بدتمیز
محفلین
"بس خاموش رہئے۔ اور سنیے۔ آپ ہمارے خصوصی مہمان ہیں۔ ہاں تو میں ان کی سزا کا اعلان کر رہا تھا۔ ان لوگوں کو الٹا لٹکایا جائے گا۔ ان کے ننگے جسموں پر تیز دھار آلات سے چرکے لگائے جائیں گے اور ان پر نمک چھڑکا جائے گا۔ چرکے لگانے اور نمک چھڑکنے کا یہ عمل اسوقت تک جاری رہے گا۔ جب تک یہ ختم نہیں ہو جاتے۔ ختم ہونے کے بعد بھی یہ ایک ہفتے تک اسی طرح لٹکے رہیں گے۔ اور پھر ان پر بھوکے کتے چھوڑے جائیں گے۔"
صدر کے ان الفاظ کے ساتھ ہی ان کے سروں کے پاس اوپر سے رسیاں گریں۔ جو پھندے کی شکل کی تھیں۔
"قیدیو۔ ان پھندوں کو اپنی گردنوں میں ڈال لو۔"
"ایک منٹ جناب۔" سی مون پھر بول اٹھا۔
"مہمان خصوصی۔ آپ پھر بول اٹھے۔ حالاں کہ یہ ہمارے ملک کے اصول کے بالکل خلاف ہے۔ اور اگر آپ مہمان خصوصی نہ ہوتے تو اسی وقت آپ کو شوٹ کر دیا جاتا۔"
"میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔" اس بار سی مون رکے بغیر بلند آواز میں کہ گیا۔
اس کے الفاظ نے انہیں چونکا دیا۔
"نہیں مسٹر سی مون۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔" صدر نے بھنا کر کہا۔
"کیا میں یہ شرط پیش نہیں کر چکا کہ آپ انہیں موت کی سزا نہیں دیں گے۔ ہاں سمندر میں پھینکوا دین گے۔ پھر چاہے یہ ڈوب جائیں۔ چاہے بچ جائیں ۔ ان کی قسمت۔"
"بات ایک ہی رہی۔ وہ سزا بھی موت کی ہے اور یہ سزا بھی۔"
"لیکن اس میں بچ نکلنے کا امکان نہیں۔ اس میں امکان ہے۔"
"اور آپ ان کے بچ نکلنے کا کیوں پسند کرتے ہیں؟"
"یہ میرے بہت ہی بہادر دشمن ہیں۔"
"تو پھر۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔ کیا بہادر دشمنوں کو زندہ رکھنا چاہئے۔"
"میں ان لوگوں کو اس طرح مرتے نہیں دیکھ سکتا۔ یا تو یہ میرے ہاتھ سے مریں گے ۔ یا اپنی موت مریں گے۔ جو موت آپنے پسند کی ۔ وہ موت نہیں مریں گے۔"
"یہ میرا ملک ہے۔ یہاں میرا حکم چلتا ہے۔ آپ کا نہیں۔"
"لیکن معاہدہ معاہدہ ہے۔"
"تب پھر یہ معاہدہ ختم۔ آپ بھی اپنی سزا سنیں۔"
"ضرور ضرور۔ کیوں نہیں۔" سی مون بولا۔
"آپ بھی اپنے ان بہادر دشمنوں کے ساتھ جا کھڑے ہو جائیں۔ اور ایک پھندہ پہن لیں۔"
"اچھی بات ہے، لیکن ہم لوگ اپنے ہاتھوں سے پھندہ نہیں پہنیں گے۔" سی مون بولا۔
"وہ بعد کی بات ہے۔ جب نہیں پہنیں گے تو پھر میرے آدمی پہنائیں گے۔"
"میں چلا۔" سی مون بولا۔
اور پھر انہوں نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا۔ اب سارا مجمع سی مون کو دیکھ رہا تھا۔ مجمعے کی توجہ کا مرکز اب وہ نہیں۔ سی مون تھا۔ اور پھر وہ ان کے نزدیک آ گیا۔ وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا۔
"ہماری خاطر آپ بھی موت کو گلے لگا کر آ گئے مسڑ سی مون۔"
"کیا کیا جائے۔ آپ تو جانتے ہیں۔ میں اصولوں کا آدمی ہوں۔" سی مون مسکرایا۔
پھر اس نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ہاتھ باہر آیا تو اس میں ننھی ننھی گولیاں تھیں۔ ایک گولی اس نے منہ میں رکھ لی اور اسے چبانے لگا۔ پھر ایک گولی انسپکٹر جمشید کی طرف بڑھا دی اور اشارے میں کہا:
"آپ بھی چبا لیں۔"
انسپکٹر جمشید ایک لمحے کے لئے ہچکچائے، پھر ایک گولی اس کی ہتھیلی سے اٹھا کر منہ میں رکھ لی۔ اس کی ہتھیلی اب انسپکٹر کامران مرزا کی طرف بڑھ گئی۔
