رمان غنی
محفلین
غزل
بادہ و جام و میکدہ کیف کہاں خمار میں
چاہیے تھا کہ دیکھتے مستیٔ چشم یار میں
لب پہ خموش ہے دعا کیسے کہے وہ کیا کہے
جراتِ التجا نہیں تیرے گناہگار میں
ائے کہ نگاہِ خندہ زن تیرے غرور کی قسم
ایک عجب سرور ہے دیدئہ اشکبار میں
میری جبین شوق پر داغِ منافقت نہیں
گوہر دامنِ ترم گرچہ نہیں شمار میں
شعبدہ گر تری نظر ڈھونڈ رہی ہے کیا مفر
تجھ سے فزوں فریب ہے لہجۂ رازدار میں
ترک تعلقات میں کیسا مقام ہے صباؔ
میں ترے انتظار میں تو مرے انتظار میں