باطل قیامت

بدتمیز

محفلین
"بس خاموش رہئے۔ اور سنیے۔ آپ ہمارے خصوصی مہمان ہیں۔ ہاں تو میں ان کی سزا کا اعلان کر رہا تھا۔ ان لوگوں کو الٹا لٹکایا جائے گا۔ ان کے ننگے جسموں پر تیز دھار آلات سے چرکے لگائے جائیں گے اور ان پر نمک چھڑکا جائے گا۔ چرکے لگانے اور نمک چھڑکنے کا یہ عمل اسوقت تک جاری رہے گا۔ جب تک یہ ختم نہیں ہو جاتے۔ ختم ہونے کے بعد بھی یہ ایک ہفتے تک اسی طرح لٹکے رہیں گے۔ اور پھر ان پر بھوکے کتے چھوڑے جائیں گے۔"
صدر کے ان الفاظ کے ساتھ ہی ان کے سروں کے پاس اوپر سے رسیاں گریں۔ جو پھندے کی شکل کی تھیں۔
"قیدیو۔ ان پھندوں کو اپنی گردنوں میں ڈال لو۔"
"ایک منٹ جناب۔" سی مون پھر بول اٹھا۔
"مہمان خصوصی۔ آپ پھر بول اٹھے۔ حالاں کہ یہ ہمارے ملک کے اصول کے بالکل خلاف ہے۔ اور اگر آپ مہمان خصوصی نہ ہوتے تو اسی وقت آپ کو شوٹ کر دیا جاتا۔"
"میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔" اس بار سی مون رکے بغیر بلند آواز میں کہ گیا۔
اس کے الفاظ نے انہیں چونکا دیا۔
"نہیں مسٹر سی مون۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔" صدر نے بھنا کر کہا۔
"کیا میں یہ شرط پیش نہیں کر چکا کہ آپ انہیں موت کی سزا نہیں دیں گے۔ ہاں سمندر میں پھینکوا دین گے۔ پھر چاہے یہ ڈوب جائیں۔ چاہے بچ جائیں ۔ ان کی قسمت۔"
"بات ایک ہی رہی۔ وہ سزا بھی موت کی ہے اور یہ سزا بھی۔"
"لیکن اس میں بچ نکلنے کا امکان نہیں۔ اس میں امکان ہے۔"
"اور آپ ان کے بچ نکلنے کا کیوں پسند کرتے ہیں؟"
"یہ میرے بہت ہی بہادر دشمن ہیں۔"
"تو پھر۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔ کیا بہادر دشمنوں کو زندہ رکھنا چاہئے۔"
"میں ان لوگوں کو اس طرح مرتے نہیں دیکھ سکتا۔ یا تو یہ میرے ہاتھ سے مریں گے ۔ یا اپنی موت مریں گے۔ جو موت آپنے پسند کی ۔ وہ موت نہیں مریں گے۔"
"یہ میرا ملک ہے۔ یہاں میرا حکم چلتا ہے۔ آپ کا نہیں۔"
"لیکن معاہدہ معاہدہ ہے۔"
"تب پھر یہ معاہدہ ختم۔ آپ بھی اپنی سزا سنیں۔"
"ضرور ضرور۔ کیوں نہیں۔" سی مون بولا۔
"آپ بھی اپنے ان بہادر دشمنوں کے ساتھ جا کھڑے ہو جائیں۔ اور ایک پھندہ پہن لیں۔"
"اچھی بات ہے، لیکن ہم لوگ اپنے ہاتھوں سے پھندہ نہیں پہنیں گے۔" سی مون بولا۔
"وہ بعد کی بات ہے۔ جب نہیں پہنیں گے تو پھر میرے آدمی پہنائیں گے۔"
"میں چلا۔" سی مون بولا۔
اور پھر انہوں نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا۔ اب سارا مجمع سی مون کو دیکھ رہا تھا۔ مجمعے کی توجہ کا مرکز اب وہ نہیں۔ سی مون تھا۔ اور پھر وہ ان کے نزدیک آ گیا۔ وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا۔
"ہماری خاطر آپ بھی موت کو گلے لگا کر آ گئے مسڑ سی مون۔"
"کیا کیا جائے۔ آپ تو جانتے ہیں۔ میں اصولوں کا آدمی ہوں۔" سی مون مسکرایا۔