اسی طرح اس نے سب کو ایک ایک گولی دی، اسی وقت آواز ابھری۔
"تم لوگ خود یہ پھندے اپنے گلوں میں ڈالو گے یا میں اپنے آدمی بھیجوں۔"
"ہم اپنے ہاتھوں سے پھندے نہیں ڈالیں گے۔" سی مون نے کہا۔
"اچھی بات ہے۔"
اور پھر سو فوجیوں کا دستہ ان کی طرف بڑھنے لگا۔
"اب۔ اب کیا کیا جائے۔" محمود بولا۔
"اللہ کو یاد کرنے کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں۔" شوکی نے فورا کہا۔
"لل۔ لیکن میں کیا کروں۔ میں تو کسی اللہ کو نہیں مانتا۔" سی مون ہنسا۔
"یہ آپ کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔" انسپکٹر جمشید نے کہا۔
"آپ بھی ایسی باتیں کہتے ہیں۔"
"ہاں کیوں نہیں۔ میں اپنے دین پر پوری طرح کاربند ہوں۔ اور اپنے دین سے بےتحاشہ محبت کرتا ہوں۔" وہ بولے۔
"میں نے تو سنا تھا کہ اب مسلمان بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔"
"جو لوگ ایسی باتیں کہتے ہیں وہ مسلمان نہیں۔ اصل باتیں تو وہی ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمﷺ فرما گئے ہیں۔ وہ آج بھی پتھر پر لکیر ہیں۔، آج کی سائنس بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷺ کی باتوں کو درست ماننے پر مجبور ہے۔"
ہاں: واقعی۔ اس بات پر مجھے بھی حیرت ہے۔"
"ہے نا حیرت۔ لیکن افسوس۔ آپ ایک اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو نہیں مانتے۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"کیا آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں مرتے وقت مسلمان ہو جاؤں۔"
"یہ آپ کی خوش قسمتی ہو گی۔"
"میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ روزہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن پر عمل نہیں کر سکتا۔"
"مطلب صاف ہے۔ مسلمان نہیں ہونا چاہتے۔"
"ہاں! بالکل۔ لیکن ان باتوں پر مجھے واقعی حیرت ہوتی ہے کہ آخر تم لوگوں کے نبی آج کے دور میں ہونے والی باتیں کیسے بتا گئے۔"
"اللہ تعالی نے انہیں غیب کی خبریں عطا کیں۔ اس لئے انہوں نے اپنی امت کو بتائیں۔"
"اوہو۔ ہم باتوں میں لگ گئے۔ ادھر وہ لوگ نزدیک آ گئے ہیں۔" سی مون چونکا
"پھر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔" خان رحمان بولے۔
"ہاں واقعی۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔" سی مون نے عجیب انداز میں کہا۔
"پورا مجمع اس وقت ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ شاید یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ ہم زندگی کی بھیک مانگنے کی کوشش کریں گے۔ روئیں گے، گڑگڑائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارا ایمان ہے۔ یہ لوگ ہمیں موت نہیں دے سکتے۔ نہ زندگی دے سکتے ہیں۔ زندگی دینا اور موت دینا صرف اور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اسی جگہ ہماری موت منظور ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں بچا سکتی۔ اور اگر ابھی ہماری زندگی باقی ہے تو یہ سب مل کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔" انسپکٹر کامران مرزا کہتے چلے گئے۔
"ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔" آفتاب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"آپ لوگوں کے بچے بھی کم دلیر نہیں۔ موت کو اسقدر نزدیک دیکھ کر بھی باتیں کرنے کے قابل ہیں۔" سی مون نے کہا۔
"اسی کا نام زندگی ہے۔" محمود بولا۔
صدر کے ان الفاظ کے ساتھ ہی ان کے سروں کے پاس اوپر سے رسیاں گریں۔ جو پھندے کی شکل کی تھیں۔
"قیدیو۔ ان پھندوں کو اپنی گردنوں میں ڈال لو۔"
"ایک منٹ جناب۔" سی مون پھر بول اٹھا۔
"مہمان خصوصی۔ آپ پھر بول اٹھے۔ حالاں کہ یہ ہمارے ملک کے اصول کے بالکل خلاف ہے۔ اور اگر آپ مہمان خصوصی نہ ہوتے تو اسی وقت آپ کو شوٹ کر دیا جاتا۔"
"میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔" اس بار سی مون رکے بغیر بلند آواز میں کہ گیا۔
اس کے الفاظ نے انہیں چونکا دیا۔
"نہیں مسٹر سی مون۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔" صدر نے بھنا کر کہا۔
"کیا میں یہ شرط پیش نہیں کر چکا کہ آپ انہیں موت کی سزا نہیں دیں گے۔ ہاں سمندر میں پھینکوا دین گے۔ پھر چاہے یہ ڈوب جائیں۔ چاہے بچ جائیں ۔ ان کی قسمت۔"
"بات ایک ہی رہی۔ وہ سزا بھی موت کی ہے اور یہ سزا بھی۔"
"لیکن اس میں بچ نکلنے کا امکان نہیں۔ اس میں امکان ہے۔"
"اور آپ ان کے بچ نکلنے کا کیوں پسند کرتے ہیں؟"
"یہ میرے بہت ہی بہادر دشمن ہیں۔"
"تو پھر۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔ کیا بہادر دشمنوں کو زندہ رکھنا چاہئے۔"
"میں ان لوگوں کو اس طرح مرتے نہیں دیکھ سکتا۔ یا تو یہ میرے ہاتھ سے مریں گے ۔ یا اپنی موت مریں گے۔ جو موت آپنے پسند کی ۔ وہ موت نہیں مریں گے۔"
"یہ میرا ملک ہے۔ یہاں میرا حکم چلتا ہے۔ آپ کا نہیں۔"
"لیکن معاہدہ معاہدہ ہے۔"
"تب پھر یہ معاہدہ ختم۔ آپ بھی اپنی سزا سنیں۔"
"ضرور ضرور۔ کیوں نہیں۔" سی مون بولا۔
"آپ بھی اپنے ان بہادر دشمنوں کے ساتھ جا کھڑے ہو جائیں۔ اور ایک پھندہ پہن لیں۔"
"اچھی بات ہے، لیکن ہم لوگ اپنے ہاتھوں سے پھندہ نہیں پہنیں گے۔" سی مون بولا۔
"وہ بعد کی بات ہے۔ جب نہیں پہنیں گے تو پھر میرے آدمی پہنائیں گے۔"
"میں چلا۔" سی مون بولا۔
اور پھر انہوں نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا۔ اب سارا مجمع سی مون کو دیکھ رہا تھا۔ مجمعے کی توجہ کا مرکز اب وہ نہیں۔ سی مون تھا۔ اور پھر وہ ان کے نزدیک آ گیا۔ وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا۔
"ہماری خاطر آپ بھی موت کو گلے لگا کر آ گئے مسڑ سی مون۔"
"کیا کیا جائے۔ آپ تو جانتے ہیں۔ میں اصولوں کا آدمی ہوں۔" سی مون مسکرایا۔
پھر اس نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ہاتھ باہر آیا تو اس میں ننھی ننھی گولیاں تھیں۔ ایک گولی اس نے منہ میں رکھ لی اور اسے چبانے لگا۔ پھر ایک گولی انسپکٹر جمشید کی طرف بڑھا دی اور اشارے میں کہا:
"آپ بھی چبا لیں۔"
انسپکٹر جمشید ایک لمحے کے لئے ہچکچائے، پھر ایک گولی اس کی ہتھیلی سے اٹھا کر منہ میں رکھ لی۔ اس کی ہتھیلی اب انسپکٹر کامران مرزا کی طرف بڑھ گئی۔
اسی طرح اس نے سب کو ایک ایک گولی دی، اسی وقت آواز ابھری۔
"تم لوگ خود یہ پھندے اپنے گلوں میں ڈالو گے یا میں اپنے آدمی بھیجوں۔"
"ہم اپنے ہاتھوں سے پھندے نہیں ڈالیں گے۔" سی مون نے کہا۔
