شمشاد
لائبریرین
باغ و بہار - صفحہ 192 تا 328
صفحہ 131 سے 141 تک
شراب پئے ہوئے بیٹھی ہے، وہ تخت بلندی سے آہستہ آہستہ نیچے اتر کر اس برج میں آیا۔ تب پری نے مجھے بلایا، اور اپنے نزدیک بٹھایا۔ باتیں پیار کی کرنے لگی اور منہ سے منہ لگا کر ایک جام شراب گل گلاب کا میرے تئیں پلایا اور کہا آدمی زاد بیوفا ہوتا ہے، لیکن دل ہمارا تجھے چاہتا ہے۔ ایک دم میں ایسی ایسی انداز و ناز کی باتیں کیں کہ دل محو ہو گیا اور ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ زندگی کا مزا پایا، اور یہ سمجھا کہ آج تو دنیا میں آیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ میں تو کیا ہوں، کسو نے یہ عالم نہ دیکھا ہو گا۔ نہ سنا ہو گا اس مزے میں خاطر جمع سے ہم دونوں بیٹھے تھے کہ کریال غلیلا لگا۔ اب اس حادثہ کا ماجرا سن کر وہ نہیں چار پری زاد نے آسمان سے اتر کر کچھ اس معشوقہ کے کان میں کہا۔ سنتے ہی اس کا چہرہ تغیر ہو گیا اور مجھ سے بولی کہ اے پجاری دل تو یہ چاہتا تھا کہ کوئی دم تیرے ساتھ بیٹھ کر دل بہلاؤں اور اسی طرح ہمیشہ آؤں یا تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں۔ پر یہ آسمان دو شخص کو ایک جگہ آرام سے اور خوشی سے رہنے نہیں دیتا۔ لے جاناں تیرا خدا نگہبان ہے۔
یہ سن کر میرے حواس جاتے رہے اور طوطے ہاتھ کے اڑ گئے۔ میں نے کہا کہ جی اب پھر کب ملاقات ہو گی؟ یہ کیا تم نے غضب کی بات سنائی؟ اگر جلد آؤ گی تو مجھے جیتا پاؤ گی، نہیں تو پچھتاؤ گی یا اپنا ٹھکانا اور نام و نشان بتاؤ کہ میں ہی اس پتے پر ڈھونڈھتے اپنے تئیں تمہارے پاس پہنچاؤں۔ یہ سن کر بولی دور پار شیطان کے کان بہرے، تمہاری صد و بیت سال کی عمر ہووے۔ اگر زندگی ہے تو پھر ملاقات ہو رہے گی۔ میں جنوں کے بادشاہ کی بیٹی ہوں اور کوہ قاف میں رہتی ہوں۔ یہ کہہ کر تخت اٹھایا اور جس طرح اترا تھا وونہیں بلند ہونے لگا۔ جب تلک سامنے تھا، میری اور اس کی چار آنکھیں ہو رہی تھیں، جب نظروں سے غائب ہوا یہ حالت ہو گئی جیسے پری کا سایہ ہوتا ہے۔ عجب طرح کی اداسی دل پر چھا گئی، عقل و ہوش رخصت ہوا، دنیا آنکھوں کے تلے اندھیری ہو گئی، حیران، پریشان اور سر پر خاک اڑانا، کپڑے پھاڑنا، نہ کھانا کھانے کی سدھ نہ بھلے برے کی بدھ
اس خرابی سے دائی اور معلم خبردار ہوئے۔ ڈرتے ڈرتے بادشاہ کے روبرو گئے اور عرض کی کہ بادشاہ زادہ عالمیان کا یہ حال ہے۔ معلوم نہیں خود خود کیا غضب ٹوٹا جو ان کا آرام اور کھانا پینا سب چھوٹا۔ تب بادشاہ وزیر امرائے صاحب تدبیر اور حکیم جاذق، منجم صادق، ملا، سیانے، خوب درویش سالک اور مجذوب اپنے ساتھ لے کر اس باغ میں رونق افزا ہوئے۔ میری بے قراری اور نالہ و زاری دیکھ کر ان کی بھی حالت اضطراب کی ہو گئی۔
