو اتنی ہمت اور جرات دیتا ہے کہ یہ لوگ ٹی وی اور ریڈیو پر آکر اس جرم کو باآسانی قبول بھی کر لیتے ہیں‌ ۔ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہوگا ۔ جب دین کے نام پر اتنا بڑا فتنہ برپا ہو رہا ہو تو یہ علماء کرام کیوں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ سرِ عام آکرکیوں نہیں کہتے کہ یہ جرمِ سنگین ہے ۔ اور دین کی کسی بھی رُو سے اسے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں علماء کا تو کیا ذکر خیر کیا جائے ۔ مگر وہ علماء کرام جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ٹی وی اور دیگر میڈیا پر ان کے مقالے اور انٹریوز کی بھرمار ہوتی ہے ۔ انہوں نے بھی کبھی اس جرم پر کوئی دو ٹوک رویہ نہیں اپنایا ۔ کبھی بھی ان متعین افراد کے اس اقدام کے بارے میں صحیح اور غلط ہونے کا کبھی فتویٰ نہیں لگایا ۔ خود کش حملوں‌کے بارے میں تو یہ اصولی بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ اقدام سراسر غلط ہے ۔ اور وہ فلاں ابنِ فلاں کے اس اقدام کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ اور اس کو خلاف شرع قرار دیتے ہوئے ایسے تمام اقدامات کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں ، جہاں بیگناہ مارے جا رہے ہوں ۔مگر ایسا نہیں ہوا ۔ علماء کی یہ لاتعلقی اور سنگین خاموشی کیسے کیسے المیوں کو جنم دے رہی ہے ۔ کاش اس کا کوئی اندازہ کر پاتا ۔ ایک طرف ساری دنیا میں اسلام بدنام ہو رہا ہے ۔ اور یہاں مسلمان انتشار اور خون و آگ میں خود سے ہی نبرو آزما ہیں ۔ ایک طرف یہ لوگ زرداری اور دیگر لوگوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر اپنی قوت کا احساس دلا رہے ہیں اور دوسری طرف انہوں‌ نے اس معاملے میں مجرمانہ خاموشی اپنا رکھی ہے ۔ اور ہم ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ان گناہوں کو چھپانے کے لیئے غیروں پر انگلیاں اٹھاتے کہ سب ان کا ہی کیا دھرا ہے ۔
انا اللہ وانا اللہ راجعون
 

