مناجات
مناجات بفرمائش ناصر علی خاں ولی عہد جاورہ
اے خدا اے بادشاہ اے کارساز
اے خدا اے مالکِ بندہ نواز
گمرہی سے میری حالت ہے تباہ
معصیت کے زنگ سے دل ہے سیاہ
دین کے کاموں سے وحشت ہے مجھے
ناروا خوشیوں سے رغبت ہے مجھے
بندگی کا فرض مجھ پر بار ہے
میری نیکی سے بدی کو عار ہے
صدق سے خالی ہے مری زندگی
زندگی ہے سر بسر شرمندگی
میری طاعت بے اثر بے جان ہے
لفظ بے معنی مرا ایمان ہے
آپ خود اپنی نظر میں خوار ہوں
نفس اور شیطاں کا خدمت گار ہوں
پھنس گیا حرص و ہوس کے جال میں
پڑگیا دھوکے سے اک جنجال میں
میں ہوں اور دنیا کی جنت کے مزے
عیش کے عشرت کے راحت کے مزے
کام ہے بس مجھ کو اپنے کام سے
بے خبر ہوں کام کے انجام سے
یہ نہ جانا عیش ماتم خیز ہے
یہ نہ سمجھا شہد زہر آمیز ہے
قاعدہ تیرا بدل سکتا نہیں
آنے والا وقت ٹل سکتا نہیں
پھر ہیں بیگانے عزیز و یار سب
عقل و حکمت زور و زر بے کار سب
آتشیں دریا ہے اور منجدھار ہے
تو کرم کردے تو بیڑا پار ہے
پیشوائے مُرسلیں کے واسطے
رحمت للعالمین کے واسطے
تو نے نعمت دی ہے زحمت سے بچا
تو نے عزت دی ہے ذلّت سے بچا
لاج رکھ لے میری تو ستّار ہے
بخش دے سب جرم تو غفّار ہے
مہربانی سے بدل دے میرا حال
دور ہوں دل سے گناہوں کے خیال
ہے یہاں کی زندگی ناپائیدار
آخرت کی جائے ہے جائے قرار
وقتِ رخصت ایک تیرا دھیان ہو
مطمئن دل ہو، قویٰ ایمان ہو
تیری مرضی کے زباں پر ہوں کلام
سامنے آنکھوں کے ہو دارالسلام
قیدِ تن سے روح جب آزاد ہو
پاس تیرے شاد ہو آباد ہو
پوری فرما دے مری یہ آرزو
ہے ترے قران میں لاتقنطوا
نیک و بد پر عام ہے احساں ترا
ہو قبول احمد علی کی یہ دعا
۱۹۳۸ء