آب دیدہ ہو کر بے اختیار گلے سے لگا لیا۔ اور اس کی تدبیر کی خاطر حکم کیا۔ حکیموں نے قوتِ دل اور خلل دماغ کے واسطے نسخے لکھے اور ملاؤں نے نقش و تعویذ پلانے اور پاس رکھنے کو دیئے۔ دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگے اور نجومی بولے کہ ستاروں کی گردش کے سبب یہ صورت پیش آئی ہے۔ اس کا صدقہ دیجیئے۔
غرض ہر کوئی اپنے اپنے کام کی باتیں کہتا تھا۔ جو گزرتی تھی میرا دل ہی سہتا تھا۔ کسو کی سعی اور تدبیر اور میری تقدیر بد کے کام نہ آئی۔ دن بہ دن دیوانگی کا زور اور میرا بدن بے آب و دانے کم زور ہو چلا۔ رات دن چلانا اور سر ٹپکنا ہی باقی رہا۔ اس حالت میں تین سال گزرے۔ چوتھے برس ایک سوداگر سیر و سفر کرتا ہوا آیا، اور ہر ایک ملک کے تحفے تحائف عجیب و غریب جہاں پناہ کے حضور میں لایا۔ ملازمت حاصل کی۔ بادشاہ نے بہت توجہ فرمائی اور احوال پرسی اس کی کر کے پوچھا کہ تم نے بہت ملک دیکھے، کہیں کوئی حکیم کامل بھی نظر پڑا، یا کسو سے مذکور اس کا سنا؟ اس نے التماس کیا کہ قبلہ عالم غلام نے بہت سیر کی، لیکن ہندوستان میں دریا کے بیچ ایک پہاڑی ہے وہاں ایک گسائیں جٹا دھاری نے بڑا منڈھب مہادیو کا اور سنگت اور باغ بڑی بہار کا بنایا ہے۔ اس میں رہتا ہے اور اس کا یہ قاعدہ ہے کہ برسویں دن شیو رات کے روز اپنے استھان سے نکل کر دریا میں پیرتا ہے اور خوشی کرتا ہے۔ اشنان کے بعد جب اپنے آسن پر جانے لگتا ہے تب بیمار اور درد مند دیس دیس اور ملک ملک کے جو دور دور سے آتے ہیں دروازے پر جمع ہوتے ہیں، ان کی بڑی بھیڑ ہوتی ہے۔
وہ مہنت جسے اس زمانے کا افلاطون کہا چاہیے، قارورہ اور نبض دیکھتا ہوا اور ہر ایک کو نسخہ لکھ کر دیتا ہوا چلا جاتا ہے۔ خدا نے ایس دست شفا اس کو دیا ہے کہ دور پیتے ہی اثر ہوتا ہے اور وہ مرض بالکل جاتا رہتا ہے۔ یہ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان کو اس کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک ملک کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔
بادشاہ کو بھی اس کی صلاح پسند آئی اور خوش ہو کر فرمایا بہت بہتر، شاید اس کا ہاتھ راس آوے اور میرے فرزند کے دل سے وحشت جاوے، ایک امیر معتبر جہاں دیدہ، کار آزمودہ کو اور اس تاجر کو میر رکاب میں تعینات کیا اور اسباب ضروری ساتھ کر دیا۔ نواڑی، بجرے، مور پنکھی پلوار، لچکے، کھیلنے، الاق، پٹیلیوں پر مع سر انجام سوار کر کر رخصت کیا۔ منزل منزل چلتے چلتے اس ٹھکانے پر جا پہنچے۔ نئی ہوا اور نیا دانہ پانی کھانے پینے سے کچھ مزاج ٹھہرا، لیکن خاموشی کا وہی عالم تھا اور رونے سے کام۔ دم بہ دم اسی پری کی دل سی بھولتی نہ تھی۔ اگر کبھو بولتا تو بیت پڑھتا۔
