عبدالقیوم چوہدری
محفلین
گزشتہ کچھ دنوں سے ٹیلی میڈیا اور سوشل میڈیا کے کچھ حصوں پر ’باجوہ ڈکٹرائین‘ کے کافی چرچے ہیں۔ کچھ پرنٹ و ٹیلی میڈیائی حلقوں کے بقول جنرل قمر باجوہ نے چالیس کے لگ بھگ جانے مانےلیکن اپنے خاص صحافیوں کو جنرل ہیڈ کوارٹر میں مدعو کیا اور تقریباً تین سے چار گھنٹے اپنے آف دی ریکارڈ نظریات ان تک پہنچائے۔ سوشل میڈیا پر ان نظریات کو لیکر کچھ مخصوص ہائی کلاس حلقوں میں بحث مباحثہ بھی ہو رہا ہے، لیکن کوئی بھی کھل کر اس پر بات نہیں کر پا رہا۔ اکا دکا صحافیوں کی جانب سے اس کے حق میں کچھ کالمز وغیرہ بھی لکھے گئے ہیں جبکہ مخالفت میں بات صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود ہے۔
ریاست کے بری سربراہ اور طاقت کے اصل منبع (بدقسمتی سے) کی جانب سے ریاست کے اندرونی و بیرونی معاملات کے لیے نئے نظریات کا اس طرح سے پرچار کرنا کہ سب متعلقین (stake holders) کو کان ہو جائیں، ایک بڑی خبر ہے۔ ہمارے ہاں کیونکہ کسی بھی موضوع پر سنجیدہ گفتگو کرنے (بشمول میرے) کا رواج دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے تو باوجود چاہنے کے میں بھی اس موضوع پر اپنی گزارشات دل میں ہی دبائے بیٹھا ہوں کہ میرا ان سے کیا لینا دینا لیکن دوسری طرف یہ سوچ بھی ابھرتی ہے کہ اس ریاست کا ایک ادنیٰ سا ہی سہی لیکن ایک فرد تو میں بھی ہوں تو کیوں نا اس پر بات ہی کیجائے۔
سوشل و ٹیلی میڈیا سے اخذ کردہ اس ڈکٹرائین کے چند چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں ہیں:-
فی الحال وقت کی قلت کے باعث میں ان نکات پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر رہا لیکن جلد ہی ان سب پر ایک رائے ضرور دوں گا۔ البتہ باقی احباب جو وقت نکال پائیں اور کسی ایک یا کچھ یا تمام نکات پر اپنا نقطہ نظر دینا چاہیں تو ان کا شکر گزار رہوں گا۔
ریاست کے بری سربراہ اور طاقت کے اصل منبع (بدقسمتی سے) کی جانب سے ریاست کے اندرونی و بیرونی معاملات کے لیے نئے نظریات کا اس طرح سے پرچار کرنا کہ سب متعلقین (stake holders) کو کان ہو جائیں، ایک بڑی خبر ہے۔ ہمارے ہاں کیونکہ کسی بھی موضوع پر سنجیدہ گفتگو کرنے (بشمول میرے) کا رواج دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے تو باوجود چاہنے کے میں بھی اس موضوع پر اپنی گزارشات دل میں ہی دبائے بیٹھا ہوں کہ میرا ان سے کیا لینا دینا لیکن دوسری طرف یہ سوچ بھی ابھرتی ہے کہ اس ریاست کا ایک ادنیٰ سا ہی سہی لیکن ایک فرد تو میں بھی ہوں تو کیوں نا اس پر بات ہی کیجائے۔
سوشل و ٹیلی میڈیا سے اخذ کردہ اس ڈکٹرائین کے چند چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں ہیں:-
- ضرورت پڑی تو ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔
- جہادی عناصر کسی صورت قابل قبول نہیں نا اب یہ متعلقہ رہے ہیں۔
- حکومت مناسب اقدامات کرتی تو ہم گرے لسٹ میں نا آتے۔
- اسحاق ڈار کے بارے میں کہا کہ He has been an Utter disaster for this country
- پارلیمنٹ کو پولیس ایکٹ 1861 اور اٹھارویں ترمیم کو واپس کرنا ہو گا تاکہ گورنس کو بہتر کیا جا سکے۔
- نیشنل ایکشن پلان پہ فوج نے عمل کیا ہے سویلین قیادت نے کچھ نہیں کیا ۔
- قومی مفاد کسی کے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز ہے اور سب کو اپنا اپنا کام اپنے دائرہ میں کرنا چاہئیے ۔
- سویلین قیادت اور جماعتوں کو اپنے کردار پہ نظر ڈالنی چاہئیے ہمیشہ ان لوگوں ( سیاست دانوں ) کی وجہ سے تیسری قوت کو دخل اندازی کا موقع ملا۔
- عدلیہ یا اس کے فیصلوں پہ تنقید کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے اگر عدلیہ پہ ایسے ہی تنقید ہوتی رہی تو ملک انارکی کی طرف جائے گا۔
فی الحال وقت کی قلت کے باعث میں ان نکات پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر رہا لیکن جلد ہی ان سب پر ایک رائے ضرور دوں گا۔ البتہ باقی احباب جو وقت نکال پائیں اور کسی ایک یا کچھ یا تمام نکات پر اپنا نقطہ نظر دینا چاہیں تو ان کا شکر گزار رہوں گا۔