بھائی وجی، سلام مسنون۔ سب سے پہلے آپ کے صبر کا شکریہ۔ پھر دوبارہ اس بات کا شکریہ کہ آپ نے تمام تر خلوص کے ساتھ اپنے سوال واضح کیے۔
آپ کا کہنا ہے کہ صرف وہ احادیث ماننی چاہیئے جو قرآن کے مطابق ہو تو پھر کچھ اہم سوال
ایسا کیوں سمجھتا ہو؟ دیکھئے ریفرنس کے ساتھ۔
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851
[ARABIC]حدثنا هداب بن خالد الأزدي حدثنا همام عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن أبي سعيد الخدري
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي قال همام أحسبه قال متعمدا فليتبوأ مقعده من النار [/ARABIC]
میری سمجھ میں آنے والا مفہوم :
میری طرف سے مت لکھو اور جس نے میری طرف سے غیر قرانی لکھا ہو وہ اسے مٹا دے ، اور کوئی حرج نہیں کہ میری طرف سے ( کہی گئی) بات کرو ، اور جس نے میرے بارے میں جھوٹ بولا ،---- ھمام سند میں ایک روای کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ نبی نے یہ بھی کہا کہ "جان بوجھ کر" (جھوٹ بولا ) تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناتا ہے
صحیح مسلم ، کتاب الزھد و الرقاق ، باب التثبت فی الحدیث و کتابۃ العلم ،"
یہ تو ہوا غیر قرانی معاملات میں رسول اکرم کا بیان، جو کہ بنیاد ہے میری سمجھ کی۔ یہی سوچ قران بھی فراہم کرتا ہے کہ آپ کی تمام سنت قرآن پر مبنی ہے۔ آپ فرمائیے کہ میں اس میں کیا تبدیلی کروں یا میری سمجھ میں کیا نہیں آتا جو آپ سب سمجھانا چاہتے ہیں۔ ایک پر خلوص کوشش کیجئے ، یقین کیجئے میںہمہ تن گوش ہوں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس مندرجہ بالاء مفہوم میںکوئی خرابی ہے؟
1۔ قرآن نماز کے قائم کرنے کا کہتا ہے اب نماز قائم کیسے ہو اور پڑھنا اور قائم کرنے میں کیا فرق ہے اگر قرآن نے نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا تو کیا ہم نماز نہ پڑھیں اگر نماز کے پڑھنے کا کہتا بھی ہے تو طریقہ کیا ہو نماز کا ؟؟
دیکھئے نماز کیا ایک غیر قرآنی معاملہ ہے؟ یقیناً نہیں۔ حکم الہی کی تشریح رسول اکرم فرماتے ہیں۔
یہ سنت رسول ہے۔ ہم سب مانتے ہیں۔ تو یہ جن کتب میںملی، کیا ہم ان سب کتب کو تمام روایات کو بعینہ من و عن درست مان لیں اور ان پر مثل قرآن ایمان لے آئیں؟ یہاں بھی باذوق، عادل ، حیدر اور کئی دوسرے جن کا علم یقیناً (مخلصاٌ عرض کررہا ہوں) مجھ سے زیادہ ہے ، بھی یہی فرماتے ہیں کہ ان روایات میں ضعیف بھی ہیں۔ جن کا معیار ایک تو اسناد ہے اور دوسرے وہ قرآن کے موافق یا قرآن کی روشنی میں درست نہیں ہوتی ہیں۔ کیا اس اصول میں کوئی کوتاہی ہے کہ روایات کو ایک نظر دیکھ لیا جائے کہ آیا ان میںموجود سنت رسول غیر قرآنی تو نہیں؟
2۔ کیا قرآن میں قصاص کی رقم کا یا اس کے برابر کی قیمت میں کوئی اور چیز لینے کے بارے میں حکم موجود ہے اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں، نہیں ہے تو کیا اسلام میں قصاص کی مقدار کا جو ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ سب غلط ہے
قرآن میں حکم قصاص موجود ہے۔ لہذا قصاص کی رقم پر جو سنت مبارکہ یا حکم ہے، اس کو ہم یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں کہ یہ سنت درست نہیں ہے۔ یہ روایت اسناد اور حکم الہی دونوں سے ثابت ہے۔
تو ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ مسائیل یا امور ، سوال یا جواب ، جن کا حکم قرآن نے دیا یا منع کیا ، اس کی تشریح کرنے والے رسول اللہ صلعم ہیں ۔ اگر کوئی بھی بات اسناد سے ثابت ہے کہ یہ قول رسول اللہ ہے اور پھر وہ موافق قران ہے۔ اس سے انکار کیونکر؟ یہی اطاعت رسول قرآر پائے گی؟
اب آئیے ایسے امور و سوالات و احکامات جن کا اللہ کی کتاب میں وجود نہیں ، کہ 5:101 کے مطابق و انسانوں کی صوابدید پر چھوڑا گیا۔ تو اگر رسول اللہ سے کچھ منسوب کیا جارہا ہے تو ہم اس ضمن میں رسول اللہ صلعم کی حدیث استعمال کریں یا نہ کریں؟
میرا اپنا خیال ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ یہ غیر القرآن یا خلاف قرآن ہے یا پھر موافق القرآن ہے۔ اگر موافق القرآن ہے تو قابل قبول (اصول رسول اللہ کا فرمان ) اور اگر خلاف قرآن ہے تو بھائی رسول اللہ کے حکم کے مطابق فلیمحہ یعنی مٹادینا افضل ہے۔
آپ نےجتنی بھی مثالیں دی ہیں، بھائی ، وہ قرآن کے احکامات کی تشریح ہے۔ موافق قرآن ہے۔ لہذا ان پر مستند سنت رسول ہر طور قابل قبول ہے۔
اب اگر کوئی عالم آج کا یا ماضی کا یہ کہتا ہے کہ ہم ساری تحقیق کرچکے ہیں ۔ یہ کتاب لو اور اس میں سب درست ہے تو مجھے اس میں تھوڑا سا مسئلہ ہے۔ وہ یہ کہ میں نے جو کتب روایات پڑھی ہیں ان کے مطبوعات میں کافی فرق ہے۔ اسناد، حدیث کےنمبر اور تعداد اور متن کا تھوڑا تھوڑا فرق ہے۔ جب قرآن و سنت سے تمام عبادات کا واضححکم مل جاتا ہے تو بھائی آپ بتائیے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ روایات کی صحت کی اور خاص طور پر اختلافی روایات پر بحث کی جائے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ موسیقی پر اختلافی روایات موجود ہیں۔
اگر یہ جواب آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترتا یا آپ کے پاس کچھ معلومات ہیں تو بھائی استدعا یہ ہے کہ آپ کچھ ہم کو سکھائیے۔
ایک بات پھر آپ کے خلوص و محبت کا شکریہ۔
والسلام