پھر اس نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ہاتھ باہر آیا تو اس میں ننھی ننھی گولیاں تھیں۔ ایک گولی اس نے منہ میں رکھ لی اور اسے چبانے لگا۔ پھر ایک گولی انسپکٹر جمشید کی طرف بڑھا دی اور اشارے میں کہا:
"آپ بھی چبا لیں۔"
انسپکٹر جمشید ایک لمحے کے لئے ہچکچائے، پھر ایک گولی اس کی ہتھیلی سے اٹھا کر منہ میں رکھ لی۔ اس کی ہتھیلی اب انسپکٹر کامران مرزا کی طرف بڑھ گئی۔
اسی طرح اس نے سب کو ایک ایک گولی دی، اسی وقت آواز ابھری۔
"تم لوگ خود یہ پھندے اپنے گلوں میں ڈالو گے یا میں اپنے آدمی بھیجوں۔"
"ہم اپنے ہاتھوں سے پھندے نہیں ڈالیں گے۔" سی مون نے کہا۔
"اچھی بات ہے۔"
اور پھر سو فوجیوں کا دستہ ان کی طرف بڑھنے لگا۔
"اب۔ اب کیا کیا جائے۔" محمود بولا۔
"اللہ کو یاد کرنے کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں۔" شوکی نے فورا کہا۔
"لل۔ لیکن میں کیا کروں۔ میں تو کسی اللہ کو نہیں مانتا۔" سی مون ہنسا۔
"یہ آپ کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔" انسپکٹر جمشید نے کہا۔
"آپ بھی ایسی باتیں کہتے ہیں۔"
"ہاں کیوں نہیں۔ میں اپنے دین پر پوری طرح کاربند ہوں۔ اور اپنے دین سے بےتحاشہ محبت کرتا ہوں۔" وہ بولے۔
"میں نے تو سنا تھا کہ اب مسلمان بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔"
"جو لوگ ایسی باتیں کہتے ہیں وہ مسلمان نہیں۔ اصل باتیں تو وہی ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمﷺ فرما گئے ہیں۔ وہ آج بھی پتھر پر لکیر ہیں۔، آج کی سائنس بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷺ کی باتوں کو درست ماننے پر مجبور ہے۔"
ہاں: واقعی۔ اس بات پر مجھے بھی حیرت ہے۔"
"ہے نا حیرت۔ لیکن افسوس۔ آپ ایک اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو نہیں مانتے۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"کیا آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں مرتے وقت مسلمان ہو جاؤں۔"
"یہ آپ کی خوش قسمتی ہو گی۔"
"میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ روزہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن پر عمل نہیں کر سکتا۔"
"مطلب صاف ہے۔ مسلمان نہیں ہونا چاہتے۔"
"ہاں! بالکل۔ لیکن ان باتوں پر مجھے واقعی حیرت ہوتی ہے کہ آخر تم لوگوں کے نبی آج کے دور میں ہونے والی باتیں کیسے بتا گئے۔"
"اللہ تعالی نے انہیں غیب کی خبریں عطا کیں۔ اس لئے انہوں نے اپنی امت کو بتائیں۔"
"اوہو۔ ہم باتوں میں لگ گئے۔ ادھر وہ لوگ نزدیک آ گئے ہیں۔" سی مون چونکا
"پھر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔" خان رحمان بولے۔
"ہاں واقعی۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔" سی مون نے عجیب انداز میں کہا۔