بارے جب وہ تین مہینے گزرے اس پہاڑ پر قریب چار ہزار مریض کے جمع ہوئے، لیکن سب یہی کہتے تھے کہ اب خدا چاہے تو گسائیں اپنے مٹھ سے نکلیں گے اور سب کو ان کے فرمانے سے شفائے کلی ہو گی۔
القصہ جس دن وہ دن آیا، صبح کو جوگی مانند آفتاب سے نکل آیا اور دریا میں نہایا اور پیرا، پار جا کر پھر آیا اور بھبھوت بھسم تمام بدن میں لگایا۔ وہ گورا بدن مانند انگار کے راکھ میں چھپایا اور ماتھے پر ملا گیر کا ٹیکا دیا، لنگوٹ باندھ کر انگوچھا کاندھے پر ڈالا بھالوں کا جوڑا باندھا، موچھوں پر تاؤ دے کر چڑھواں جوتا اڑایا۔ اس کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا اس کے نزدیک کچھ قدر نہیں رکھتی۔ ایک قلم دان جڑاؤ بغل میں لے کر ایک ایک کی طرف دیکھتا اور نسخہ دیتا ہوا میرے نزدیک آ پہنچا۔ جب میری اور اس کی چار نظریں ہوئیں، کھڑا رہ کر غور میں گیا اور مجھ سے کہنے لگا ہمارے ساتھ آؤ۔ میں ہم راہ ہو لیا۔
جب سب کی نوبت ہو چکی، میرے تئیں باغ کے اندر لے گیا اور ایک مقطع خوش نقشی خلوت خانے مجھے فرمایا کہ یہاں تم رہا کرو، اور آپ اپنے استھان میں گیا۔ جب ایک چِلا گزرا تو میرے پاس آیا اور آگے کی نسبت مجھے خوش پایا۔ تب مسکرا کر فرمایا کہ اس باغیچے میں سیر کیا کرو۔ جس میوے پر جی چلے کھایا کرو اور ایک قلفی چینی کی معجون بھری ہوئی دی کہ اس میں سے چھ ماشے ہمیشہ بلا ناغہ نوش جان فرمایا کرو۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، اور میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا۔ ہر روز قوت بدن میں اور فرحت دل کی معلوم ہونے لگی، لیکن حضرت عشق کو کچھ اثر نہ کیا۔ اس پری کی صورت نظروں کے آگے پھرتی تھی۔
ایک روز طاق میں جلد کتاب کی نظر آئی۔ اتار کر دیکھا تو سارے علم دن دنیا کے اس میں جمع کئے تھے۔ گویا دریا کو کوزے میں بھر دیا تھا۔ ہر گھڑی اس کا مطالعہ کیا کرتا۔ علم حکمت اور تسخیر میں نہایت قوت بہم پہنچائی۔ اس عرصے میں برس دن گزر گیا۔ پھر وہی خوشی کا دن آیا۔ جوگی اپنے آسن پر سے اٹھ کر باہر نکلا۔ میں نے سلام کیا۔ ان نے قلم دان مجھے دے کر کہا ساتھ چلو۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ جب دروازے سے باہر نکلا ایک عالم دینے لگا۔ وہ امیر اور سوداگر مجھے ساتھ دیکھ کر گسائیں کے قدموں میں گرے اور ادائے شکر کرنے لگے کہ آپ کی توجہ سے بارے اتنا تو ہوا۔ وہ اپنی عادت پر دریا کے گھاٹ تک گیا اور اشنان پوجا جس طرح ہر سال کرتا تھا، پھرتی بار بیماریوں کو دیکھتا بھالتا چلا آتا تھا۔
