باعزت اسلامی قتل، پتھر مار مار کر انسانوں کا شکار

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پیاسا

معطل
بھائی وجی، آپ قران سے حوالہ فراہم کردیجئے سنگسار کرکے ہلاک کرنے کا یا کوئی مستند فعل رسول فراہم کردیجئے جہاں رسول اکرم میں کسی کو سنگسار کرنے میں حصہ لیاہو؟

بھیی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے. . . .
م م مغل صاحب نے کتنے دلایل دیے لیکن جس کی پالیسی"میں نا مانوں" کی ہو اس پر دلایل کا کیا اثر . . .
میں نے تو پہلے بھی کہا تھا کہ فاروق سرور"مشن" پہ ہیں لیکن کسی نے غور نہیں کیا میری بات پر. . .
اب صحابہ رضی اللہ عنہ سے ایک چیز ثابت ہے (تو اآپ کو ماننے میں کیا تردد ہے) بھلا کویی صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ہٹ کر کویی عمل کر سکتا ہے. . .
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے مجھے عربی متن تو یاد نہیں . . اس کا ترجمعہ درج ذیل ہے
ترجمعہ:" میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پا جاو گے"
اب بھی اگر کو یی نہ مانے تو . . میرا خیال ہے اس کے کسی بھی سوال کا جواب نہ دیا جاے
 
بھائی وجی سلام
آپ کا سوال کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کوڑے مارے اگر نہیں تو بھی کیوں نہیں ؟؟
بے معنی ہے اس لئے کہ اللہ تعالی کا واضح حکم ہے موجود ہے۔
سنگسار کرکے موت کی سزا ایک غیر قرانی اور توراۃ کی روایت ہے۔ قرآن میں‌اس کا وجود نہیں۔ اس لئے رسول اللہ نے یہ سزا کبھی نہیں دی اور نہ ہی کسی ایسی سزا کے وقت موجود رہے۔ آپ پوچھئے کہ ایسا کیونکر ممکن ہے؟

پہلے آپ کہئیے کہ میں‌قران کی گواہی پر ایمان رکھوں گا۔ پھر آپ کہئیے کہ رسول اللہ نے خلاف قرآن دو اشخاص کو موت کی سزا اس لئے نہیں دے سکتے کہ قرآن کہتا ہے کہ زانی اور زانیہ ہی ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہئیے۔ کیا مردہ لوگ شادی یعنی نکاح کرسکتے ہیں؟ اگر قرآن کا منشاء سنگسار کرکے قتل کردینے کا ہوتا تو پھر اس آیت [ayah]24:3[/ayah] کا کیا جواز ہے؟

[ayah]24:1[/ayah] یہ ایک اہم سورت ہے جسے نازل کیا ہے ہم نے اور اس (کے احکام) کو فرض کیا ہے ہم نے اور نازل کیے ہیں ہم نے اس میں واضح احکام تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
[ayah]24:2[/ayah] زانی عورت اور زانی مرد، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں سے، سو سو کوڑے اور نہ دامن گیر ہو تم کو ان کے سلسلہ میں ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں اگر رکھتے ہو تم ایمان اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور چاہیے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کا ایک گروہ مومنوں کا۔
[ayah]24:3[/ayah] زانی مرد نہ نکاح کرے مگر زانیہ سے یا مشرکہ سے اور زانیہ سے نہ نکاح کرے مگر زانی مرد یا مشرک۔ اور حرام کردیا گیا ہے ان سے نکاح کرنا اہلِ ایمان پر۔
[ayah]24:4[/ayah] اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں پر پھر نہ لاسکیں وہ چار گواہ تو کوڑے مارو اُنہیں اسی کوڑے اور نہ قبول کرو اُن کی گواہی کبھی بھی اور یہی لوگ ہیں فاسق۔
[ayah]24:5[/ayah] مگر وہ جو توبہ کرلیں اس کے بعد اور اصلاح کرلیں تو بے شک اللہ ہے معاف فرمانے والا، رحم کرنے والا۔