"پورا مجمع اس وقت ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ شاید یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ ہم زندگی کی بھیک مانگنے کی کوشش کریں گے۔ روئیں گے، گڑگڑائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارا ایمان ہے۔ یہ لوگ ہمیں موت نہیں دے سکتے۔ نہ زندگی دے سکتے ہیں۔ زندگی دینا اور موت دینا صرف اور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اسی جگہ ہماری موت منظور ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں بچا سکتی۔ اور اگر ابھی ہماری زندگی باقی ہے تو یہ سب مل کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔" انسپکٹر کامران مرزا کہتے چلے گئے۔
"ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔" آفتاب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"آپ لوگوں کے بچے بھی کم دلیر نہیں۔ موت کو اسقدر نزدیک دیکھ کر بھی باتیں کرنے کے قابل ہیں۔" سی مون نے کہا۔
"اسی کا نام زندگی ہے۔" محمود بولا۔
 

بدتمیز

محفلین
"اسی کا نام زندگی ہے۔" محمود بولا۔
"آپ نے مسٹر سی مون۔ یہ ہمیں۔ گگ۔ گو۔" مکھن کہنے لگا تھا کہ سی مون بول پڑا۔
"وہ دیکھیں۔ فوجی ہمارے نزدیک آ گئے ہیں۔ اور آپ اس وقت بھی مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں آپ لوگوں پر جس قدر بھی تعجب کروں کم ہے۔ دوسری بات کہ اس وقت ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ آپ لوگوں کی خاطر میں بھی موت کو گلے لگا رہا ہوں۔"
یہ الفاظ سی مون نے بہت جلدی جلدی کہے۔ انسپکٹر جمشید چونک اٹھے۔ انہیں نے فورا مکھن کا بازو پکڑ کر دبا دیا۔ یہ اشارہ تھا۔ خاموش رہنے کا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا:
"آپ کی اصول پسندی کے ہم قائل ہیں۔ اس وقت بھی آپ اپنے اصول کی وجہ سے جان دے رہے ہیں۔ اس آخری وقت میں میں آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، کیوں کہ مرنے سے پہلے پہلے۔ ہوش و حواس کی حالت میں جو شخص بھی سچے دل سے کلمہ طیبہ پڑھ لے گا۔ جنت میں جائے گا۔
"بس۔ مجھ سے یہ باتیں نہ کریں۔ میں ایسی باتیں سن کر بہت گھبراتا ہوں۔ لیجئے۔ وہ اور نزدیک آ گئے۔ موت اب ہم سے صرف چند قدم کے فاصلے پر رہ گئی ہے۔"
انہوں نے دیکھا۔ فوجی واقعی بہت نزدیک آ گئے تھے۔ ایسے میں نہ جانے کیوں، انسپکٹر جمشید زور سے چونکے۔
"بہتر تو یہی تھا کہ تم لوگ پھندے اپنے گلوں میں خود ڈال لیتے۔"
"ہم کیوں یہ زحمت کریں۔ آپ کس مرض کی دوا ہیں۔" آفتاب نے جل بھن کر کہا۔
"خیر۔ ہم تو آ ہی گئے ہین۔" دوسرا بھنا کر بولا۔
پھر وہ اور آگے بڑھے۔ انہوں نے پھندوں کی طرف ہاتھ بڑھا دئے اور عین اسی وقت سی مون نے ہاتھ میں پکڑی گیند نما کوئی چیز فرش پر دے ماری۔ اس نے غیر محسوس طور پر یہ گیند جیب سے نکالی تھی۔ ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے فورا بعد دھوئیں کا ایک گہرا بادل فرش سے اٹھا اور چاروں طرف پھیلنے لگا۔ اس کے پھیلنے کی رفتار حد درجہ تیز تھی۔
