الف عین
لائبریرین
قدیم گمشدہ غزل، قبل از ۱۹۰۹ء
پوری کوئی کسی کی تمنا ہوئی تو کیا
اک شاخ شاخسار میں پھولی پھلی تو کیا
کل خار و خس پہ بیٹھ کے روئے گی زار زار
پھولوں پہ آج بیٹھ کے بلبل ہنسی تو کیا
باتیں کریں ہمیں جو کوئی رازداں ملے
سوتوں کے آگے رام کہانی کہی تو کیا
سانچے گرو کا پنتھ ہے من خاک میں ملاؤ
سائیں جی راکھ آپ نے تن پر ملی تو کیا
خرمن کے انتظار میں بجلی ہے بے قرار
اے ابر تیرے فیض سے گنگا بہی تو کیا
طے ہونے والی راہ میں ناداں مسافرو
راحت ملی تو کیا جو مصیبت سہی تو کیا
یہ رسم ہے کہ آپ ملے ضبط کو بچائے
کم ظرف شمع اشک بہاتی جلی تو کیا
جینے کا لطف جب ہے کہ ہو یار ہمکنار
مرنے کی آرزو میں کٹی زندگی تو کیا
احمدؔ کلام وہ ہے جو کرلے دلوں میں گھر
اس طرح یہ جناب نے کی دل لگی تو کیا
پوری کوئی کسی کی تمنا ہوئی تو کیا
اک شاخ شاخسار میں پھولی پھلی تو کیا
کل خار و خس پہ بیٹھ کے روئے گی زار زار
پھولوں پہ آج بیٹھ کے بلبل ہنسی تو کیا
باتیں کریں ہمیں جو کوئی رازداں ملے
سوتوں کے آگے رام کہانی کہی تو کیا
سانچے گرو کا پنتھ ہے من خاک میں ملاؤ
سائیں جی راکھ آپ نے تن پر ملی تو کیا
خرمن کے انتظار میں بجلی ہے بے قرار
اے ابر تیرے فیض سے گنگا بہی تو کیا
طے ہونے والی راہ میں ناداں مسافرو
راحت ملی تو کیا جو مصیبت سہی تو کیا
یہ رسم ہے کہ آپ ملے ضبط کو بچائے
کم ظرف شمع اشک بہاتی جلی تو کیا
جینے کا لطف جب ہے کہ ہو یار ہمکنار
مرنے کی آرزو میں کٹی زندگی تو کیا
احمدؔ کلام وہ ہے جو کرلے دلوں میں گھر
اس طرح یہ جناب نے کی دل لگی تو کیا