پلیز اس پوسٹ میں رپلائی نہ کریں کیونکہ اس میں صرف کہانی کی پوست ہو گی۔
وہ کون تھا۔
صدر مملکت کے ذریعے ملنے والا خط پڑتے ہوئے ان کے دلوں کی ڈھرکنیں تیز ہوتی چلی گئیں۔ الفاظ عجیب تھے:
''ہمارے عزیز بچو! السلام علیکم۔
یہ خط پا کر تم حیران تو ضرور ہو گے۔ ہماری گم شدگی ہی تم سب کے لئے کچھ کم حیرت انگیز ثابت نہیں ہوئی ہو گی۔ اوپر سے یہ خط۔ لیکن کیا کیا جائے۔ مجبوری ہے۔
ویسے حیرت زدہ ہونا، صحت کے لیے برا نہیں۔ یوں بھی تم لوگ حیرت زدہ رہ جانے کے معاملے میں کنجوس نہیں ہو۔ اب ہم خود تم لوگوں کو اجازت دے رہے ہیں۔
ہم اپنے ملک سے دور ایک دوسرے ملک میں موجود ہیں۔ کیوں موجود ہیں، یہ ملاقات پر بتائیں گئے۔
پہلے ہم نے سوچاتھا کہ ہم چار مل کر ہی کام چلا لیں گے، کام تو خیر چل جائے گا، لیکن یہاں آ کر ہم تم لوگوں کے بغیر بہت اداس ہو گئے ہیں، خاص طور پر تمہارے انکل خان عبدالرحمان اور پروفیسر انکل بہت اداس ہیں اور بار بار تم لوگوں کو بلانے کے لئے کہتے رہتے ہیں، بلکہ یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر تم لوگوں کو نہ بلایا گیا تو اس
مہم کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں گے۔ ان حالات میں ہمارے لئے یہی چارہ کار رہ گیا تھا کہ تمھیں خط لکھ کر بلا لیں۔ لیکن خط لکھنا اور صدر صاحب تک پہنچانا آسان کام نہیں تھا۔ بہر حال اس کے لئے بہت لمبا چکر چلایا گیا۔ اب تم لوگ بھی اسی طرح چکر کے ذریعے ہم تک پہنچو گے۔ اس سلسلے میں صدر صاحب تم لوگوں کی مدد کریں گے۔
اور تم ہم تک پہنو گے۔ اطلاعاََ بتا دیتے ہیں کہ ہم اپنی مہم کے امکانات کا جائزہ لے چکے ہیں۔ بس میدان عمل میں اترنا باقی ہے۔ کب کے اتر چکے ہوتے، لیکن تمھارے دونوں انکل آڑے آ گئے۔ لہٰذہ ان کی خواہش کے احترام میں تم لوگوں کو بلانے پر مجبور ہیں۔ بس چلے آؤ ۔ ہم انتظار کر رہے ہیں۔
انسپکٹر جمشید ، انسپکٹر کامران مرزا ۔ ''
خط ختم کر کے انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ فاروق نے منہ بنا کر کہا:
'' ایک مہم سے فارغ ہو کر ابھی سانس لینے پائے نہیں کہ دوسری آ ٹپکی ۔ اسے کہتے ہیں ، ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔''
'' میرا خیال ہے ۔ ایک کریلا دوسرا نیم چرھا ہر گز نہیں کہتے ۔ بلکہ یک نہ شد دو شد کہ سکتے ہیں۔'' آفتاب بولا۔
'' چلو تم یہی کہ لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ نہ ہی میرا محاورات کا مقابلہ کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔'' فاروق نے منہ بنایا۔
'' گویا اب ہمیں پھر تیار ہو کر صدر صاحب کے پاس جانا ہو گا۔ انھوں نے بھی اسی لیے ہمیں گھر بھیج دیا کہ ہم امّی جان سے مل لیں۔'' محمود بڑبڑایا۔
'' خیر۔ ان سے تو ملاقات ہو چکی۔'' آصف نے کہا۔
'' اب رہ گئی تیاری۔ تو اس کی ایسی کیا ضرورت ہے۔ میک اَپ کرنے کی ہدایات تو ملی نہیں۔'' فرزانہ بولی۔
'' گویا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ اب اُٹھ چلیں۔'' فرحت مسکرائی۔
'' ہاں میں ابا جان سے ملنے کے لئے بری طرح بے تاب ہوں۔ اتنی مدت کے لئے ہم ایک دوسرے سے کبھی نہیں بچھڑے۔'' اس نے کہا۔
'' میرا بھی ہی حال ہے۔'' آفتاب نے کہا۔
'' یہ حال اگر نہیں ہے تو ہمارا۔'' مکھن مسکرایا۔
اور پھر وہ تیاری میں لگ گئے۔ فارغ ہو کر بیگم جمشید کی طرف حاضر ہوئے:
'' امی جان ۔ اجازت ہے۔''
''کیا مطلب۔ کس بات کی اجازت؟'' وہ حیران رہ گئیں۔
''آپ خط تو پڑھ ہی چکی ہیں۔''
'' ہاں ! اللہ کا شکر ہے۔ ان کی کوئی اطلاع تو ملی۔''
'' تو ہمیں اجازت ہے۔'' محمود بولا۔
'' میری کیا مجال ہے۔ کہ اجازت نہ دوں۔ تم لوگ بنے ہی ان کاموں کے لئے ہو۔'' انھوں نے منہ بنایا۔
ابھی وہ اللہ حافظ کہ کر درازے کی طرف مڑے ہی تھے کہ گھنٹی بجی۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا، پھر محمود نے کہا۔