"خبردار۔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لو۔" انسپکٹر جمشید بلند آواز میں بولے۔
"ہاں: سب لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں اور میں انسپکٹر جمشید کا ہاتھ پکڑوں گا۔ اب آپ لوگ میرے پیچھے پیچھے آئیں گے۔"
اور۔ اور یہ فوجی۔"
"وہ تو کب کے بے ہوش ہو چکے ہیں۔ یہ دھواں اب سارے پورے میدان پر چھا جائے گا۔ ان گنت لوگ بے ہوش ہو ہو کر گریں گے۔ کچھ بھاگ نکلیں گے اور دھوئیں کی زد سے دور نکل جائیں گے۔ وہ بے ہوش نہیں ہوں گے۔ اور ان کے درمیان سے ہم نکلتے چلے جائیں گے۔ کوئی محسوس نہیں کر سکے گا کہ یہ ہم ہیں۔ انہیں تو اپنی پڑی ہو گی۔"
"ہوں! لیکن ہم کیوں بے ہوش نہیں ہوئے۔" اخلاق نے پوچھا۔
"اب تک گولیوں کا مقصد نہیں سمجھے۔" فاروق نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"اوہ۔ اوہ۔" ان کے منہ سے نکلا۔
"دھواں اب تک چاروں طرف بیٹھے لوگوں کے قریب پہنچ چکا ہو گا۔ اب ہم بھاگنا شروع کر سکتے ہیں۔" سی مون نے کہا اور انسپکٹر جمشید کا ہاتھ پکڑ کر دوڑنے لگا۔ یہ اسے پہلے ہی اندازہ تھا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔
اب وہ سب ایک قطار میں دوڑ رہے تھے۔ نہ جانے سی مون کس طرح گہرے دھوئیں میں دیکھنے کے قابل تھا۔ انہیں تو چند ہاتھ دور کی چیز نہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ فاروق سے رہا نہ گیا۔ پوچھ ہی بیٹھا:
"آپ اس دھوئیں میں کس طرح دیکھ رہے ہیں مسڑ سی مون؟"
"میں نے ایک خاص عینک لگا رکھی ہے۔ جس کی مدد سے میں بالکل صاف دیکھ رہا ہوں۔ جب کہ اس دھوئیں کے اندر کوئی بھی کچھ دیکھنے کے قابل نہیں ہے اور اسی لئے ہم بغیر کسی دقت کے نکل جائیں گے۔"
وہ دوڑتے رہے۔ یہاں تک کہ میدان سے باہر نکل آئے۔ اب سی مون کا رخ تبدیل ہو گیا۔ اور پھر وہ گاڑیوں کی لمبی قطاروں تک پہنچ گئے۔ تماشائیوں میں سے کوئی بھی ابھی تک وہاں نہیں پہنچا تھا۔ سی مون نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ ایک بڑی گاڑی کا دروازہ کھول ڈالا اور ان سے بولا:
"آپ سب گاڑی پر سوار ہو جائیں۔ گائی میں چلاؤں گا۔"
وہ کیا کہ سکتے تھے۔ اس وقت کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔ جلدی ہی گاڑی تیر کی طرح وہاں سے نکلی اور ایک سمت میں بڑھی۔ اور پھر وہ اڑی جا رہی تھی۔
"لیکن مسٹر سی مون۔ ہم جا کہاں رہے ہیں؟"
"آپ کو آج یہ بات معلوم ہو گی کہ میں سی مون کیوں کہلاتا ہوں۔" وہ مسکرایا۔
"کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم سمندر کے ذریعے جائیں گے۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"اوہو۔ آپ میرا اشارہ سمجھ گئے۔" کمال ہے۔"
"اس میں کمال کی بات نہیں۔ میرے ساتھ انسپکٹر کامران مرزا بھی اس جملے کا مطلب سمجھ گئے ہیں۔" انہوں نے کہا۔