اتفاقا مسودائیوں کے غول میں ایک جوان خوب صورت شکیل کے ضعف سے کھڑے ہونے کی طاقت اس میں نہ تھی نظر پڑا۔ مجھ کو کہا کہ اس کو ساتھ لے آؤ۔ سب کی دارو درمن کر کے جب خلوت خانے میں گیا۔ تھوڑی سی کھوپڑی اس جوان کی تراش کر، چاہا کہ کنکھجورا جو مغز پر بیٹھا تھا، زنبور سے اٹھا لیوے۔ میرے خیال میں گزرا اور بول اٹھا کہ اگر دست پناہ آگ میں گرم کر کر اس کی پیٹھ پر رکھئے تو خوب ہے۔ آپ سے آپ نکل آوے گا۔ اور جو یوں کھینچے گا تو مغز کے گودے کو نہ چھوڑے گا۔ پھر خوف زندگی کو ہے۔ یہ سن کر میری طرف دیکھا اور چپکا اٹھا باغ کے کونے میں ایک درخت کو لے میں پکڑ جٹا کی لٹ کی گلے میں پھانسی لگا کر رہ گیا۔ میں نے پاس جا کر دیکھا تو واہ واہ یہ تو مر گیا۔ یہ اچنھبا دیکھ کر نہایت افسوس ہوا۔ لاچار جی میں آیا اس کو گارڈ دوں۔ جوں درخت سے جدا کرنے لگا وہ کنجیاں اس کی لٹوں میں سے گر پڑیں۔ میں نے ان کو اٹھا لیا اور اس گنج خوبی کو زمیں میں دفن کیا۔ وہ دونوں کنجیاں لے کر سب قفلوں میں لگانے لگا۔ اتفاقاٰ دو حجروں کے تالے ان تالیوں سے کھلے۔ دیکھا تو زمیں سے چھت تلک جواہر بھرا ہوا ہے۔ اور ایک پیٹی مخمل سے مڑھی سونے کے پتر لگی قفل دی ہوئی ایک طرف دھری ہے۔ اس کو جو کھولا تو ایک کتاب دیکھی کہ اس میں اسم اعظم اور حاضرات جن و پری کی اور روحوں کی ملاقات اور تسخیر آفتاب کی ترکیب لکھی ہے۔
ایسی دولت کے ہاتھ لگنے سے نہایت خوشی حاصل ہوئی اور ان پر عمل کرنا شروع کیا۔ دروازہ باغ کا کھول اپنے اس امیر اور ساتھ والوں کو کہا کہ کشتیاں منگوا کر یہ سب جواہر و نقد جنس اور کتابیں بار کر لو اور ایک نواڑے پر آپ سوار ہو کر وہاں سے بحر کو روانہ کیا۔ آتے آتے جب نزدیک اپنے ملک کے پہنچا، جہاں پناہ کو خبر ہوئی۔ سوار ہو کر استقبال کیا اور اشتیاق سے بے قرار ہو کر کلیجے سے لگا لیا۔ میں نے قدم بوسی کر کر کہا کہ اس خاک سار کو قدیم باغ میں رہنے کا حکم ہوا۔ بولے کہ اے برخوردار وہ مکان میرے نزدیک منحوس ٹھہرا۔ لٰہذا اس کی مرمت اور تیاری موقوف کی۔ اب وہ مکان لائق انسان کے رہنے کے نہیں رہا۔ اور جس محل میں جی چاہے، اترو۔ بہتر یوں ہے کہ قلعے میں کوئی جگہ پسند کر کے میری آنکھوں کے روبرو رہو اور پائیں باغ جیسا چاہو تیار کروا کر سیر تماشا کرو۔ میں نے بہت ضد اور ہٹ کر کر اس باغ کو نئے سرے سے تعمیر کروا دیا اور بہشت کی مانند آراستہ کر داخل ہوا۔ پھر فراغت سے ۔۔۔۔ (ختم شد صفحہ 141)
صفحہ 131 سے 141 تک
