انیس الرحمن
محفلین
بادشاہ کا فیصلہ
رحمت اللہ
ایک بادشاہ تھا۔ وہ دن بھر ملک کے انتظامی کاموں میں اتنا مصروف رہتا تھا کہ اسے آرام کرنے کی لیے بہت ہی کم فرصت ملتی تھی۔ ایک دن اسے خیال آیا کہ یہ بادشاہت تو ایک مصیبت ہے۔ ہر وقت کام میں لگا رہتا ہوں۔ نہ دن کو چین ملتا ہے نہ رات کو آرام۔ کیوں نہ تاج و تخت اسے سونپ دوں جو خوشی اور سکون سے اپنی زندگی گزار رہا ہو۔یہ سوچ کر رات کے وقت اس نے بھیس بدلا اور خوش رہنے والے آدمی کی تلاش میں محل سے روانہ ہو گیا۔ سب سے پہلے وہ ایک سوداگر کے پاس گیا۔
بادشاہ نے اس سے پوچھا، "تم یقینا خوشی اور سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوگے؟"
سوداگر نے جواب دیا، "میرے پاس بہت دولت ہے، مگر یہ دولت بھی مجھے سکون نہیں دے سکتی۔ اگر دولت سے خوشی اور سکون ملتا تو میں خریدنے میں دیر نہیں لگاتا۔ اس دولت نے میری زندگی اجیرن کردی ہے۔ میرے وارثوں کی نظریں میری جائیداد پر ہیں۔ وہ میرے مرنے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ اسی دولت کے لیے مجھے جان سے مار دیں۔ اس کے علاوہ آئے دن چوری اور ڈاکے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ رات دن اسی سوچ میں گھل رہا ہوں۔ میری صحت بھی متاثر ہورہی ہے۔ کاش میں غریب آدمی ہوتا۔ محنت مزدوری کر کے ایک جھونپڑے میں خوشی سے زندگی گزارتا۔ تب مجھے کسی قسم کی فکر نہ ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اپنے غریب پڑوسی کی طرح ہوتا۔ کتنا خوش رہتا ہے وہ۔"
بادشاہ اس کا جواب سن کر اس کے پڑوسی کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا، "تم اپنے اس حال میں خوش ہو؟"
پڑوسی بولا، "میں تو اس سخت محنت اور مشقت سے تنگ آ گیا ہوں۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے پڑوسی سوداگر کی طرح ہر وقت آرام کرتا رہوں اصل زندگی تو یہی ہے۔"
ان دونوں کے جواب سن کر بادشاہ کو تسلی نہ ہوئی تو وہ اپنی حکومت کے ایک بڑے افسر سے ملا۔ اسے چند روز پہلے ایک بڑے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔
بادشاہ کے سوال پر وہ بولا، "میری بدقسمتی ہے کہ میں نے یہ عہدہ قبول کر لیا۔ جو افسر میرے ساتھ پہلے کام کرتے تھے وہ میرے دوست تھے۔ اس عہدے نے انہیں میرا ماتحت بنا دیا ہے۔ اب وہ مجھ سے جلنے لگے ہیں۔ اس عہدے سے جو خوشی ملی تھی، وہ بھی خاک میں مل گئی۔ لگتا ہے خوشی میرے نصیب میں ہے ہی نہیں۔"
بادشاہ افسر کا جواب سن کر اس کے پڑوس میں ایک درزی کی دکان پر پہنچا اور اس سے بولا، "تم تو عیش کرتے ہوگے؟"
درزی بولا، "جناب میں اس کام سے ہرگز خوش نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی کام ہے۔ سارا دن ایک جگہ بیٹھے کپڑے سیتے رہو۔ اس کام سے تو میری جان جاتی ہے۔ مگر کیا کروں مجبوری ہے۔ اس کام نے میری خوشیاں چھین لی ہیں۔ اب دیکھیں میرے پڑوسی افسر کو۔ بادشاہ نے اسے بڑا عہدہ دیا ہے۔ اب اسے سکون اور خوشی بھی حاصل ہو گئی اور دولت بھی۔ کاش میں ہی وہ افسر ہوتا۔"
بادشاہ درزی کا جواب سن کر شہر کے باہر ایک دیہات میں پہنچا ہی تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ بادشاہ نے ایک جھونپڑے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک بزرگ باہر آئے اور بادشاہ سے بولے، "اندر آ جاؤ۔"
جھونپڑے کی چھت کی جگہوں سے ٹپک رہی تھی۔ جہاں سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا، وہاں بزرگ نے ٹین کے خالی ڈبے نیچے رکھ دیے تھے۔ پانی ان ڈبوں میں گر رہا تھا۔
"معلوم ہوتا ہے تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے؟" بادشاہ نے بزرگ سے پوچھا۔
بزرگ بولے، "ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ الله تعلی کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ہر چیز دی ہے۔ دیکھ لو۔ یہ میرا صاف ستھرا گھر ہے۔ میرے پاس دو بیل، ایک بکری، پانچ بطخیں اور کچھ مرغیاں ہیں۔ ان سے میں دودھ، انڈے اور گوشت حاصل کرتا ہوں۔ ان کو میں بیچتا ہوں۔ بیل کنواں اور ہل چلانے کے کام آتے ہیں۔ یہ میری تنہائی کے ساتھی ہیں۔ یہاں گھاس بہت ہے۔ ایک تالاب بھی ہے۔ میرے پاس کچھ زمین بھی ہے جس میں میں گندم اور کپاس اگاتا ہوں۔ میرے گھر کے پچھواڑے میں میرا ایک خوبصورت اور چھوٹا باغ بھی ہے۔ اس میں آم، کھجور، کیلے اور مالٹے وغیرہ کے درخت ہیں۔ کنویں سے پانی نکال کر کھیتوں اور باغ کو دیتا ہوں۔ باقی وقت میں جانور چراتا ہوں۔ پھر فرصت میں الله الله کرتا ہوں۔ میں بہت خوشی اور سکون سے زندگی گزار رہا ہوں۔"
بادشاہ نے سوچا کہ خوشیوں کے ساتھ اگر تھوڑی تکلیف بھی ہو تو انسان کو برداشت کر لینی چاہیے۔ بغیر تکلیف اور دکھ کے راحت نصیب نہیں ہوتی۔ میں جس شخص کی تلاش میں تھا وہ مجھے مل گیا ہے۔ بارش تھم چکی تھی۔ بادشاہ اپنے محل میں واپس آگیا اور ایک بار پھر تن دہی سے کام کرنے لگا۔
٭٭٭