آپ دیکھئے ۔ غور فرمائیے ، اپنے ذہن کو صاف رکھ کر۔ یہ کس طور ممکن ہے کہ جس کو پتھر مار کر ہلاگ کردیا گیا اس سے نکاح‌کی اجازت صرف زانی اور مشرک کو دی جارہی ہے؟ کیسی منطق ہے کہ مردہ ہونے کے بعد ایسے بدکاروں کے نکاح کے اصول بتائے جارہے ہیں؟ تو یا تو اللہ تعالی کو نعوذ‌ باللہ مغالطہ ہو گیا یا اللہ تعالی بھول گیا؟ نعوذ‌ باللہ ۔۔۔ یا پھر یہ روایات رسول اکرم سے منسوب کردی گئیں یا پھر ان کے متن ، موقع ، واقعات میں کچھ نہ کچھ امتداد زمانہ سے تبدیلی آئی کہ کسی سزا کو سزائے رجم سے بدل دیا گیا۔ ان دونوں میں‌ سے ایک بات درست ہے۔ فیصلہ آپ کیجئے، اپنے دل سے کیجئے اور بار بار اس آیت کو پڑھئے کہ جن لوگوں کے زندہ رہ جانے کی صورت میں نکاح کے اصول اللہ تعالی کی طرف سے بنائے جارہے ہیں وہ مردہ ہوجانے کی صورت میں کس طور ممکن ہیں ۔
جب قرآن کی کوئی آیت ہمارے عقیدے کے مخالف جائے تو پھر کیا کرنا چاہئے؟ اس آیت کا ترجمہ تبدیل کردیا جائے یا اس کو تاویلات سے جھٹلا دیا جائے۔

پھر اس کے معانی کیا ہوئے؟
اور حرام کردیا گیا ہے ان سے نکاح کرنا اہلِ ایمان پر۔
کہ کیا زانی کا نکاح برقرار رہتا ہے؟

فاروق صاحب۔۔ آفرین ہے آپ پر۔
سرکار نے سنگساری کا حکم دیا۔۔ اسناد موجود ۔۔ اور آپ فرماتے ہیں ۔ سنت سے ثابت کرو
بھئ۔۔ سنت اور کیا ہوتی ہے۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟ اللہ نے کہا (بےشک) جو یہ رسول تمہیں دیں لے لو اور
جس سے باز رکھیں ۔۔ باز رہو۔۔
آپ اپنے ذہن شریف کو ذرا استعمال تو کیجئے۔
یا آپ کا مقصد محض ۔۔ ٹھٹھول ہے ۔
خیر اندیش
م۔م۔مغل

آپ اپنے ذہن شریف کو ذرا استعمال تو کیجئے۔ اور فرمائیے کہ سنگسار شدہ مُردوں کا نکاح کس طور ممکن ہے؟ آپ ایک عقل سے سوچتے ہیں اور اللہ تعالی کے پاس آپ کے ہر اعتراض کا جواب ہے۔ اللہ کی آیات کو بغور پڑھئے سرکار اور غور کیجئے کہ ان کو جھٹلانے کا عمل تو وقوع پذیر نہیں ہورہا؟ مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ منشاء نہیں‌ہے۔ لیکن بندہ خطا کا پتلا ہے۔


والسلام
 

ساجداقبال

محفلین
آپ دیکھئے ۔ غور فرمائیے ، اپنے ذہن کو صاف رکھ کر۔ یہ کس طور ممکن ہے کہ جس کو پتھر مار کر ہلاگ کردیا گیا اس سے نکاح‌کی اجازت صرف زانی اور مشرک کو دی جارہی ہے؟
لیکن سنگساری کی سزا تو پہلے سے شادی شدہ زانیوں کیلیے ہے۔ آپ نکاح کے اوپر نکاح کیوں کروانا چاہتے ہیں جبکہ زنا سے نکاح ٹوٹا بھی نہیں؟
 

مغزل

محفلین
ساجد صاحب۔
کسے سمجھا رہے ہیں آپ، سمجھانے سے کیا ہوگا
بجز صحرا نوردی اور دیوانے سے کیا ہوگا۔
 

وجی

لائبریرین

ایک بات جو واضع کرنا چاہتا ہوں
انجیل ،توریت اور زبور یہ کتابیں اپنی اصلی حالت میں نہیں ہیں اسی لئے قرآن کا نزول ہوا اگر اگر ان کتابوں میں سے کوئی ایک بھی کتاب صحیح ہوتی تو قرآن کے نزول کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے مسلمانوں کو ان کتابوں سے کچھ بھی غرض نہیں ہونا چاہیئے اب جب موسیقی کے حرام و حلال کی بات آتی ہے تو اکثر صاحبان دوسری الہامی کتب سے آیات نکالتے نہیں تھکتے بھائی یہ تصاد کیوں ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی آلاتِ موسیقی استعمال نہیں کیا تو کیوں ہمارے کچھ بھائی ان سے اس بات کو منصوب کرتے ہیں اورجب سنگسار کی کرنے کی لاتعداد احادیث کے ہونے کے باوجود ان احادیث کا انکار کرتے ہیں