"کیوں نہ ہم یہیں سے الگ الگ ہو جائیں۔ آخر ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔" خان رحمان نے کہا۔
"ابھی ہم خطرے سے باہر نہیں ہیں۔ خطرے سے باہر ہونے پر میں خود آپ سے الگ ہو جانا پسند کروں گا۔" سی مون نے برا منہ بنایا۔
قریبا آدھ گھنٹے بعد انہوں نے سمندر کی موجوں کا شور سنا۔ سی مون نے گاڑی روک دی اور ساحل کی طرف دوڑ پڑا۔ انہوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
"آپ لوگ ایک گھنٹے تک تیر سکتے ہیں۔" وہ ان کی طرف مڑا۔
"ضرور۔ لیکن آپ چاہتے کیا ہیں؟"
"ایک گھنٹے تک تیرنے کے بعد ہم ایسی جگہ پہنچ سکتے ہیں جہاں سے ہم بآسانی اپنی اپنی راہ لیں گے۔"
"ٹھیک ہے۔ ہم تیر سکتے ہیں۔"
"تو پھر لگا دیں چھلانگیں۔" اس نے کہا۔
وہ سمندر میں تیرنے لگے۔ انسپکٹر جمشید پروفیسر داؤد اور شوکی برادرز کی طرف سے فکرمند تھے۔ تیرنا تو انہیں آتا تھا۔ لیکن ایک گھنٹے تک تیرنے کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ تاہم ہو خاموش رہے۔ تیرنے کا عمل جاری رہا۔ اور پھر وہ ایک سر سبز جزیرے پر پہنچ گئے۔ جزیرے کے پاس دو لانچیں کھڑی تھیں۔ ریت پر کچھ لوگ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے تیرنے کی آوازیں سن کر وہ ہڑبڑا کر اٹھے۔ اور پھر ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا:
"اوہ۔ مسٹر سی مون۔"
"ہاں! میں اور میرے ساتھی۔" سی مون نے مسکرا کر کہا۔
"وہ جزیرے پر پہنچ گئے۔ کتی ہی دیر ریت پر بیٹھے سانس لیتے رہے۔ پھر سی مون اٹھا اور اپنے ساتھیوں سے بولا"۔
"ہم ابھی اور اسی وقت یہاں سے روانہ ہو رہے ہیں۔"
"او کے سر۔"
"ایک لانچ یہ لوگ لے جائیں گے ، دوسری میں ہم جائیں گے۔"
"کیا مطلب؟'
"یہ لوگ ہمارے دوست نہیں، دشمن ہیں۔ لیکن وقتی طور پر ہمیں ایک ساتھ سفر کرنا پڑ گیا تھا۔"
"اگر یہ دشمن ہیں تو ان سے فیصلہ کیوں نہ کر لیا جائے، بلا وجہ ایک لانچ انہیں کیوں دی جائے۔" سی مون کا ایک ساتھی بولا۔
"نہیں بھئی۔ یہ میرے اصول کے خلاف ہے۔ اور پھر میں ان لوگوں کو بہت پسند کرتا ہوں۔"
"اوہ۔ تب یہ لوگ انسپکٹر جمشید وغیرہ ہیں۔"
"ہاں! تمہارا یہ خیال ٹھیک ہے۔"
 

بدتمیز

محفلین
آخر وہ لانچوں کی طرف چل پڑے، پھر الگ الگ لانچ پر سوار ہو گئے۔
"مسٹر سی مون۔ آپ نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ آپ کا یہ سلوک ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ اور اگر کبھی ایسا کوئی موقع ہمیں ملا تو ہم آپ کے ساتھ اس سے بھی بہتر سلوک کریں گے۔"
"تم سلوک کرو گے۔ ارے میاں جاؤ۔" سی مون کا ایک ساتھی بولا۔
"نہیں بھئی۔ اس لہجے میں بات نہ کرو۔ یہ لوگ عام لوگ نہیں۔، میں کہہ چکا ہوں۔ اب چلو۔" سی مون نے برا مان کر کہا۔
"اچھا مسٹر سی مون۔ پھر ملیں گے۔ اگر زندگی رہی۔"
دونوں لانچیں مختلف سمتوں میں بڑھنے ہی لگی تھیں کہ سی مون چلا اٹھا:
