شمشاد
لائبریرین
یہ ذکر ملکہ نے سن کر فرمایا کہاں ہے؟ اگر شہزادہ ہے تو کیا مضائقہ؟ روبہ رو آوے وہ کوکا وہاں سے اٹھ کر آیا اور مجھے ساتھ لے کر گیا۔ میں ملکہ کے دیکھنے سے نہایت شاد ہوا، لیکن عقل و ہوش برباد ہوئے۔ عالم سکوت کا ہو گیا۔ یہ ہواؤ نہ پڑا کہ کچھ کہوں۔ ایک دم میں ملکہ سدھاری اور کوکا اپنے مکان کو چلا۔ گھر آ کر بولا کہ میں نے تیری سب حقیقت اول سے آخر تک کہہ سنائی اور سفارش بھی کی، اب تو ہمیشہ رات کو بلاناغہ جایا کر اور عیش خوشی منایا کر۔ میں اس کے قدم پر گر پڑا۔ اس نے گلے لگا لیا۔ تمام دن گھڑیاں گنتا رہا کہ کب سانجھ ہو، جو میں جاؤں۔ جب رات ہوئی میں اس جوان سے رخصت ہو کر چلا اور پائیں باغ میں ملکہ کے چبوترے پر تکیہ لگا کے جا بیٹھا۔ بعد ایک گھڑی کے ملکہ تن تنہا ایک خواص کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ آ کر مسند پر بیٹھیں۔ خوش طالعی سے یہ دن میسر ہوا، میں نے قدم بوس کیا۔ انہوں نے میرا سر اٹھا لیا اور گلے سے لگا لیا۔ اور بولیں کہ اس فرصت کو غنیمت جان میرا کہا مان۔ مجھے یہاں سے لے نکل، کسو اور ملک کو چل۔ میں نے کہا چلئے یہ کہہ کر ہم دونوں باغ کے باہر تو ہوئے پر حیرت سے اور خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ راہ بھول گئے اور ایک طرف کو چلے جاتے تھے، پر کچھ ٹھکانا نہیں پاتے تھے۔ ملکہ برہم ہو کر بولیں اب میں تھک گئی تیرا مکان کہاں ہے، جلدی چل کر پہنچ۔ نہیں تو کیا کیا چاہتا ہے؟ میرے پاؤں میں پھپھولے پڑ گئے، رستے میں کہیں بیٹھ جاؤں گی۔
میں نے کہا کہ تیرے غلام کی حویلی نزدیک ہے، اب آ پہنچے، خاطر جمع رکھو اور قدم اٹھاؤ۔ جھوٹ تو بولا پر دل میں حیران تھا کہ کہاں لے جاؤں؟ عید راہ پر ایک دروازہ مقفل نظر پڑا۔ جلدی سے قفل کو توڑ کر مکان کے بھتیر گئے۔ اچھی حویلی، فرش بچھا ہوا شراب کے شیشے بھرے، قرینے سے طاق میں دھرے اور باورچی خانے میں نان کباب تیار تھے۔ ماندگی کمال ہو رہی تھی ایک ایک گلاب شراب پرتگالی کی اس گزک کے ساتھ پی اور ساری راہ باہم خوشی کی۔ جب اس چین سے صبح ہوئی، شہر میں غل مچا کہ شہزادی غائب ہوئی۔ محلہ محلہ، کوچہ کوچہ، منادی پھرنے لگی اور کٹنیاں اور ہرکارے چھوٹے کہ جہاں ہاتھ آوے پیدا کریں، اور سب دروازوں پر شہر کے بادشاہی غلاموں کی چوکی آ بیٹھی۔ گزربانوں کو حکم ہوا کہ بغیر پروانگی، چیونٹی باہر شہر کے نہ نکل سکے۔ جو کوئی سراغ ملکہ کا لاوے گا ہزار اشرفی اور خلعت انعام پاوے گا۔ تمام شہر کٹنیاں پھرنے اور گھر گھر میں گھسنے لگیں۔ مجھے جو کم بختی لگی دروازہ بند نہ کیا۔ ایک بڑھیا شیطان کی خالہ، اس کا خدا کرے منہ کالا، ہاتھ میں تسبیح لٹکائے برقع اوڑھے، دروازہ کھلا پا کر ندھڑک چلی آئی اور سامنے ملکہ کے کھڑی ہو کر ہاتھ اٹھا کر دیا دینے لگی کہ الٰہی تیری نتھ جوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کماو کی پگڑی قائم رہے میں غریب رنڈیا فقیرنی ہوں۔ ایک بیٹی میری ہے کہ وہ دو جی سے پورے دونوں درد زہ میں مرتی ہے اور مجھ کو اتنی وسعت نہیں کہ ادھی کا تیل چراغ جلاؤں، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں۔ اگر مر گئی تو گورو کفن کیونکر کروں گی؟ آج دو دن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ اسے صاحب زادی! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا تو اس کو پانی پینے کا آدھار ہو۔
ملکہ نے ترس کھا کر اپنے نزدیک بلا کر چار نان اور کباب اور ایک انگوٹھی چھینگیا سے اتار کر حوالے کی کہ اس کو بیچ بانچ کر گہنا پاتا بنا دیجو۔ اور خاطر جمع سے گزران کیجو۔ اور کبھو آیا کیجو، تیرا گھر ہے، اس نے اپنے دل کا مدعا، جس کی تلاش میں آئی تھی بہ جنس پایا۔ خوشی سے دعائیں دیتی اور بلائیں لیتی دفع ہوئی۔ ڈیوڑھی میں نان کباب پھینک دیئے، مگر انگوٹھی کو مٹھی میں لے لیا کہ پتا ملکہ کے ہاتھ کا میرے ہاتھ آیا۔ خدا اس آفت سے جو بچایا چاہے اس مکان کا مالک جواں مرد سپاہی، تازی گھوڑے پر چڑھا ہوا، نیزہ ہاتھ میں لئے شکار بن سے ایک ہرن لٹکائے آ پہنچا، اپنی حویلی کا تالا ٹوٹا اور کواڑ کھلے پائے۔ اس دلالہ کو نکلتے دیکھا، مارے غصے کے ایک ہاتھ سے اس کے جھونٹے پکڑ کر لٹکایا اور گھر میں آیا۔ اس کے دونوں پاؤں میں رسی باندھ کر ایک درخت کی ٹہنی میں لٹکایا۔ سر تلے پاؤں اوپر کئے ایک دم میں تڑپہ تڑپہ مر گئیں۔ اس مرد کی صورت دیکھ کر یہ ہیبت غالب ہوئی کہ ہوائیاں منہ پر اڑنے لگیں اور مارے ڈر کے کلیجہ کانپنے لگا۔ اس عزیز نے ہم دونوں کو بدحواس دیکھ کر تسلی دی کہ بڑی نادانی تم نے کی۔ ایسا کام کیا اور دروازہ کھول دیا۔
ملکہ نے مسکرا کر فرمایا کہ شہزادہ اپنے غلام کی حویلی کہہ کر مجھے لے آیا اور مجھ کو پھسلایا۔ اس نے التماس کیا کہ شہزادے نے بیان واقعی کہا۔ جتنی خلق اللہ ہے بادشاہوں کے لونڈی غلام ہیں۔ انہیں کی برکت اور فیض سے سب کی پرورش اور نباہ ہے۔ یہ غلام بے دام و درم زر خریدہ تمہارا ہے۔ لین بھید چھپانا، عقل کا مقتضا ہے۔ اے شہزادے تمہارا اور ملکہ کا اس غریب خانے میں توجہ فرمانا اور تشریف لانا سعادت دونوں جہان کی ہے۔ اور اپنے فدوی کو سرفراز کیا۔ میں نثار ہونے کو تیار ہوں۔ کسو صورت میں جان و مال سے دریغ نہ کروں گا۔ آپ شوق سے آرام فرمائیے اب کوڑی بھر خطرہ نہیں۔ یہ مردار کٹنی اگر سلامت جاتی تو آفت لاتی۔ اب جب تلک مزاج شریف چاہے بیتھے رہیے اور جو کچھ چاہیے درکار ہو اس خانہ زاد کو کہیے سب حاضر کرے گا اور بادشاہ تو کیا چیز ہے! تمہاری خبر فرشتے کو بھی نہ ہو گی۔ اس جواں مرد نے ایسی ایسی باتیں تسلی کی کہیں کہ تک خاطر جمع ہوئی۔ تب میں نے کہا شاباش تم مرد ہو۔ اس مروت کا عوض ہم سے بھی جب ہو سکے گا تب ظہور میں آوے گا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ غلام کا اسم بہزاد خاں ہے۔ غرض چھ مہینے تک جتنی شرط خدمت کی تھی۔ بہ جان و دل بجا لایا۔ خوب آرام سے گزری۔
ایک دن مجھے اپنا ملک اور ماں باپ یاد آئے اس لیے نہایت متفکر بیٹھا تھا۔ میرا چہرہ ملین دیکھ کر بہزاد خان روبرو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس فدوی سے اگر کچھ تقصیر چرن برداری میں واقع ہو تو ارشاد ہو۔ میں نے کہا از برائے خدا یہ کیا مذکور ہے! تم نے ایسا سلوک کیا کہ اس شہر میں ایسے آرام سے رہے، جیسے اپنی ماں کے پیٹ میں کوئی رہتا ہے۔ نہیں تو یہ ایسی حرکت ہم سے ہوئی تھی کہ تنکا تنکا ہمارا دشمن تھا۔ ایسا دوست ہمارا کون تھا کہ ذرا دم لیتے۔ خدا تمہیں خوش رکھے بڑے مرد ہو۔ تب اس نے کہا اگر یہاں سے دل برداشتہ ہوا ہو۔ تو جہاں خیرعافیت سے پہنچا دوں۔ فقیر بولا کہ اگر اپنے وطن تک پہنچوں تو والدین کو دیکھوں، میری تو یہ صورت ہوئی، خدا جانے ان کی کیا حالت ہوئی جس واسطے جلا وطن ہوا تھا میری آرزو بر آئی۔ اب ان کی بھی قدم بوسی واجب ہے۔ میری خبر ان کو کچھ نہیں کہ مرا یا جیتا ہے؟ ان کے دل پر کیا قلق گزرتا ہو گا۔ وہ جوان مرد بولا کہ بہت مبارک ہے چلئے یہ کہہ کر ایک راس گھوڑا ترکی سو کوس چلنے والا اور ایک گھوڑی جلد جس کے پر نہیں کٹے تھے۔ لیکن شائستہ، ملکہ کی خاطر لایا اور ہم دونوں کو سوار کروایا۔ پھر زرہ بکتر پہن سلاغ باندھ اوپچی بن اپنے مرکب پر چڑھ بیٹھا اور کہنے لگا غلام آگے ہو لیتا ہے، صاحب خاطر جمع سے گھوڑے دبائے چل آویں۔ جب شہر کے دروازے پر آیا ایک نعرہ مارا اور تیرے قفل کر توڑا اور نگہبانوں کو ڈپٹ کر للکارا کہ برچودو! اپنے خاوند کو جا کر کہو کہ بہزاد خان ملکہ مہر نگار اور شہزادہ کا مار کو جو تمہارا داماد ہے ہانکے پکارے لئے جاتا ہے اگر مروی کا کچھ نشہ ہے تو باہر نکلو اور ملکہ کو چھین لو۔ یہ نہ کہیو کہ چپ چاپ لے گیا، نہیں تو قلعے میں بیٹھے آرام کیا کرو۔ کہ خبر بادشاہ کو جلد جا پہنچے۔ وزیر اور میر بخشی کو حکم ہوا کہ ان تینوں ذاد مفسدوں کو باندھ کر لاؤ، یا ان کے سر کاٹ کر حضور میں پہنچاؤ، ایک دم کے بعد رغٹ فوج کا نمودار ہوا اور تمام زمین و آسمان گرد باد ہو گیا۔ بہزاد خاں نے ملکہ کو اس فقیر کو ایک در میں پل کے کہ بارہ پلے اور جون پور کے پل کے برابر کھڑا تھا۔ اور آپ گھوڑے کو تنگیا کر اس فوج کی طرف پھرا اور شیر کی مانند گونج کر مرکب کو ڈپٹ کر فوج کے درمیان گھسا۔ تمام لشکر کائی سا پھٹ گیا اور یہ دونوں سرداروں تلک جا پہنچا۔ دونوں کے سر کاٹ لئے جب سردار مارے گئے لشکر تتر بتر ہو گیا۔ وہ کہاوت ہے سر سے سر واہ جب بیل پھوٹی رائی رائی ہو گی۔ وہ نہیں آپ بادشاہ کتنی فوج بکتر پوشوں کے ساتھ لے کمک کو آئے۔ ان کو بھی لڑائی اس پکا جوان نے مار دی شکست فاس کھائی۔