آخر کیوں
ان احادیث کا انکار کیوں ہوتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سنگسار کرنے کا ذکر آتا ہے ؟؟
ان احادیث کو کیوں مانا جاتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آلاتِ موسیقی کا استعمال ہوا ہے ؟؟



بھائی میرے سوال ابھی بھی وہی ہیں جو پہلے پوچھ چکا ہوں
یک بات بتائیں کہ کیا قرآن میں قصاص میں سو اونٹوں کے بارے میں کہیں کوئی حکم آیا ہے ؟؟

بھائی فاروق میرے سوال ابھی بھی وہی ہیں میں نے آپ سے سادے سوال کئے تھے چلے سنگسار کے بارے میں سوال کو چھوڑ دیں باقی کے جواب دے دیں
 
لیکن سنگساری کی سزا تو پہلے سے شادی شدہ زانیوں کیلیے ہے۔ آپ نکاح کے اوپر نکاح کیوں کروانا چاہتے ہیں جبکہ زنا سے نکاح ٹوٹا بھی نہیں؟
سلام ساجد اقبال صاحب۔
اس قرآن کی آیت کا حوالہ دیجئے جو شادی شدہ زانیوں کو سنگساری سے موت کی سزا دیتی ہے؟
آپ اس آیت سے انکار کرتے ہیں جو زانی اور زانیہ کے نکاح کی بابت حکم دیتی ہے - سنگساری سے مردہ لوگوں کا نکاح کیسے ہوگا؟
آپ لوگوں کی سنی سنائی کو اسلام کہتے ہیں یا اللہ تعالی کی آیات کو اسلام کہتے ہیں؟
 
ساجد صاحب۔
کسے سمجھا رہے ہیں آپ، سمجھانے سے کیا ہوگا
بجز صحرا نوردی اور دیوانے سے کیا ہوگا۔

بھائی دلیل نہیں ہے تو کردار کشی؟ :) نظریاتی اختلافات کی سزا موت؟ آپ صاف صاف اس آیت سے انکار کررہے ہیں جس کا حوالہ میں نے فراہم کیا۔
 
بھائی فاروق میرے سوال ابھی بھی وہی ہیں میں نے آپ سے سادے سوال کئے تھے چلے سنگسار کے بارے میں سوال کو چھوڑ دیں باقی کے جواب دے دیں

وجی، آپ نے جو سوالات کئے ہیں ان کے جواب دوبارہ۔
1۔ سنگساری سے موت کسی کی بھی قرآن سے ثابت نہیں ہے۔ اگر ہے تو فراہم کیجئے۔ جب ہم کو یہ سزا مل جائے گی تو ہم پھر روایات کو دیکھیں گے ۔ غیر قرانی یا خلاف قرآن روایات لکھنے سے رسول اللہ نے منع فرمایا ہے۔ زانی اور زانیہ کی سزا کے بعد ، صاحب ایمان سے نکاح ممکن نہیں‌ہے۔ آیت آپ کو پیش کردی ہے۔ رسول اکرم کیوں ان آیات کے خلاف جاسکتے ہیں آپ واضح کیجئے، کسی بھی آیت سے۔

2۔ موسیقی پر پابندی قرآن کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہے۔ اگر ہے تو فراہم کیجئے۔ رسول اکرم کیوں ان آیات کے خلاف جاسکتے ہیں آپ واضح کیجئے، کسی بھی آیت سے۔
جو روایات پیش کی گئی ، اس کی اسناد ٹوٹی ہوئی ہیں۔ میں نے اس کے بارے میں اس دھاگہ میں‌لکھا ہے کہ امام البخاری نے خود اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے
۔ جو روایت پیش کی گئی ہے وہ ابن حجار کی تحقیق ہے جو تہذیب التہذیب میں شائع ہوئی اور اس کو سکالرز نہین مانتے۔
پھر آپ کو قرآن کی آیت پیش کی گئی کہ رسول اکرم مستقبل کے بارے میں صرف و جانتے ہیں جو اللہ تعالی نے ان کو بتایا، جو کچھ اللہ تعالی نے بتایا وہ قرآن میں درج ہے۔ 200 اور 300 سال بعد انسانوں پر القا نہیں‌ہوا۔ آیت کا حوالہ پیش کیا کہ رسول صلعم مستقبل کے بارے میں کیا کچھ نہیں‌ جانتے ہیں ۔ ایسی حدیث‌ان سے روایت کرنا جس میں ایک ایسی پیشین گوئی ہو جو قرآن سے ثابت نہ ہو، غیر قرآنی ہے۔ اس وجہ سے موسیقی انسانوں کی صوابدید پر ہے۔ یہ انسانوں کی ایک تخلیقی صلاحیت ہے جو اللہ تعالی نے انسان کو عطا کی۔