ساجداقبال

محفلین
کسی کیلیے جان لینا چھوٹی سی بات اور دوسروں کیلیے جان دینا بہت بڑی بات ہوگئی ہے۔ ایسی ہی ہمت مولانا حسن جان شہید نے کی تھی، باقی ڈر کے چپ سادھے ہوئے ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر یہ علماء متفقہ کوئی فتویٰ دیتے تو کافی سارے لوگ طالبان کا ساتھ چھوڑ دیتے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
تھو ڑی دیر کے لیے ہم مانلیتے ہیں کہ القا عدہ ایک وا ہمہ ہے۔ہم فر ض کر لیتے ہیں کہ اسامہ محض ایک خیال ہے۔ہم یہ بھی باور کر لیتے ہیں کہ ۱۱۹ یہو دیوں کی کارستا نی ہے ۔لیکن کیا تحریک ِ طا لبان پاکستان بھی ایک واہمہ ہے؟کیا ڈیرہ اسما عیل خان اور واہ کینٹ کے وا قعات میں بھی یہو دی ملوث ہیں؟اپنے مذہبی را ہنما ؤں اور اہل ِ دانش پر بھر وسہ کر تے ہو ئے ہم یہ سب کچھ بھی فر ض کر سکتے تھے لیکن ہم ان چہروں کاکیسے انکا ر کریں جنہیں ہمارے صحافی بھائی ہر روز ملتے ہیں ۔ہم اسے کیسے جھٹلا ئیں جب ملا عمر اپنی زبان سے یہ اعلان کر تے ہیں کہ یہ کا ر ہائے نما یاں انہوں نے سر انجام دیے ہیں؟میں ان لو گوں کے حو صلے اور حق پسندی کی داد دیتا ہوں جو اس اعتراف کو بھی ما ن کر نہیں دیتے اور جو یہ فرما تے ہیں کہ ان کے پا س اس کے ثبو ت ہیں کہ یہ دھما کے" را " نے کر وائے ہیں۔ ایسی جراتِ رندا نہ ہر کسی کے نصیب میں کہاں؟ہم جیسے عامی تو یہ کہتے ہیں کہ جب ملا عمر جیسا معروف آدمی یہ ذ مہ داری قبول کر رہا ہے تو اس کو سچما ننا چائیے۔
ڈیر ہ اسما عیل خان اورواہ میں بے گنا ہ ما رے جا نے والے سب مسلمان تھے۔ان میں کو ئی امریکی ایجنٹ نہیں تھا۔میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ ان کی اکثریت طا لبان سے ہمدردی رکھنے والوں کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ان کو یوں بے دردی سے مار دینے کا کو ئی جواز تھا؟قرآن ِ مجید نے بغیر حق کے ایک انسانی قتل کو پو ری انسانیت کا قتل قرا ر دیا ہے۔کیا ان وا قعات میں ان گنت لو گ نا حق قتل نہیں کیے گئے؟میر ا نہیں خیا ل کہ آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھنے وا لا کو ئی آد می اس کا جواب نفی میں دے سکتا ہے۔تحریک طالبان سے وا بستہ لوگوں کے بارے میں میرا گمان یہی ہے کہ وہ سب اللہ کے حضور میں حاضری پر ایمان رکھتے ہیں۔میں نہیں جان سکا کہ کون سی فقہ اور کون سا فہم ِ دین انہیں حا صلہ دیتا ہے کہ وہ اتنے بڑے جرم کی ذمہ داری اتنی آسا نی سے قبول کر لیتے ہیں؟میر ے پا س اس کا کو ئی جواب نہیں۔میرا خیال ہے کہ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہو گا۔جب دین کے نام پر ااتنا نڑااقدام ہو رہا ہو تویہ ذمہ داری سب سے زیا دہ علما کی ہے کہ وہ متعین طور پر بتا ئیں کہ یہ ایک سنگین جرم ہے اورکسی تعبیر ِ دین کی رو سے اسے جا ئز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مذ ہب کے نام پر سیا ست کر نے والوں کو چھو ڑیے، لیکن مجھے علمائے کرام سے یہ مو دبا نہ شکا یت ہے کہ انہوں نے ان مسا ئل میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ انہوں نے ہمہشہ دو ٹوک باتکہنے سے گریز کیا اور متعین افراد کی مو جو دگی کے با وجود ان کے اقدام پرغلط یا صحیح ہو نے کا فتوی ٰنہیں لگا یا۔جب لال مسجد کا سانحہ ابھی مر حلہ تشکیل میں تھا،علما اگر چاہتے تو اس کو روک سکتے تھے۔وہ لال مسجد کے منتظمین کے مو قف سے متفق نہیں تھے لیکن وہ یہ بات کھل کر کہنے کے لیے تیا ر نہیں ہو ئے۔اسی طرح وہ دوٹوک لہجے میں ان سے اظہا ر ِلاتعلقی بھی نہیں کر سکے۔یہی معا ملہ ان تحریک طا لبان کے بارے میں روا رکھا جا رہا ہے۔خود کش حملوں کے با رے میں ایک اصولی بات تو کہی جا تی ہے لیکن وہ یہ کہنے کے لیے تیا ر نہیں کہ وہ فلاں ابن فلاں کے اس اقدام کو غلط کہتے ہیں اور ا سے خلاف ِ شرع سمجھتے ہو ئے اس کی مذمت کرتے ہیں۔علما کی یہ لا تعلقی کیسے کیسے المیوں کی بنیا دبن رہی ہے، کاش انہیں اس کا اندازہ ہو سکتا۔