"ارے ہاں! میں نے آپ لوگوں کو یہ تو بتایا ہی نہیں کہ آپ کو کس زاویے پر رہ کر سفر کرنا ہے۔ ستر کے زاویے پر سوئی رکھ کر سفر کرتے جائیں۔ آپ اپنے ملک میں پہنچ جائیں گے۔"
"اہوہ! یہ معلومات آپ کو کس طرح ہین؟"
"مجھے سی مون بلاوجہ نہیں کہا جاتا۔ سمندروں کے بارے میں جو معلومات مجھے ہیں۔ اس وقت روئے زمین پر شائد ہی کسی کو ہوں گی۔ اور میرے آدمی خفیہ جزیروں پر موجود رہتے ہیں۔" اچھا اب چلتے ہین۔" اس نے ہاتھ ہلایا۔
"اوہ!" ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
"ایک منٹ مسٹر سی مون۔ بیگال کا صدر آپ کو بھی ہمارے ساتھ موت کے گھاٹ اتارنے پر تیار ہو گیا۔ کیا آپ اب بھی نہیں بتائیں گے۔ اس کامیابی کا راز کیا ہے؟"
"ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ یہ کامیابی صرف بیگال نے نہیں۔ تمام غیر مسلم ممالک نے حاصل کی ہے۔" اس نے زور سے سر ہلایا۔
"افسوس! اس وقت ہم آپ کے ساتھ زبردستی یہ راز معلوم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔" فاروق نے کہا۔
"اوہ تو یہ بات ہے۔ خیر۔ میرے اس احسان کو بھول جائیں، میں کبھی بھی نہیں جتاؤں گا اور نہ اس کا بدلہ چاہوں گا، اب اگر آپ مجھ پر حملہ کرنا پسند کرتے ہیں تو میں تیار ہوں۔"
"نن۔ اس کے باوجود ہم یہ نہیں کریں گے۔" انسپکٹر جمشید نے انکار میں سر ہلایا۔
"کیوں جمشید۔ آخر یہ پوری امت مسلمہ کا معاملہ ہے۔" پروفیسر داؤد گھبرا کر بولے۔
"ہاں! ضرور ہے۔ لیکن اس وقت ہم مسٹر سی مون پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ انسپکٹر جمشید بولے۔
خان رحمان اور پروفیسرا داؤد نے جلدی سے سوالیہ انداز میں انسپکٹر کامران مرزا کی طرف دیکھا جیسے ان کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہوں۔
"میرا بھی یہی مشورہ ہے۔"
"ایک تو آپ کے مشورے آپس میں کبھی نہیں ٹکراتے۔" فرزانہ نے منہ بنایا۔
"اوہو۔ تو تم سب ہی حملہ کرنے کے خواہش مند ہو۔"
"ہاں!" وہ ایک ساتھ بولے۔
"لیکن ہم دونوں اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیں گے۔"
"آخر کیوں!" وہ چلا اٹھے۔
"پھر بتائیں گے۔" انسپکٹر جمشید نے کہا اور پھر ہاتھ ہلاتے ہوئے بولے۔
"اب ہم رخصت ہوتے ہیں مسٹر سی مون۔"
"اس میں کوئی شک نہیں۔ کہ آپ دونوں حد درجے عقلمند ہیں۔ اس وقت آپ نے جس عقلمندی سے کام لیا ہے۔۔ اس کا اندازہ میں ہی لگا سکتا ہوں۔" سی مون نے مسکرا کر کہا۔
"کیا مطلب؟" ان میں سے کئی کے منہ سے نکلا۔
"مطلب انہیں سے پوچھنا۔ میں چلا۔" سی مون نے کہا اور ہاتھ ہلایا۔
پھر اس کی لانچ تیر کی طرح آگے بڑھ گئی اور انہوں نے بھی لانچ چلا دی۔
"ہم نے اس پر حملہ کیوں نہیں کیا ابا جان؟" سی مون کی لانچ پر نظریں جمائے محمود نے پوچھا۔