آپ کے سوالات کے جوابات پھر ایک بار دے دئے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
[size="5"چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماعز اسلمى اور جھينى قبيلہ كى عورت اور غامدى قبيلہ كى عورت اور دو [size="6"]يہوديوں [/size]كو مدينہ ميں رجم كيا تھا، اس كا ثبوت صحيح احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ملتا ہے، اور صحابہ كرام، اور تابعين عظام، اور ان كے بعد اہل علم كا اس پر اجماع ہے، اس ميں كسى نے بھى مخالفت نہيں كى، صرف چند ايك لوگ اس كے مخالف ہيں جن كى مخالفت كا كوئى وزن نہيں.



فاروق صاحب یہ بھی ملاحظہ کیجئے ۔۔ شاید آنکھیں کھل جائیں۔

۱۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک مسلمان حاضر ہوا اور اس نے با آواز بلند کہا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ وہ شخص پھر سامنے آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا جرم سرزد ہوگیا ہے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار ایسا ہی ہوا۔ جب اس نے چار بار زنا کا اعتراف کرلیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بلا کر دریافت کیا۔ کیا تم دیوانے (پاگل) ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ پھر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ہاں۔ یہ سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔(شرح صحیح مسلم از مولانا غلام رسول سعیدی جلد رابع، کتاب الحدود صفحہ ۷۶۸)

سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل گیارہ ازواج ۔۔۔ (سنت ہے نا ؟ )
موصوف کیلئے چار کی اجازت (حکم / قول) ۔۔ اب کیا مانیں گے ۔۔ سنت (عمل) یا قول (حکم) ۔۔۔؟؟
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت )۔۔چاند کے ٹکڑے کرنا ۔۔
کیا موصوف کو بھی روا ہے۔۔ اگر ہے تو کیجئے بسم اللہ ۔
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت ) انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری کرنا ۔۔
موصوف اس سنت (عمل) پر عمل پیر اکیوں‌نہیں ہوتے ؟؟
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت ) خالد بن ولید کو سیف اللہ کا خطاب دینا۔
موصوف بھی کسی کو یہ خطاب عطا کردیکھیں ۔۔
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت ) درخت کو اشارے سے بلانا۔
درخت کا چل کر آنا سجدہ کرنا۔۔
موصو ف کیا کیجئے گا۔۔ ؟؟

پہلی پوسٹ میں بڑے لفظ میں‌ یہودیوں‌ پر حد جاری ہونے کا ذکر ہو رہا ہے شاید نہ کہ مسلمانوں‌ پر

دوسری پوسٹ میں حدیث کی کتاب کی شرح کا ذکر ہو رہا ہے نہ کہ حدیث کی کتاب کا

تیسری پوسٹ میں انگلیوں سے پانی کا جاری ہونا یا درخت کا چل کر آنا اور غیر اللہ کو سجدہ کرنا؟ بھائی کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟
 

ساجداقبال

محفلین
سلام ساجد اقبال صاحب۔
اس قرآن کی آیت کا حوالہ دیجئے جو شادی شدہ زانیوں کو سنگساری سے موت کی سزا دیتی ہے؟
آپ اس آیت سے انکار کرتے ہیں جو زانی اور زانیہ کے نکاح کی بابت حکم دیتی ہے - سنگساری سے مردہ لوگوں کا نکاح کیسے ہوگا؟
آپ لوگوں کی سنی سنائی کو اسلام کہتے ہیں یا اللہ تعالی کی آیات کو اسلام کہتے ہیں؟
میں یہاں بحث پڑھنے آتا ہوں اکثر مایوسی ہوتی ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے بے سرو پا باتیں ہی چلتی ہیں۔ آپکی لکھی گئی تحریر میں یہ عجیب بات نظر آئی تو میں نے سوال کیا۔ مجھے کسی بھی آیت یا حدیث کا علم نہیں۔
پہلی بات یہ کہ آپکے مقابلے میں یہاں مؤقف ہے کہ شادی شدہ زانیوں کیلیے سنگساری کا حکم ہے۔ چلئے سنگسار نہیں کیا جاتا انہیں لیکن ان کا پہلے سے کیا گیا نکاح بھی تو نہیں ٹوٹا۔ کیا آپ آیت سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دونوں (یا صرف عورت) نکاح توڑ کر اسی مرد سے نکاح باندھ لے؟
 