بادشاہ پسپا ہوئے۔ سچ ہے فتح داد الٰہی ہے لیکن بہزاد خان نے ایسی جوانمردی کی کہ شاید رستم سے بھی نہ ہو سکتی تھی۔ جب بہزاد خان نے دیکھا کہ مطلق صاف ہوا، اب کون باقی رہا ہے جو ہمارا پیچھا کرے گا، بے وسواس ہو کر اور خاطر جمع کر جہاں ہم کھڑے تھے آیا اور ملکہ اور مجھ کو ساتھ لے کر چلا۔ سفر کی عمر کو تاہ ہوتی ہے۔ تھوڑے عرصے میں اپنے ملک کی سرحد میں جا پہنچے۔
میں نے کہا کہ تیرے غلام کی حویلی نزدیک ہے، اب آ پہنچے، خاطر جمع رکھو اور قدم اٹھاؤ۔ جھوٹ تو بولا پر دل میں حیران تھا کہ کہاں لے جاؤں؟ عید راہ پر ایک دروازہ مقفل نظر پڑا۔ جلدی سے قفل کو توڑ کر مکان کے بھتیر گئے۔ اچھی حویلی، فرش بچھا ہوا شراب کے شیشے بھرے، قرینے سے طاق میں دھرے اور باورچی خانے میں نان کباب تیار تھے۔ ماندگی کمال ہو رہی تھی ایک ایک گلاب شراب پرتگالی کی اس گزک کے ساتھ پی اور ساری راہ باہم خوشی کی۔ جب اس چین سے صبح ہوئی، شہر میں غل مچا کہ شہزادی غائب ہوئی۔ محلہ محلہ، کوچہ کوچہ، منادی پھرنے لگی اور کٹنیاں اور ہرکارے چھوٹے کہ جہاں ہاتھ آوے پیدا کریں، اور سب دروازوں پر شہر کے بادشاہی غلاموں کی چوکی آ بیٹھی۔ گزربانوں کو حکم ہوا کہ بغیر پروانگی، چیونٹی باہر شہر کے نہ نکل سکے۔ جو کوئی سراغ ملکہ کا لاوے گا ہزار اشرفی اور خلعت انعام پاوے گا۔ تمام شہر کٹنیاں پھرنے اور گھر گھر میں گھسنے لگیں۔ مجھے جو کم بختی لگی دروازہ بند نہ کیا۔ ایک بڑھیا شیطان کی خالہ، اس کا خدا کرے منہ کالا، ہاتھ میں تسبیح لٹکائے برقع اوڑھے، دروازہ کھلا پا کر ندھڑک چلی آئی اور سامنے ملکہ کے کھڑی ہو کر ہاتھ اٹھا کر دیا دینے لگی کہ الٰہی تیری نتھ جوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کماو کی پگڑی قائم رہے میں غریب رنڈیا فقیرنی ہوں۔ ایک بیٹی میری ہے کہ وہ دو جی سے پورے دونوں درد زہ میں مرتی ہے اور مجھ کو اتنی وسعت نہیں کہ ادھی کا تیل چراغ جلاؤں، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں۔ اگر مر گئی تو گورو کفن کیونکر کروں گی؟ آج دو دن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ اسے صاحب زادی! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا تو اس کو پانی پینے کا آدھار ہو۔