شراب پئے ہوئے بیٹھی ہے، وہ تخت بلندی سے آہستہ آہستہ نیچے اتر کر اس برج میں آیا۔ تب پری نے مجھے بلایا، اور اپنے نزدیک بٹھایا۔ باتیں پیار کی کرنے لگی اور منہ سے منہ لگا کر ایک جام شراب گل گلاب کا میرے تئیں پلایا اور کہا آدمی زاد بیوفا ہوتا ہے، لیکن دل ہمارا تجھے چاہتا ہے۔ ایک دم میں ایسی ایسی انداز و ناز کی باتیں کیں کہ دل محو ہو گیا اور ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ زندگی کا مزا پایا، اور یہ سمجھا کہ آج تو دنیا میں آیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ میں تو کیا ہوں، کسو نے یہ عالم نہ دیکھا ہو گا۔ نہ سنا ہو گا اس مزے میں خاطر جمع سے ہم دونوں بیٹھے تھے کہ کریال غلیلا لگا۔ اب اس حادثہ کا ماجرا سن کر وہ نہیں چار پری زاد نے آسمان سے اتر کر کچھ اس معشوقہ کے کان میں کہا۔ سنتے ہی اس کا چہرہ تغیر ہو گیا اور مجھ سے بولی کہ اے پجاری دل تو یہ چاہتا تھا کہ کوئی دم تیرے ساتھ بیٹھ کر دل بہلاؤں اور اسی طرح ہمیشہ آؤں یا تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں۔ پر یہ آسمان دو شخص کو ایک جگہ آرام سے اور خوشی سے رہنے نہیں دیتا۔ لے جاناں تیرا خدا نگہبان ہے۔
یہ سن کر میرے حواس جاتے رہے اور طوطے ہاتھ کے اڑ گئے۔ میں نے کہا کہ جی اب پھر کب ملاقات ہو گی؟ یہ کیا تم نے غضب کی بات سنائی؟ اگر جلد آؤ گی تو مجھے جیتا پاؤ گی، نہیں تو پچھتاؤ گی یا اپنا ٹھکانا اور نام و نشان بتاؤ کہ میں ہی اس پتے پر ڈھونڈھتے اپنے تئیں تمہارے پاس پہنچاؤں۔ یہ سن کر بولی دور پار شیطان کے کان بہرے، تمہاری صد و بیت سال کی عمر ہووے۔ اگر زندگی ہے تو پھر ملاقات ہو رہے گی۔ میں جنوں کے بادشاہ کی بیٹی ہوں اور کوہ قاف میں رہتی ہوں۔ یہ کہہ کر تخت اٹھایا اور جس طرح اترا تھا وونہیں بلند ہونے لگا۔ جب تلک سامنے تھا، میری اور اس کی چار آنکھیں ہو رہی تھیں، جب نظروں سے غائب ہوا یہ حالت ہو گئی جیسے پری کا سایہ ہوتا ہے۔ عجب طرح کی اداسی دل پر چھا گئی، عقل و ہوش رخصت ہوا، دنیا آنکھوں کے تلے اندھیری ہو گئی، حیران، پریشان اور سر پر خاک اڑانا، کپڑے پھاڑنا، نہ کھانا کھانے کی سدھ نہ بھلے برے کی بدھ
اس عشق کی بدولت کیا کیا خرابیاں ہیں
دل میں اداسیاں ہیں اور اضطرابیاں ہیں
دل میں اداسیاں ہیں اور اضطرابیاں ہیں
اس خرابی سے دائی اور معلم خبردار ہوئے۔ ڈرتے ڈرتے بادشاہ کے روبرو گئے اور عرض کی کہ بادشاہ زادہ عالمیان کا یہ حال ہے۔ معلوم نہیں خود خود کیا غضب ٹوٹا جو ان کا آرام اور کھانا پینا سب چھوٹا۔ تب بادشاہ وزیر امرائے صاحب تدبیر اور حکیم جاذق، منجم صادق، ملا، سیانے، خوب درویش سالک اور مجذوب اپنے ساتھ لے کر اس باغ میں رونق افزا ہوئے۔ میری بے قراری اور نالہ و زاری دیکھ کر ان کی بھی حالت اضطراب کی ہو گئی۔