وجی

لائبریرین
فاروق صاحب آپ میری پوسٹ نمبر 65 پھر سے پڑھ لیں اس میں مزید سوال ہیں انکے جواب بھی دے دیں تو اچھا نہ ہو آپ بار بار ان سوالوں سے اپنا پہلو‌ بچا رہے ہیں
 
فاروق صاحب آپ میری پوسٹ نمبر 65 پھر سے پڑھ لیں اس میں مزید سوال ہیں انکے جواب بھی دے دیں تو اچھا نہ ہو آپ بار بار ان سوالوں سے اپنا پہلو‌ بچا رہے ہیں
بھائی آپ کو پیغام نمبر 68 میں آپ کے سوالات کے جواب دے چکا ہوں۔ آپ صرف اپنے سوالات دوبارہ لکھ دیجئیے۔ پھر سے جوابات عرض کردوں‌گا۔
والسلام
 
میں یہاں بحث پڑھنے آتا ہوں اکثر مایوسی ہوتی ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے بے سرو پا باتیں ہی چلتی ہیں۔ آپکی لکھی گئی تحریر میں یہ عجیب بات نظر آئی تو میں نے سوال کیا۔ مجھے کسی بھی آیت یا حدیث کا علم نہیں۔
پہلی بات یہ کہ آپکے مقابلے میں یہاں مؤقف ہے کہ شادی شدہ زانیوں کیلیے سنگساری کا حکم ہے۔ چلئے سنگسار نہیں کیا جاتا انہیں لیکن ان کا پہلے سے کیا گیا نکاح بھی تو نہیں ٹوٹا۔ کیا آپ آیت سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دونوں (یا صرف عورت) نکاح توڑ کر اسی مرد سے نکاح باندھ لے؟

1۔ قران بدکار کا نکاح ، با ایمان شخص سے منع کررہا ہے۔ اس میں‌شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی قید نہیں لگا رہا ہے۔ گویا ایک بدکار اگر وہ پہلے سے شادی شدہ ہے تو کیا اس بدکاری کے بعد اس کا نکاح‌برقرار رہا؟ یہی سوال آپ کا ہے اور یہی سوال میرا بھی ہے؟

2۔ اگر دو با ایمان مرد و عورت شادی کرتے ہیں اور ان میں سے ایک یہ گناہ کرتا ہے کہ وہ مرتد ہوجاتا ہے۔ تو کیا وہ نکاح رہا؟
چونکہ دونوں جرائم کے لئے قران ایک ہی اصول متعین کرتا ہے تو جو جواب نمبر 2 کی صورت میں ہے وہی جواب نمبر 1 کا بھی ہونا چاہئیے۔

میری عقل ناقص یہ کہتی ہے کہ جس طرح مرتد ہوجانے کے جرم میں نکاح‌ٹوٹ گیا اسی طرح اس آیت کے مطابق، ایک بدکار کا نکاح برقرآر نہیں رہا۔

انشاء اللہ اس پر حوالہ وقت ملنے پر لگاتا ہوں۔
 

وجی

لائبریرین
فاروق صاحب آپنے شاید غور سے نہیں‌ پڑھی اس میں اور سوال بھی تھے چلے میں پھر سے لکھ دیتا ہوں

آپ کا کہنا ہے کہ صرف وہ احادیث ماننی چاہیئے جو قرآن کے مطابق ہو تو پھر کچھ اہم سوال

1۔ قرآن نماز کے قائم کرنے کا کہتا ہے اب نماز قائم کیسے ہو اور پڑھنا اور قائم کرنے میں کیا فرق ہے اگر قرآن نے نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا تو کیا ہم نماز نہ پڑھیں اگر نماز کے پڑھنے کا کہتا بھی ہے تو طریقہ کیا ہو نماز کا ؟؟