ملکہ نے ترس کھا کر اپنے نزدیک بلا کر چار نان اور کباب اور ایک انگوٹھی چھینگیا سے اتار کر حوالے کی کہ اس کو بیچ بانچ کر گہنا پاتا بنا دیجو۔ اور خاطر جمع سے گزران کیجو۔ اور کبھو آیا کیجو، تیرا گھر ہے، اس نے اپنے دل کا مدعا، جس کی تلاش میں آئی تھی بہ جنس پایا۔ خوشی سے دعائیں دیتی اور بلائیں لیتی دفع ہوئی۔ ڈیوڑھی میں نان کباب پھینک دیئے، مگر انگوٹھی کو مٹھی میں لے لیا کہ پتا ملکہ کے ہاتھ کا میرے ہاتھ آیا۔ خدا اس آفت سے جو بچایا چاہے اس مکان کا مالک جواں مرد سپاہی، تازی گھوڑے پر چڑھا ہوا، نیزہ ہاتھ میں لئے شکار بن سے ایک ہرن لٹکائے آ پہنچا، اپنی حویلی کا تالا ٹوٹا اور کواڑ کھلے پائے۔ اس دلالہ کو نکلتے دیکھا، مارے غصے کے ایک ہاتھ سے اس کے جھونٹے پکڑ کر لٹکایا اور گھر میں آیا۔ اس کے دونوں پاؤں میں رسی باندھ کر ایک درخت کی ٹہنی میں لٹکایا۔ سر تلے پاؤں اوپر کئے ایک دم میں تڑپہ تڑپہ مر گئیں۔ اس مرد کی صورت دیکھ کر یہ ہیبت غالب ہوئی کہ ہوائیاں منہ پر اڑنے لگیں اور مارے ڈر کے کلیجہ کانپنے لگا۔ اس عزیز نے ہم دونوں کو بدحواس دیکھ کر تسلی دی کہ بڑی نادانی تم نے کی۔ ایسا کام کیا اور دروازہ کھول دیا۔
ملکہ نے مسکرا کر فرمایا کہ شہزادہ اپنے غلام کی حویلی کہہ کر مجھے لے آیا اور مجھ کو پھسلایا۔ اس نے التماس کیا کہ شہزادے نے بیان واقعی کہا۔ جتنی خلق اللہ ہے بادشاہوں کے لونڈی غلام ہیں۔ انہیں کی برکت اور فیض سے سب کی پرورش اور نباہ ہے۔ یہ غلام بے دام و درم زر خریدہ تمہارا ہے۔ لین بھید چھپانا، عقل کا مقتضا ہے۔ اے شہزادے تمہارا اور ملکہ کا اس غریب خانے میں توجہ فرمانا اور تشریف لانا سعادت دونوں جہان کی ہے۔ اور اپنے فدوی کو سرفراز کیا۔ میں نثار ہونے کو تیار ہوں۔ کسو صورت میں جان و مال سے دریغ نہ کروں گا۔ آپ شوق سے آرام فرمائیے اب کوڑی بھر خطرہ نہیں۔ یہ مردار کٹنی اگر سلامت جاتی تو آفت لاتی۔ اب جب تلک مزاج شریف چاہے بیتھے رہیے اور جو کچھ چاہیے درکار ہو اس خانہ زاد کو کہیے سب حاضر کرے گا اور بادشاہ تو کیا چیز ہے! تمہاری خبر فرشتے کو بھی نہ ہو گی۔ اس جواں مرد نے ایسی ایسی باتیں تسلی کی کہیں کہ تک خاطر جمع ہوئی۔ تب میں نے کہا شاباش تم مرد ہو۔ اس مروت کا عوض ہم سے بھی جب ہو سکے گا تب ظہور میں آوے گا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ غلام کا اسم بہزاد خاں ہے۔ غرض چھ مہینے تک جتنی شرط خدمت کی تھی۔ بہ جان و دل بجا لایا۔ خوب آرام سے گزری۔