میرے نزدیک اس معاشرے کو بچانے کی ذمہ داری حکو مت سے زیا دہ اب علما پر ہے۔جو لوگ اس معا شرے کی ٹوٹ پھوٹ میں ملوث ہیں وہ حکو مت کو در خود اعتنا سمجھنے کے لیے تیا ر نہیں لیکن اگر علما سنجید گی سے چائیں تو صورت ِ حا ل میں تبدیلی آسکتی ہے۔میری تجو یز ہے کہ علما کا ایک وفد تر تیب دیا جائے جو تحریک ِطالبان پاکستان کے ذمہ داران سے جا کر ملے اور انہیں یہ سمجھا نے کی کو شش کر ے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ جہاں اللہ کے حضو ر میں ابد ی خسارے کا با عث بن سکتا ہے وہاں اس دنیا میں ایک طرف اسلام کی بد نا می کاسبب بن رہا ہے اور دوسری طرف ایک مسلمان معا شرے کو انتشا ر میں مبتلا کر رہا ہے۔ علما انہیں بتا ئیں کہ یہ رویہ کس طرح اسلام اور مسلمانوں کے لیے نقصان کابا عث بن رہا ہے۔اگر خدا نخواستہ یہ کو شش کا میا ب نہیں ہو تی تو پھر علما ان کا نام لے کر ان سے اظہار ِ لا تعلقی کریں اور عوام کو بتا ئیں کہ ان کے کسی اقدام کی ذمہ داری نہ تو مسلما نوں پر ہے اور نہ اسلام پر۔ علما چائیں تو اس وفد میں سول سو سائٹی اور میڈیا کی ان شخصیا ت کو بھی شامل کر سکتے ہیں جو ان لو گوں کے لیے نرم گو شہ رکھتے ہیں۔ یہ اسی طرح کی ایک کو شش ہو گی جیسے ااففانستان پرامریکی حملے سے پہلے ملا عمر کو قا ئل کر نے کے لیے کی گئی تھی۔
میں مسلسل واویلا کر رہا ہوں کہ یہ معاشرہ تباہی کے دھا نے پر آ کھڑا ہوا ہے۔اہل سیا ست فی الجملہ اس سے بے خبر ہیں یا پھر ان کی تر جیحات بالکل دوسری ہیں۔وہ ہر معاملے کو اپنی سیاسی مفا دات کی رو شنی میں دیکھتے ہیں۔مثال کے طور پر مو لا نا فضل الر حمٰن لال مسجد کے معا ملات سے ہمیشہ لا تعلق رہے۔ام حسان صا حبہ اور دوسرے متاثرین ِلال مسجد کو ان سے شدید گلہ رہا ہے۔لیکن اب مو قع آیا ہے کہ یہ حادثہ ان کے لیے سیاسی طور پر مفید ثابت ہو سکتا ہے۔سب لو گ جا نتے ہیں کہ وہ جناب آ صف زرداری کو ووٹ دیں گے ۔ان کی جماعت کے لوگ بطور امید وار زرداری صاحب کی توثیق کر رہے تھے لیکن دوسرے طرف وہ یہ بھی فر ما رہے تھے کہ ہم نے یہ حما یت مشروط رکھی ہے اور ان کی ایک شرط جا معہ حفصہ کی بحالی اور مو لا نا عبد العزیز کی رہا ئی ہے۔گو یا اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے وہ اپنے حلقے میں اپنا کھو یا ہوا اعتماد بحال کر نے کی کو شش کر رہے ہیں۔دیگر اہل ِ سیاست کو بھی اسی پر قیا س کیجیے۔اس وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ معا شرے کو اب سول سو سائٹی ہی بچا سکتی ہے۔جس طرح سول سو سائٹی نے نظام ِ عدل کے مسئلے پر سماجی سطح پرا یک بیداری پیدا کی اور اس کے نتیجے میں سیا ست دان بھی مجبور ہو ئے کہ عدلیہ کی بحالی کو اپنی تر جیحات میں شا مل کر یں،اسی طرح اگر سول سو سائٹی اسے بھی اپنا مسئلہ بنا لے تو ہم کسی حل کی طرف جا سکتے ہیں۔ یہ معا ملہ چونکہ اصلاً مذ ہبی ہے اس لیے اس میں علما ہی بنیا دی کر دا ر ادا کر سکتے ہیں۔ حکو مت کے مذاکرات سے زیادہ یہ علما کے مذاکرات ہیں جو موثر ثا بت ہو سکتے ہیں۔ طالبان چونکہ فی الجملہ دیو بندی مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے علمائے دیو بند کی ذ مہ داری بھی زیا دہ ہے۔
طالبا ن کو بھی معلوم نہیں اس با ت کا کتنا احساس ہے کہ ان وا قعات کے بعد وہ کتنی تیزی سے اپنی معا شرتی تا ئیدکھو رہے ہیں۔۳۰۔اگست کو میں پشا ور میں ایک امن سیمینا ر میں شریک تھا۔ایک ادارے(SPADO) کے زیر اہتمام منعقد ہو نے والے اس اجتماع میں تما م سیاسی و مذہبی جماعتوں، سول سو سائٹی اورعلماکے نما ئندوں کے علاوہ ڈاکٹر قبلہ ایاز،ڈاکٹر معراج الہدیٰ،سید امجد علی شاہ اور رضا شاہ صاحب جیسے اہل ِ دانش مو جو د تھے ۔ان کے علا وہ میری تو قعات سے کہیں زیا دہ نو جوان شریک تھے۔یہ سب مضطرب اور پر یشان تھے کہ ہمارہ معاشرہ تباہ ہو رہا ہے ۔ اس اجتماع میں طالبا ن کے با رے میں لا تعلقی کا تاثر تھا یا پھر نا را ضی کا۔طالبا ن کے حامی حلقوں کو اس با رے میں سنجید گی سے سو چنا ہو گا کہ یہ رویہ بآخر طا لبان کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو گا۔بے گناہ مسلما نوں کا یہ قتل ِعام اب اس معا شرے کے لیے نا قا بل ِ بر داشت ہو تا جا رہا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان تک یہ بات ہمارے علما ہی مو ثر طور پر پہنچا سکتے ہیں۔اگر اس تحریک کی قیا دت ان کی بات نہیں ما نتی تو پھر یہ علما کی اخلا قی اور ملی ذمہ دا ری ہے کہ وہ اعلانیہ ان سے اظہا ر لا تعلقی کریں کیو نکہ یہ علما ہی ہیں جنہوں نے اس قوم میں ان کے لیے نرم گو شہ پیداکیا تھا۔ اپنے اس تعلق کے سبب کیا وہ ان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس ملک میں بے گنا ہوں کا خون نہ بہا ئیں جوکم و بیش سب کے سب مسلما ن بھی ہیں؟میر اخیال ہے کہ اس معا شرے کو بچا نے کی حقیقی ذ مہ دا ری اب علما کے کند ھے پر آ پڑی ہے۔ مو رخ کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ قلم تھا مے ہو ئے ہے۔دیکھیے یہ علما اپنے اکا بر شیح الہند مو لا نا محمو د حسن ،حکیم الامت مو لا نا اشرف علی تھا نوی،امام الہند مو لانا ابو الکلام آ زاد اورمفتی اعظم پا کستان مفتی محمد شفیع کی طرح تا ریخ کی عدالت میں سر خرو ہو تے ہیں یا نہیں!​
 