2۔ کیا قرآن میں قصاص کی رقم کا یا اس کے برابر کی قیمت میں کوئی اور چیز لینے کے بارے میں حکم موجود ہے اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں، نہیں ہے تو کیا اسلام میں قصاص کی مقدار کا جو ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ سب غلط ہے


الرحیق المختوم

Abdullah: The father of Prophet Muhammad [pbuh]. His mother was Fatimah, daughter of ‘Amr bin ‘A’idh bin ‘Imran bin Makhzum bin Yaqdha bin Murra. ‘Abdullah was the smartest of ‘Abdul-Muttalib’s sons, the chastest and the most loved. He was also the son whom the divination arrows pointed at to be slaughtered as a sacrifice to Al-Ka‘bah. When ‘Abdul-Muttalib had ten sons and they reached maturity, he divulged to them his secret vow in which they silently and obediently acquiesced. Their names were written on divination arrows and given to the guardian of their most beloved goddess, Hubal. The arrows were shuffled and drawn. An arrow showed that it was ‘Abdullah to be sacrificed. ‘Abdul-Muttalib then took the boy to Al-Ka‘bah with a razor to slaughter the boy. Quraish, his uncles from Makhzum tribe and his brother Abu Talib, however, tried to dissuade him from consummating his purpose. He then sought their advice as regards his vow. They suggested that he summon a she-diviner to judge whereabout. She ordered that the divination arrows should be drawn with respect to ‘Abdullah as well as ten camels. She added that drawing the lots should be repeated with ten more camels every time the arrow showed ‘Abdullah. The operation was thus repeated until the number of the camels amounted to one hundred. At this point the arrow showed the camels, consequently they were all slaughtered (to the satisfaction of Hubal) instead of his son. The slaughtered camels were left for anyone to eat from, human or animal.

This incident produced a change in the amount of blood-money usually accepted in Arabia. It had been ten camels, but after this event it was increased to a hundred. Islam, later on, approved of this. Another thing closely relevant to the above issue goes to the effect that the Prophet [pbuh] once said:

"I am the offspring of the slaughtered two," meaning Ishmael and ‘Abdullah. [Ibn Hisham 1/151-155; Rahmat-ul-lil'alameen 2/89,90​

مندرجہ بالا پیراء جو کتاب الرحیق المختوم کے آؤن لائن لینک سے لیا گیا ہے آپ پڑھ سکتے ہیں کہ قصاص اسلام سے پہلے کا یا جسے ہم زمانائے جاہیلیت کہتے ہیں کا حکم ہے اور اسلام نے جائز قرار دیا

 
بھائی وجی، سلام مسنون۔ سب سے پہلے آپ کے صبر کا شکریہ۔ پھر دوبارہ اس بات کا شکریہ کہ آپ نے تمام تر خلوص کے ساتھ اپنے سوال واضح کیے۔

آپ کا کہنا ہے کہ صرف وہ احادیث ماننی چاہیئے جو قرآن کے مطابق ہو تو پھر کچھ اہم سوال
ایسا کیوں سمجھتا ہو؟ دیکھئے ریفرنس کے ساتھ۔
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851
[ARABIC]‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار ‏ [/ARABIC]
میری سمجھ میں آنے والا مفہوم :
میری طرف سے مت لکھو اور جس نے میری طرف سے غیر قرانی لکھا ہو وہ اسے مٹا دے ، اور کوئی حرج نہیں کہ میری طرف سے ( کہی گئی) بات کرو ، اور جس نے میرے بارے میں جھوٹ بولا ،---- ھمام سند میں ایک روای کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ نبی نے یہ بھی کہا کہ "جان بوجھ کر" (جھوٹ بولا ) تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناتا ہے
صحیح مسلم ، کتاب الزھد و الرقاق ، باب التثبت فی الحدیث و کتابۃ العلم ،"

یہ تو ہوا غیر قرانی معاملات میں رسول اکرم کا بیان، جو کہ بنیاد ہے میری سمجھ کی۔ یہی سوچ قران بھی فراہم کرتا ہے کہ آپ کی تمام سنت قرآن پر مبنی ہے۔ آپ فرمائیے کہ میں اس میں کیا تبدیلی کروں یا میری سمجھ میں کیا نہیں آتا جو آپ سب سمجھانا چاہتے ہیں۔ ایک پر خلوص کوشش کیجئے ، یقین کیجئے میں‌ہمہ تن گوش ہوں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس مندرجہ بالاء‌ مفہوم میں‌کوئی خرابی ہے؟