ایک دن مجھے اپنا ملک اور ماں باپ یاد آئے اس لیے نہایت متفکر بیٹھا تھا۔ میرا چہرہ ملین دیکھ کر بہزاد خان روبرو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس فدوی سے اگر کچھ تقصیر چرن برداری میں واقع ہو تو ارشاد ہو۔ میں نے کہا از برائے خدا یہ کیا مذکور ہے! تم نے ایسا سلوک کیا کہ اس شہر میں ایسے آرام سے رہے، جیسے اپنی ماں کے پیٹ میں کوئی رہتا ہے۔ نہیں تو یہ ایسی حرکت ہم سے ہوئی تھی کہ تنکا تنکا ہمارا دشمن تھا۔ ایسا دوست ہمارا کون تھا کہ ذرا دم لیتے۔ خدا تمہیں خوش رکھے بڑے مرد ہو۔ تب اس نے کہا اگر یہاں سے دل برداشتہ ہوا ہو۔ تو جہاں خیرعافیت سے پہنچا دوں۔ فقیر بولا کہ اگر اپنے وطن تک پہنچوں تو والدین کو دیکھوں، میری تو یہ صورت ہوئی، خدا جانے ان کی کیا حالت ہوئی جس واسطے جلا وطن ہوا تھا میری آرزو بر آئی۔ اب ان کی بھی قدم بوسی واجب ہے۔ میری خبر ان کو کچھ نہیں کہ مرا یا جیتا ہے؟ ان کے دل پر کیا قلق گزرتا ہو گا۔ وہ جوان مرد بولا کہ بہت مبارک ہے چلئے یہ کہہ کر ایک راس گھوڑا ترکی سو کوس چلنے والا اور ایک گھوڑی جلد جس کے پر نہیں کٹے تھے۔ لیکن شائستہ، ملکہ کی خاطر لایا اور ہم دونوں کو سوار کروایا۔ پھر زرہ بکتر پہن سلاغ باندھ اوپچی بن اپنے مرکب پر چڑھ بیٹھا اور کہنے لگا غلام آگے ہو لیتا ہے، صاحب خاطر جمع سے گھوڑے دبائے چل آویں۔ جب شہر کے دروازے پر آیا ایک نعرہ مارا اور تیرے قفل کر توڑا اور نگہبانوں کو ڈپٹ کر للکارا کہ برچودو! اپنے خاوند کو جا کر کہو کہ بہزاد خان ملکہ مہر نگار اور شہزادہ کا مار کو جو تمہارا داماد ہے ہانکے پکارے لئے جاتا ہے اگر مروی کا کچھ نشہ ہے تو باہر نکلو اور ملکہ کو چھین لو۔ یہ نہ کہیو کہ چپ چاپ لے گیا، نہیں تو قلعے میں بیٹھے آرام کیا کرو۔ کہ خبر بادشاہ کو جلد جا پہنچے۔ وزیر اور میر بخشی کو حکم ہوا کہ ان تینوں ذاد مفسدوں کو باندھ کر لاؤ، یا ان کے سر کاٹ کر حضور میں پہنچاؤ، ایک دم کے بعد رغٹ فوج کا نمودار ہوا اور تمام زمین و آسمان گرد باد ہو گیا۔ بہزاد خاں نے ملکہ کو اس فقیر کو ایک در میں پل کے کہ بارہ پلے اور جون پور کے پل کے برابر کھڑا تھا۔ اور آپ گھوڑے کو تنگیا کر اس فوج کی طرف پھرا اور شیر کی مانند گونج کر مرکب کو ڈپٹ کر فوج کے درمیان گھسا۔ تمام لشکر کائی سا پھٹ گیا اور یہ دونوں سرداروں تلک جا پہنچا۔ دونوں کے سر کاٹ لئے جب سردار مارے گئے لشکر تتر بتر ہو گیا۔ وہ کہاوت ہے سر سے سر واہ جب بیل پھوٹی رائی رائی ہو گی۔ وہ نہیں آپ بادشاہ کتنی فوج بکتر پوشوں کے ساتھ لے کمک کو آئے۔ ان کو بھی لڑائی اس پکا جوان نے مار دی شکست فاس کھائی۔
بادشاہ پسپا ہوئے۔ سچ ہے فتح داد الٰہی ہے لیکن بہزاد خان نے ایسی جوانمردی کی کہ شاید رستم سے بھی نہ ہو سکتی تھی۔ جب بہزاد خان نے دیکھا کہ مطلق صاف ہوا، اب کون باقی رہا ہے جو ہمارا پیچھا کرے گا، بے وسواس ہو کر اور خاطر جمع کر جہاں ہم کھڑے تھے آیا اور ملکہ اور مجھ کو ساتھ لے کر چلا۔ سفر کی عمر کو تاہ ہوتی ہے۔ تھوڑے عرصے میں اپنے ملک کی سرحد میں جا پہنچے۔