وہ کون تھا۔
صدر مملکت کے ذریعے ملنے والا خط پڑتے ہوئے ان کے دلوں کی ڈھرکنیں تیز ہوتی چلی گئیں۔ الفاظ عجیب تھے:
''ہمارے عزیز بچو! السلام علیکم۔
یہ خط پا کر تم حیران تو ضرور ہو گے۔ ہماری گم شدگی ہی تم سب کے لئے کچھ کم حیرت انگیز ثابت نہیں ہوئی ہو گی۔ اوپر سے یہ خط۔ لیکن کیا کیا جائے۔ مجبوری ہے۔
ویسے حیرت زدہ ہونا، صحت کے لیے برا نہیں۔ یوں بھی تم لوگ حیرت زدہ رہ جانے کے معاملے میں کنجوس نہیں ہو۔ اب ہم خود تم لوگوں کو اجازت دے رہے ہیں۔
ہم اپنے ملک سے دور ایک دوسرے ملک میں موجود ہیں۔ کیوں موجود ہیں، یہ ملاقات پر بتائیں گئے۔
پہلے ہم نے سوچاتھا کہ ہم چار مل کر ہی کام چلا لیں گے، کام تو خیر چل جائے گا، لیکن یہاں آ کر ہم تم لوگوں کے بغیر بہت اداس ہو گئے ہیں، خاص طور پر تمہارے انکل خان عبدالرحمان اور پروفیسر انکل بہت اداس ہیں اور بار بار تم لوگوں کو بلانے کے لئے کہتے رہتے ہیں، بلکہ یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر تم لوگوں کو نہ بلایا گیا تو اس
مہم کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں گے۔ ان حالات میں ہمارے لئے یہی چارہ کار رہ گیا تھا کہ تمھیں خط لکھ کر بلا لیں۔ لیکن خط لکھنا اور صدر صاحب تک پہنچانا آسان کام نہیں تھا۔ بہر حال اس کے لئے بہت لمبا چکر چلایا گیا۔ اب تم لوگ بھی اسی طرح چکر کے ذریعے ہم تک پہنچو گے۔ اس سلسلے میں صدر صاحب تم لوگوں کی مدد کریں گے۔
اور تم ہم تک پہنو گے۔ اطلاعاََ بتا دیتے ہیں کہ ہم اپنی مہم کے امکانات کا جائزہ لے چکے ہیں۔ بس میدان عمل میں اترنا باقی ہے۔ کب کے اتر چکے ہوتے، لیکن تمھارے دونوں انکل آڑے آ گئے۔ لہٰذہ ان کی خواہش کے احترام میں تم لوگوں کو بلانے پر مجبور ہیں۔ بس چلے آؤ ۔ ہم انتظار کر رہے ہیں۔
انسپکٹر جمشید ، انسپکٹر کامران مرزا ۔ ''
خط ختم کر کے انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ فاروق نے منہ بنا کر کہا:
'' ایک مہم سے فارغ ہو کر ابھی سانس لینے پائے نہیں کہ دوسری آ ٹپکی ۔ اسے کہتے ہیں ، ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔''
'' میرا خیال ہے ۔ ایک کریلا دوسرا نیم چرھا ہر گز نہیں کہتے ۔ بلکہ یک نہ شد دو شد کہ سکتے ہیں۔'' آفتاب بولا۔
'' چلو تم یہی کہ لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ نہ ہی میرا محاورات کا مقابلہ کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔'' فاروق نے منہ بنایا۔
'' گویا اب ہمیں پھر تیار ہو کر صدر صاحب کے پاس جانا ہو گا۔ انھوں نے بھی اسی لیے ہمیں گھر بھیج دیا کہ ہم امّی جان سے مل لیں۔'' محمود بڑبڑایا۔
'' خیر۔ ان سے تو ملاقات ہو چکی۔'' آصف نے کہا۔
'' اب رہ گئی تیاری۔ تو اس کی ایسی کیا ضرورت ہے۔ میک اَپ کرنے کی ہدایات تو ملی نہیں۔'' فرزانہ بولی۔
'' گویا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ اب اُٹھ چلیں۔'' فرحت مسکرائی۔
'' ہاں میں ابا جان سے ملنے کے لئے بری طرح بے تاب ہوں۔ اتنی مدت کے لئے ہم ایک دوسرے سے کبھی نہیں بچھڑے۔'' اس نے کہا۔
'' میرا بھی ہی حال ہے۔'' آفتاب نے کہا۔
'' یہ حال اگر نہیں ہے تو ہمارا۔'' مکھن مسکرایا۔
اور پھر وہ تیاری میں لگ گئے۔ فارغ ہو کر بیگم جمشید کی طرف حاضر ہوئے:
'' امی جان ۔ اجازت ہے۔''
''کیا مطلب۔ کس بات کی اجازت؟'' وہ حیران رہ گئیں۔
''آپ خط تو پڑھ ہی چکی ہیں۔''
'' ہاں ! اللہ کا شکر ہے۔ ان کی کوئی اطلاع تو ملی۔''
'' تو ہمیں اجازت ہے۔'' محمود بولا۔
'' میری کیا مجال ہے۔ کہ اجازت نہ دوں۔ تم لوگ بنے ہی ان کاموں کے لئے ہو۔'' انھوں نے منہ بنایا۔
ابھی وہ اللہ حافظ کہ کر درازے کی طرف مڑے ہی تھے کہ گھنٹی بجی۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا، پھر محمود نے کہا۔