"اس پر حملہ کر کے اس وقت ہم منہ کی کھاتے۔ اس لئے کہ ہم اس کی دی ہوئ لانچ میں سوار تھے۔ یہ جزیرہ اس کے قبضے میں ہے۔ یہاں اس کے اور بھی ساتھی ہوں گے۔ جو ہمیں نشانہ بنائے بیٹھے ہونگے۔ اور پھر ان لانچوں کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتے۔ جب کہ سی مون اور اس کے آدمیوں کو ان کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہیں۔ لہذا اس سے بھڑنے کا یہ وقت ہرگز نہیں تھا۔ ہمارا اس سے سامنا ہو گا۔ ضرور ہو گا۔"
"اور وہ کامیابی؟"
"ہاں! اس نے ہمیں بہت پریشان کر دیا ہے۔ مارے الجھن کے برا حال ہے۔ بس نہیں چل رہا کہ کس طرح یہ راز معلوم کریں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم ہوش و حواس کھو بیٹھتے اور ان پر حملہ کر دیتے۔ عقل سے کام لینا بہر حال بہتر ہو گا۔ ہم عقل سے کام لے کر اس کامیابی کا راز معلوم کریں گے انشااللہ۔
"اوہ۔ جمشید۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔" خان رحمان نے کہا۔
"میں تم لوگوں کے اطمینان کے لیے ایک بات کہ دینا کافی خیال کرتا ہوں۔" انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔
"اور وہ کیا؟"
"یہ کہ۔ اس مہم میں۔ یعنی بیگال میں داخلہ اور وہاں سے فرار تک کے عرصے میں ہم ناکام نہیں رہے۔"
"جی۔ کیا مطلب۔ ہم ناکام نہیں رہے۔ اگر یہ ناکامی نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ آخر ناکامی پھر کس کو کہتے ہیں۔
"بعض کامیابیاں اسی بھی ہوتی ہیں جو ظاہر میں ناکامی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر صلح حدیبیہ کا واقعہ۔" انسپکٹر نے کہا۔
"اوہ ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔" اشفاق جلدی سے بولا۔
"ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کہ ایسا ہوتا ہے۔، لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت ہم نے کیا کامیابی حاصل کی ہے؟"
"تم لوگوں نے۔ یا آپ میں سے کسی نے ان سو فوجیوں کی طرف توجہ دی تھی۔ جو ہمارے گلوں میں پھندے ڈالنے کے لیے بڑھ رہے تھے۔" انسپکٹر جمشید پر اسرار انداز میں بولے۔
"نن۔ نہیں۔ ہم تو اس وقت سی مون کی طرف متوجہ تھے۔" وہ بولے۔
"لیکن میں نے انہیں دیکھا تھا۔" انسپکٹر کامران مرزا بول اٹھے۔
"تب پھر آپ نے بھی وہ بات محسوس کر لی ہو گی۔" انسپکٹر جمشید نے جلدی سے کہا۔
"ہاں! بالکل۔" انہوں نے مسکرا کر کہا۔
"آخر وہ کیا بات تھی؟" اب تو مارے بے چینی کے ان کا برا حال ہو گیا۔
انسپکٹر جمشید نے کوئی جواب نہ دیا۔ ان کی نظریں سطح سمند پر جم کر رہ گئیں تھیں۔
"آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ابا جان۔"
"ابھی نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم جس لانچ میں سفر کر رہے ہیں۔ وہ سی مون کی لانچ ہے، ہو سکتا ہے۔ اس میں اس نے کوئی ایسا آلہ فٹ کر رکھا ہو۔ جس کے ذریعے وہ ہماری گفتگو اس دوسری لانچ میں سن رہا ہو۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"اوہ!" وہ دھک سے رہ گئے۔ منہ حیرت اور خوف سے کھل گئے۔