آب دیدہ ہو کر بے اختیار گلے سے لگا لیا۔ اور اس کی تدبیر کی خاطر حکم کیا۔ حکیموں نے قوتِ دل اور خلل دماغ کے واسطے نسخے لکھے اور ملاؤں نے نقش و تعویذ پلانے اور پاس رکھنے کو دیئے۔ دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگے اور نجومی بولے کہ ستاروں کی گردش کے سبب یہ صورت پیش آئی ہے۔ اس کا صدقہ دیجیئے۔
غرض ہر کوئی اپنے اپنے کام کی باتیں کہتا تھا۔ جو گزرتی تھی میرا دل ہی سہتا تھا۔ کسو کی سعی اور تدبیر اور میری تقدیر بد کے کام نہ آئی۔ دن بہ دن دیوانگی کا زور اور میرا بدن بے آب و دانے کم زور ہو چلا۔ رات دن چلانا اور سر ٹپکنا ہی باقی رہا۔ اس حالت میں تین سال گزرے۔ چوتھے برس ایک سوداگر سیر و سفر کرتا ہوا آیا، اور ہر ایک ملک کے تحفے تحائف عجیب و غریب جہاں پناہ کے حضور میں لایا۔ ملازمت حاصل کی۔ بادشاہ نے بہت توجہ فرمائی اور احوال پرسی اس کی کر کے پوچھا کہ تم نے بہت ملک دیکھے، کہیں کوئی حکیم کامل بھی نظر پڑا، یا کسو سے مذکور اس کا سنا؟ اس نے التماس کیا کہ قبلہ عالم غلام نے بہت سیر کی، لیکن ہندوستان میں دریا کے بیچ ایک پہاڑی ہے وہاں ایک گسائیں جٹا دھاری نے بڑا منڈھب مہادیو کا اور سنگت اور باغ بڑی بہار کا بنایا ہے۔ اس میں رہتا ہے اور اس کا یہ قاعدہ ہے کہ برسویں دن شیو رات کے روز اپنے استھان سے نکل کر دریا میں پیرتا ہے اور خوشی کرتا ہے۔ اشنان کے بعد جب اپنے آسن پر جانے لگتا ہے تب بیمار اور درد مند دیس دیس اور ملک ملک کے جو دور دور سے آتے ہیں دروازے پر جمع ہوتے ہیں، ان کی بڑی بھیڑ ہوتی ہے۔
وہ مہنت جسے اس زمانے کا افلاطون کہا چاہیے، قارورہ اور نبض دیکھتا ہوا اور ہر ایک کو نسخہ لکھ کر دیتا ہوا چلا جاتا ہے۔ خدا نے ایس دست شفا اس کو دیا ہے کہ دور پیتے ہی اثر ہوتا ہے اور وہ مرض بالکل جاتا رہتا ہے۔ یہ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان کو اس کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک ملک کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔
بادشاہ کو بھی اس کی صلاح پسند آئی اور خوش ہو کر فرمایا بہت بہتر، شاید اس کا ہاتھ راس آوے اور میرے فرزند کے دل سے وحشت جاوے، ایک امیر معتبر جہاں دیدہ، کار آزمودہ کو اور اس تاجر کو میر رکاب میں تعینات کیا اور اسباب ضروری ساتھ کر دیا۔ نواڑی، بجرے، مور پنکھی پلوار، لچکے، کھیلنے، الاق، پٹیلیوں پر مع سر انجام سوار کر کر رخصت کیا۔ منزل منزل چلتے چلتے اس ٹھکانے پر جا پہنچے۔ نئی ہوا اور نیا دانہ پانی کھانے پینے سے کچھ مزاج ٹھہرا، لیکن خاموشی کا وہی عالم تھا اور رونے سے کام۔ دم بہ دم اسی پری کی دل سی بھولتی نہ تھی۔ اگر کبھو بولتا تو بیت پڑھتا۔