1۔ قرآن نماز کے قائم کرنے کا کہتا ہے اب نماز قائم کیسے ہو اور پڑھنا اور قائم کرنے میں کیا فرق ہے اگر قرآن نے نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا تو کیا ہم نماز نہ پڑھیں اگر نماز کے پڑھنے کا کہتا بھی ہے تو طریقہ کیا ہو نماز کا ؟؟
دیکھئے نماز کیا ایک غیر قرآنی معاملہ ہے؟ یقیناً نہیں۔ حکم الہی کی تشریح رسول اکرم فرماتے ہیں۔
یہ سنت رسول ہے۔ ہم سب مانتے ہیں۔ تو یہ جن کتب میں‌ملی، کیا ہم ان سب کتب کو تمام روایات کو بعینہ من و عن درست مان لیں اور ان پر مثل قرآن ایمان لے آئیں‌؟ یہاں‌ بھی باذوق، عادل ، حیدر اور کئی دوسرے جن کا علم یقیناً (مخلصاٌ عرض کررہا ہوں) مجھ سے زیادہ ہے ، بھی یہی فرماتے ہیں کہ ان روایات میں ضعیف بھی ہیں۔ جن کا معیار ایک تو اسناد ہے اور دوسرے وہ قرآن کے موافق یا قرآن کی روشنی میں درست نہیں ہوتی ہیں۔ کیا اس اصول میں کوئی کوتاہی ہے کہ روایات کو ایک نظر دیکھ لیا جائے کہ آیا ان میں‌موجود سنت رسول غیر قرآنی تو نہیں؟

2۔ کیا قرآن میں قصاص کی رقم کا یا اس کے برابر کی قیمت میں کوئی اور چیز لینے کے بارے میں حکم موجود ہے اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں، نہیں ہے تو کیا اسلام میں قصاص کی مقدار کا جو ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ سب غلط ہے
قرآن میں حکم قصاص موجود ہے۔ لہذا قصاص کی رقم پر جو سنت مبارکہ یا حکم ہے، اس کو ہم یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں کہ یہ سنت درست نہیں ہے۔ یہ روایت اسناد اور حکم الہی دونوں سے ثابت ہے۔

تو ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ مسائیل یا امور ‌، سوال یا جواب ، جن کا حکم قرآن نے دیا یا منع کیا ، اس کی تشریح‌ کرنے والے رسول اللہ صلعم ہیں ۔ اگر کوئی بھی بات اسناد سے ثابت ہے کہ یہ قول رسول اللہ ہے اور پھر وہ موافق قران ہے۔ اس سے انکار کیونکر؟ یہی اطاعت رسول قرآر پائے گی؟

اب آئیے ایسے امور و سوالات و احکامات جن کا اللہ کی کتاب میں وجود نہیں ، کہ 5:101 کے مطابق و انسانوں کی صوابدید پر چھوڑا گیا۔ تو اگر رسول اللہ سے کچھ منسوب کیا جارہا ہے تو ہم اس ضمن میں رسول اللہ صلعم کی حدیث استعمال کریں یا نہ کریں؟

میرا اپنا خیال ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ یہ غیر القرآن یا خلاف قرآن ہے یا پھر موافق القرآن ہے۔ اگر موافق القرآن ہے تو قابل قبول (‌اصول رسول اللہ کا فرمان )‌ اور اگر خلاف قرآن ہے تو بھائی رسول اللہ کے حکم کے مطابق فلیمحہ یعنی مٹادینا افضل ہے۔

آپ نےجتنی بھی مثالیں دی ہیں‌، بھائی ، وہ قرآن کے احکامات کی تشریح ہے۔ موافق قرآن ہے۔ لہذا ان پر مستند سنت رسول ہر طور قابل قبول ہے۔

اب اگر کوئی عالم آج کا یا ماضی کا یہ کہتا ہے کہ ہم ساری تحقیق کرچکے ہیں ۔ یہ کتاب لو اور اس میں سب درست ہے تو مجھے اس میں تھوڑا سا مسئلہ ہے۔ وہ یہ کہ میں نے جو کتب روایات پڑھی ہیں ان کے مطبوعات میں کافی فرق ہے۔ اسناد، حدیث کےنمبر اور تعداد اور متن کا تھوڑا تھوڑا فرق ہے۔ جب قرآن و سنت سے تمام عبادات کا واضح‌حکم مل جاتا ہے تو بھائی آپ بتائیے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ روایات کی صحت کی اور خاص طور پر اختلافی روایات پر بحث کی جائے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ موسیقی پر اختلافی روایات موجود ہیں۔