خاور بلال

محفلین
حوصلہ افزا خبر ہے۔ اگر انتہا پسندی کے اس مسئلے پر قابو پالیا جائے تو یہ انتہائ خوشی کی خبر ہے۔ لیکن ابھی صرف خبر ہے اور عملی طور پر اس میں سخت دشواریاں ہوں‌گی۔ لیکن بہتری کی طرف پہلا قدم تو ہے۔

لیکن اصل مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں‌اپنی پالیسی تبدیل کرنی ہوگی۔ ہم ایک طبقے کو پال پوس کر خود ہی بڑا کرتے ہیں اور جب وہ منہ کو آنے لگتا ہے تو تب فکر ہوتی ہے۔ جب تک جبر ہوتا رہے گا مظلوم انتقام لینے اسی طرح پیدا ہوتے رہیں‌گے آج طالبان ختم کرکے اگر ہم نے اپنی پالیسی تبدیل نہ کی تو کل یہی لوگ جو طالبان کو ختم کرنے جارہے ہیں وہی طالبان بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہوں گے۔ ہم نے غیروں کے حکم پر اپنی قوم کے خلاف محاذ کھولا تو اس کا بھیانک نتیجہ طالبان اور خود کش کاروائیوں کی صورت میں نکلا۔ ظاہر ہے لاوا پکتا ہے تو پھٹتا ضرور ہے۔ ہمیں‌ اپنا آپ پہنچاننا ہوگا اپنے پالیسی خود بنانی ہوگی۔ فیصلوں‌کی گھڑی میں فوجی مشیروں‌ سے نہیں بلکہ اپنی قوم سے رائے لینی ہوگی ورنہ ایک کے بعد دوسرا عذاب کھڑا ہوگا۔
 

خرم

محفلین
جب تک جبر ہوتا رہے گا مظلوم انتقام لینے اسی طرح پیدا ہوتے رہیں‌گے آج طالبان ختم کرکے اگر ہم نے اپنی پالیسی تبدیل نہ کی تو کل یہی لوگ جو طالبان کو ختم کرنے جارہے ہیں وہی طالبان بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہوں گے۔
بجا ارشاد۔ قومی سطح پر ایک منصف اور منظم معاشرہ کی تشکیل کے بغیر یہ گھن چکر ختم نہیں ہوگا اور ایک مجموعی طور پر منصف اور منظم معاشرہ ہی اغیار کی ناانصافیوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہمت رکھتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
مہوش علی: where in the world is osama bin laden? دیکھیے۔ امید ہے آپ کو آپکا اسامہ مل جائے گا۔۔۔
 
Top