"اچھی بات ہے۔"
اور پھر سو فوجیوں کا دستہ ان کی طرف بڑھنے لگا۔
"اب۔ اب کیا کیا جائے۔" محمود بولا۔
"اللہ کو یاد کرنے کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں۔" شوکی نے فورا کہا۔
"لل۔ لیکن میں کیا کروں۔ میں تو کسی اللہ کو نہیں مانتا۔" سی مون ہنسا۔
"یہ آپ کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔" انسپکٹر جمشید نے کہا۔
"آپ بھی ایسی باتیں کہتے ہیں۔"
"ہاں کیوں نہیں۔ میں اپنے دین پر پوری طرح کاربند ہوں۔ اور اپنے دین سے بےتحاشہ محبت کرتا ہوں۔" وہ بولے۔
"میں نے تو سنا تھا کہ اب مسلمان بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔"
"جو لوگ ایسی باتیں کہتے ہیں وہ مسلمان نہیں۔ اصل باتیں تو وہی ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمﷺ فرما گئے ہیں۔ وہ آج بھی پتھر پر لکیر ہیں۔، آج کی سائنس بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷺ کی باتوں کو درست ماننے پر مجبور ہے۔"
ہاں: واقعی۔ اس بات پر مجھے بھی حیرت ہے۔"
"ہے نا حیرت۔ لیکن افسوس۔ آپ ایک اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو نہیں مانتے۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"کیا آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں مرتے وقت مسلمان ہو جاؤں۔"
"یہ آپ کی خوش قسمتی ہو گی۔"
"میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ روزہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن پر عمل نہیں کر سکتا۔"
"مطلب صاف ہے۔ مسلمان نہیں ہونا چاہتے۔"
"ہاں! بالکل۔ لیکن ان باتوں پر مجھے واقعی حیرت ہوتی ہے کہ آخر تم لوگوں کے نبی آج کے دور میں ہونے والی باتیں کیسے بتا گئے۔"
"اللہ تعالی نے انہیں غیب کی خبریں عطا کیں۔ اس لئے انہوں نے اپنی امت کو بتائیں۔"
"اوہو۔ ہم باتوں میں لگ گئے۔ ادھر وہ لوگ نزدیک آ گئے ہیں۔" سی مون چونکا
"پھر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔" خان رحمان بولے۔
"ہاں واقعی۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔" سی مون نے عجیب انداز میں کہا۔
"پورا مجمع اس وقت ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ شاید یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ ہم زندگی کی بھیک مانگنے کی کوشش کریں گے۔ روئیں گے، گڑگڑائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارا ایمان ہے۔ یہ لوگ ہمیں موت نہیں دے سکتے۔ نہ زندگی دے سکتے ہیں۔ زندگی دینا اور موت دینا صرف اور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اسی جگہ ہماری موت منظور ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں بچا سکتی۔ اور اگر ابھی ہماری زندگی باقی ہے تو یہ سب مل کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔" انسپکٹر کامران مرزا کہتے چلے گئے۔
"ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔" آفتاب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"آپ لوگوں کے بچے بھی کم دلیر نہیں۔ موت کو اسقدر نزدیک دیکھ کر بھی باتیں کرنے کے قابل ہیں۔" سی مون نے کہا۔
"اسی کا نام زندگی ہے۔" محمود بولا۔