نہ جانوں کس پری رو کی نظر ہوئی
ابھی تو تھا بھلا چنگا مرا دل
ابھی تو تھا بھلا چنگا مرا دل
بارے جب وہ تین مہینے گزرے اس پہاڑ پر قریب چار ہزار مریض کے جمع ہوئے، لیکن سب یہی کہتے تھے کہ اب خدا چاہے تو گسائیں اپنے مٹھ سے نکلیں گے اور سب کو ان کے فرمانے سے شفائے کلی ہو گی۔
القصہ جس دن وہ دن آیا، صبح کو جوگی مانند آفتاب سے نکل آیا اور دریا میں نہایا اور پیرا، پار جا کر پھر آیا اور بھبھوت بھسم تمام بدن میں لگایا۔ وہ گورا بدن مانند انگار کے راکھ میں چھپایا اور ماتھے پر ملا گیر کا ٹیکا دیا، لنگوٹ باندھ کر انگوچھا کاندھے پر ڈالا بھالوں کا جوڑا باندھا، موچھوں پر تاؤ دے کر چڑھواں جوتا اڑایا۔ اس کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا اس کے نزدیک کچھ قدر نہیں رکھتی۔ ایک قلم دان جڑاؤ بغل میں لے کر ایک ایک کی طرف دیکھتا اور نسخہ دیتا ہوا میرے نزدیک آ پہنچا۔ جب میری اور اس کی چار نظریں ہوئیں، کھڑا رہ کر غور میں گیا اور مجھ سے کہنے لگا ہمارے ساتھ آؤ۔ میں ہم راہ ہو لیا۔
جب سب کی نوبت ہو چکی، میرے تئیں باغ کے اندر لے گیا اور ایک مقطع خوش نقشی خلوت خانے مجھے فرمایا کہ یہاں تم رہا کرو، اور آپ اپنے استھان میں گیا۔ جب ایک چِلا گزرا تو میرے پاس آیا اور آگے کی نسبت مجھے خوش پایا۔ تب مسکرا کر فرمایا کہ اس باغیچے میں سیر کیا کرو۔ جس میوے پر جی چلے کھایا کرو اور ایک قلفی چینی کی معجون بھری ہوئی دی کہ اس میں سے چھ ماشے ہمیشہ بلا ناغہ نوش جان فرمایا کرو۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، اور میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا۔ ہر روز قوت بدن میں اور فرحت دل کی معلوم ہونے لگی، لیکن حضرت عشق کو کچھ اثر نہ کیا۔ اس پری کی صورت نظروں کے آگے پھرتی تھی۔
ایک روز طاق میں جلد کتاب کی نظر آئی۔ اتار کر دیکھا تو سارے علم دن دنیا کے اس میں جمع کئے تھے۔ گویا دریا کو کوزے میں بھر دیا تھا۔ ہر گھڑی اس کا مطالعہ کیا کرتا۔ علم حکمت اور تسخیر میں نہایت قوت بہم پہنچائی۔ اس عرصے میں برس دن گزر گیا۔ پھر وہی خوشی کا دن آیا۔ جوگی اپنے آسن پر سے اٹھ کر باہر نکلا۔ میں نے سلام کیا۔ ان نے قلم دان مجھے دے کر کہا ساتھ چلو۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ جب دروازے سے باہر نکلا ایک عالم دینے لگا۔ وہ امیر اور سوداگر مجھے ساتھ دیکھ کر گسائیں کے قدموں میں گرے اور ادائے شکر کرنے لگے کہ آپ کی توجہ سے بارے اتنا تو ہوا۔ وہ اپنی عادت پر دریا کے گھاٹ تک گیا اور اشنان پوجا جس طرح ہر سال کرتا تھا، پھرتی بار بیماریوں کو دیکھتا بھالتا چلا آتا تھا۔
