ارے ایک رباعی چھوٹ گئی۔۔۔ اب سہی
(۱۷)
نازک ہے زمانہ اے مسلماں ہشیار
دامن پکڑ اُن کا جو ترے ہیں سردار
رفتار ہے وقت کی تیز دیر نہ کر
کارِ امروز را بفردا مگزار
(۳)
لبالب جامِ نرگیں پینے والوں کو مبارک ہوں
ہمیں ساقی کی آنکھیں دیکھنا سرشار ہو جانا
کہاں کی رسم ہے خود آپ ہی انصاف سے کہہ دیں
ہمارا پیار کرنا آپ کا بیزار ہو جانا
(۶)
کچھ طبیعت کو ٹھہر جانے دو اے منکر نکیر
میں ابھی جاگا ہوں اک خوابِ پریشاں دیکھ کر
حسن بھی کامل نظر بازی کا قائل ہوگیا
آپ حیراں ہو گئے وہ مجھ کو حیراں دیکھ کر
(۷)
جلد شہرت ہو گئی دنیا میں جب ہٹلر مرا
یہ نہیں تحقیق کس دن کس جگہ کیونکر مرا
جس کی جنگ چار سالہ سے ہوا یورپ تباہ
جس میں اندازے سے زائد شہری و لشکر مرا
جس کی دہشت سے لرز جاتے تھے ارکانِ جہاں
مرگیا اس طرح جیسے پشۂ بے پَر مرا