"تب پھر آپ نے ان فوجیوں کا ذکر بھی کیوں کیا؟" فرازانہ نے کہا۔
 

بدتمیز

محفلین
تب پھر آپ نے ان فوجیوں کا ذکر بھی کیوں کیا؟" فرزانہ نے کہا۔
"اتنی سی بات سے سی مون کچھ نہیں سمجھ سکتا۔ اور اگر سمجھ بھی جائے تو اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ یہ غلطی مجھ سے ہو چکی ہے۔"
"شکریہ۔ اب ہم ساری بات سمجھ گئے ہیں۔ اور لانچ سے اترنے سے پہلے کوئی سوال نہیں کریں گے۔" آفتاب نے کہا۔
"لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم بالکل چپ ہو جاؤ۔ اس طرح تو یہ سفر بور ہو جائے گا۔" پروفیسر داؤد نے مسکرا کر کہا۔
جی بہتر! ہم ہونٹ ہلاتے رہیں گے۔ آپ فکر نہ کریں۔" مکھن مسکرایا۔
"ہونٹ ہلانے کے ماہر جو ہوئے۔" محمود نے منہ بنایا۔
"ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی کام کا ماہر ہے۔ لہذا یہ جملہ سب کے لیے کہا جاسکتا ہے۔" فاروق بولا۔
"لیکن اس بار ہماری تمام تر مہارتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔" آفتاب نے منہ بنایا۔
"بھئی ایسا بھی ہوتا ہے۔ دل چھوٹا نہ کرو۔" آصف نے مسکرا کر جواب دیا۔
"اب کیا دل چھوٹا کرو گا۔ اس وقت تک ہی ضرورت سے زیادہ چھوٹا ہو چکا ہوگا۔" آفتاب بولا۔
"اوہو۔ تب تو۔ تمہارے دل کا ڈاکٹری معائنہ کرانا پڑے گا۔" محمود بولا۔
"ہروفسر انکل سے معائنہ کروا لیتے ہیں۔ لانچ میں تو یہی ڈاکٹر میسر ہیں۔" فرحت نے شوک آواز میں کہا۔
"مم۔ میں۔ وہ والا ڈاکٹر نہیں ہوں۔ سائنس کا ڈاکٹر ہوں۔" پروفیسر داؤد گھبرا گئے۔
"تو کیا ہوا۔ آپ ذرا سائنسی انداز کا معائنہ کر لیجیے گا۔"
"نہیں بھئی۔ یہ نہیں ہو سکتا۔"
"تب تو آفتاب کا اور اس کے دل کا اللہ ہی حافظ ہے۔" فرازانہ بولی۔
"چلو شکر ہے۔ اللہ ہی حافظ ہے۔ اس سے بہت کون حافظ ہو سکت اہے۔" آفتاب نے اسے گھورا۔
اور پھر کئی گھنٹے کے سفر کے بعد ان کی لانچ ان کے ساحل پر جا لگی۔ ساحل پر اتر کر انہوں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ نہ جانے کیوں انسپکٹر جمشید کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

• شش۔۔۔شش*

"خیر تو ہے۔ آپ کی آنکھوں میں الجھن نظر آ رہی ہے۔" محمود نے ان کی طرف بغور دیکھا۔ ادھر آفتاب نے انسپکڑ کامران مرزا کی طرف دیکھا۔ وہاں بھی الجھن مچل رہی تھی:
"خیر تو ہے ابا جان۔" آفتاب نے بھی کہا۔
"ہمارا خیال ٹھیک تھا۔ اس لانچ پر ہونے والی گفتگو سی مون سنتا رہا ہے۔ اور نے یہاں موجود اپنے ساتھیوں یا کچھ اور لوگوں کو اطلاع دے دی ہے۔ لہذا وہ لوگ اب ساحل پر موجود ہیں۔ اور یقینا اب ہمارا تعاقب کیا جائے گا۔ لیکن بہرحال یہ برا نہیں ہوا، بلکہ ہمارے حق میں اچھا ہی ہوا۔" انسپکٹر جمشید نے جلدی جلدی کہا۔
"اگر یہ برا نہیں ہوا۔ اور اچھا ہوا ہے تو پھر آپ الجھن کیوں محسوس کر رہے ہیں؟" فرزانہ نے پوچھا۔
 
Top