حسان خان
لائبریرین
باز خونبار است مژگانم، نمی دانم چرا
اضطرابے ہست در جانم، نمی دانم چرا
(میری پلکیں دوبارہ خونبار ہیں، لیکن پتا نہیں کیوں؛ میری جان پھر ذرا سی مضطرب ہے، لیکن پتا نہیں کیوں۔)
عالمے بر حالِ من حیراں و من بر حالِ خود
ماندہ ام حیراں کہ حیرانم، نمی دانم چرا
(ایک عالَم میرے حال پر حیران ہے اور میں اپنے حال پر حیران ہوں، لیکن میں اس بات پر ششدر رہ گیا ہوں کہ میں اگرچہ حیران ہوں، لیکن مجھے نہیں پتا کہ میں کیوں حیران ہوں۔)
روزگارے شد کہ بدحال و پریشانم ولے
بسکہ بدحال و پریشانم، نمی دانم چرا
(ایک عرصہ ہو گیا ہے کہ میں بدحال و پریشان ہوں؛ لیکن میں اتنا بدحال و پریشان ہوں کہ مجھے اپنی بدحالی اور پریشانی کی وجہ بھی نہیں معلوم۔)
یار می دانم کہ می داند دوائے دردِ عشق
لیک می گوید نمی دانم، نمی دانم چرا
(مجھے معلوم ہے کہ یار میرے دردِ عشق کی دوا جانتا ہے؛ لیکن وہ یہی کہتا ہے کہ وہ نہیں جانتا۔۔ پتا نہیں وہ کیوں ایسا کہتا ہے۔)
نے وصالم می رہاند از مصیبت، نے فراق
در ہمہ اوقات گریانم، نمی دانم چرا
(نہ تو مجھے وصال مصیبت سے رہائی دلاتا ہے، نہ ہی فراق؛ میں ہر وقت روتا رہتا ہوں، پتا نہیں کیوں۔)
نیست کارے کاید از من، ہر طرف بے اختیار
می دواند چرخِ گردانم، نمی دانم چرا
(کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے جو مجھ سے بن پڑے؛ ہر طرف بے اختیار مجھے چرخِ گرداں گھماتا رہتا ہے، پتا نہیں کیوں۔)
دردِ خود را گرچہ می دانم، فضولی، مہلک است
فارغ از تدبیر درمانم، نمی دانم چرا
(اے فضولی! میں اگرچہ جانتا ہوں کہ میرا درد مہلک ہے؛ لیکن میں علاج کے بندوبست سے بے فکر ہوں، پتا نہیں کیوں۔)
(محمد فضولی بغدادی)