اگر یہ جواب آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترتا یا آپ کے پاس کچھ معلومات ہیں تو بھائی استدعا یہ ہے کہ آپ کچھ ہم کو سکھائیے۔

ایک بات پھر آپ کے خلوص‌ و محبت کا شکریہ۔
والسلام
 

وجی

لائبریرین
فاروق صاحب میرے مطابق مسلمان کافی جذباتی ہوتے ہیں میں بھی اورشاید آپ بھی ہونگے
اسی لئے ہم اکثر چیزوں کو بہت آگے لے جاتے ہیں
سوال نمبر دو میں مثال بھی موجود تھی اس کا بتانا مقصد یہ تھا کہ اسلام نے کئی چیزوں میں کوئی بات نہیں کی اور کچھ معاملات کو ایسے ہی چھوڑ دیا اس لئے کہ ہر علاقے ایک جیسا نہیں اور وہاں رہنے کے طور طریقے بھی ایک جیسے نہیں
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو دعوتِ اسلام دینی تھی تو آپ نے تہذہب کا جائزہ لیا کہ کوئی بڑی بات بتانی ہوتی تھی تو وہ لوگوں کو جمع کرتے ، پہاڑ پر چڑھ کر کپڑے پھاڑتے اور پہغام دیتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے پھاڑنا معیوب لگا اور وہ عمل کئے اور باقی نہیں کئے تو بتانا مقصد ہے کہ لوگوں کو کئی طریقوں سے تعلیم دی جاتی ہے اور کئی لوگوں کو انکے طریقوں سے سمجھانا ہی بہتر ہوتا ہے
اسی طرح ہاتھ کاٹنے کی سزا جو میرے خیال میں قرآن میں درج نہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا تو اسی طرح اور باتوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا جس کا قرآن میں کچھ درج نہیں

بھائی اگر قرآن ہی کل ہدایت کا سرچشمہ ہوتا تو پھر کیا ضرورت تھی انبیاء کو بھیجنے کی ایک کتاب ہی بھیج دیتا جو فرشتے لے آتے لیکن ایک مثال بھی تو دینی ہوتی ہے سیکھانے کا یہ عمل اللہ کی طرف سے ہے اور قرآن میں بھی اللہ نے مثالوں سے سمجھایا ہے اور اسی طرح انبیاء کو بھیجا کہ وہ ان کتاب پر عمل کرکے دیکھائیں
میں مانتا ہوں کہ ان کتابوں میں جو احادیث کی ہیں کچھ غلط یا نامکمل ہوگا یا ہوسکتا ہے لیکن ہم انکا بلکل انکار نہیں کرسکتے
 
آپ کی باقی باتوں‌ کا بہت شکریہ۔ کتب روایات کو مکمل نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا سنت رسول کی تردید یعنی رسول اللہ پر ایمان نہ لانے کے مترادف ہے۔

اس ضمن میں‌:
اسی طرح ہاتھ کاٹنے کی سزا جو میرے خیال میں قرآن میں درج نہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا تو اسی طرح اور باتوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا جس کا قرآن میں کچھ درج نہیں

چوری کے جرم میں قرآن کا حوالہ:
[ayah]5:38[/ayah] [arabic]وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالاً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [/arabic]
اور چوری کرنے والا (مرد) اور چوری کرنے والی (عورت) سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو اس (جرم) کی پاداش میں جو انہوں نے کمایا ہے۔ (یہ) اﷲ کی طرف سے عبرت ناک سزا (ہے)، اور اﷲ بڑا غالب ہے بڑی حکمت والا ہے

ذہن میں‌رکھئے کہ قرآن میں [arabic] فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا [/arabic]مکمل طور پر الگ کردینے کے ساتھ ساتھ صرف معمولی طور پر کٹ جانے کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔
 

مغزل

محفلین
کہاں تو موصوف ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے کو قرآن کے برخلاف بتا رہے تھے
اور کہاں اب خود ہی آیت پیش کردی ۔
بہر کیف::

اللہ ہمیں عقلِ سلیم اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے (اٰمین)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top