اتفاقا مسودائیوں کے غول میں ایک جوان خوب صورت شکیل کے ضعف سے کھڑے ہونے کی طاقت اس میں نہ تھی نظر پڑا۔ مجھ کو کہا کہ اس کو ساتھ لے آؤ۔ سب کی دارو درمن کر کے جب خلوت خانے میں گیا۔ تھوڑی سی کھوپڑی اس جوان کی تراش کر، چاہا کہ کنکھجورا جو مغز پر بیٹھا تھا، زنبور سے اٹھا لیوے۔ میرے خیال میں گزرا اور بول اٹھا کہ اگر دست پناہ آگ میں گرم کر کر اس کی پیٹھ پر رکھئے تو خوب ہے۔ آپ سے آپ نکل آوے گا۔ اور جو یوں کھینچے گا تو مغز کے گودے کو نہ چھوڑے گا۔ پھر خوف زندگی کو ہے۔ یہ سن کر میری طرف دیکھا اور چپکا اٹھا باغ کے کونے میں ایک درخت کو لے میں پکڑ جٹا کی لٹ کی گلے میں پھانسی لگا کر رہ گیا۔ میں نے پاس جا کر دیکھا تو واہ واہ یہ تو مر گیا۔ یہ اچنھبا دیکھ کر نہایت افسوس ہوا۔ لاچار جی میں آیا اس کو گارڈ دوں۔ جوں درخت سے جدا کرنے لگا وہ کنجیاں اس کی لٹوں میں سے گر پڑیں۔ میں نے ان کو اٹھا لیا اور اس گنج خوبی کو زمیں میں دفن کیا۔ وہ دونوں کنجیاں لے کر سب قفلوں میں لگانے لگا۔ اتفاقاٰ دو حجروں کے تالے ان تالیوں سے کھلے۔ دیکھا تو زمیں سے چھت تلک جواہر بھرا ہوا ہے۔ اور ایک پیٹی مخمل سے مڑھی سونے کے پتر لگی قفل دی ہوئی ایک طرف دھری ہے۔ اس کو جو کھولا تو ایک کتاب دیکھی کہ اس میں اسم اعظم اور حاضرات جن و پری کی اور روحوں کی ملاقات اور تسخیر آفتاب کی ترکیب لکھی ہے۔
ایسی دولت کے ہاتھ لگنے سے نہایت خوشی حاصل ہوئی اور ان پر عمل کرنا شروع کیا۔ دروازہ باغ کا کھول اپنے اس امیر اور ساتھ والوں کو کہا کہ کشتیاں منگوا کر یہ سب جواہر و نقد جنس اور کتابیں بار کر لو اور ایک نواڑے پر آپ سوار ہو کر وہاں سے بحر کو روانہ کیا۔ آتے آتے جب نزدیک اپنے ملک کے پہنچا، جہاں پناہ کو خبر ہوئی۔ سوار ہو کر استقبال کیا اور اشتیاق سے بے قرار ہو کر کلیجے سے لگا لیا۔ میں نے قدم بوسی کر کر کہا کہ اس خاک سار کو قدیم باغ میں رہنے کا حکم ہوا۔ بولے کہ اے برخوردار وہ مکان میرے نزدیک منحوس ٹھہرا۔ لٰہذا اس کی مرمت اور تیاری موقوف کی۔ اب وہ مکان لائق انسان کے رہنے کے نہیں رہا۔ اور جس محل میں جی چاہے، اترو۔ بہتر یوں ہے کہ قلعے میں کوئی جگہ پسند کر کے میری آنکھوں کے روبرو رہو اور پائیں باغ جیسا چاہو تیار کروا کر سیر تماشا کرو۔ میں نے بہت ضد اور ہٹ کر کر اس باغ کو نئے سرے سے تعمیر کروا دیا اور بہشت کی مانند آراستہ کر داخل ہوا۔ پھر فراغت سے ۔۔۔۔ (ختم شد صفحہ 141)