اقتباسات بانو آپا - بانو قدسیہ کی تحریروں سے اقتباسات اور ان کی باتیں

زبیر مرزا

محفلین
آپ بانو کو جانتے ہیں چونکہ وہ مصنفہ ہے - قدسیہ کو نہیں جانتے جو فرد ہے- میں قدسیہ کو جانتا ہوں بانو کو نہیں جانتا- بانوقدسیہ ایک نہیں دوافراد ہیں جس طرح کسی کسی بادام میں دومغز موجود
ہوتے ہیں- اسی طرح بانوقدسیہ کی شخصیت کے دو پہلو ہیں الگ الگ - ایک بانودوسری قدسیہ-
میں بانوقدسیہ سے واقف نہیں لہذا اس کی شخصیت قلم بند کرنے سے قاصر ہوں- صرف یہی نہیں کہ
واقف نہیں سچی بات ہے میں اس سے واقف ہونا ہی نہیں چاہتا میں ہی نہیں اس کے گھرمیں بھی کوئی
اس سے واقف نہیں نہ اشفاق ، نہ نوکی ، نہ سیری ، نہ کیسی کوئی بھی بانوسے واقف نہیں ہونا چاہتا-
گھرمیں تین مظلوم رہتے ہیں - بانو، قدسی اوراشفاق احمد - بانو کو قدسی جینے نہیں دیتی ، قدسی کو
اشفاق جینے نہیں دیتا، اشفاق احمد کو خود اشفاق احمد جینے نہیں دیتا- اشفاق احمد پٹھان ہے
قدسیہ جاٹ ہے ، بانوبے ذات ہے- اشفاق براہمن ہے، قدسیہ شودہرہے ، بانوہاری ہے شہد کی مکھی ہے- قدسیہ پروانہ ہے ، اشفاق بھڑہے- بانوذہن ہے قدسی دل ہے، اشفاق ذہن ہے-
بانوکے فکرمنزل ہے ، قدسی کے لیے پتی بھگتی ہے ، اشفاق کے لیے ذات منزل ہے
قدسی کی شخصیت کا جزواعظم پتی بھگتی ہے- اگرآپ پتی بھگتی کا مفہوم سمجھنا چاہتے ہیں تو
میرا مخلصانہ مشورہ ہے چند روز اشفاق احمد کے گھرمیں قیام کیجیے-
اگراشفاق احمد قدسی کی موجودگی میں برسبیل تذکرہ آپ سے کہے کہ اس گھر میں تو سامان کے انبارلگے ہوئے ہیں میرا تو دم رُکنے لگا ہے تو اگلے دن گھر میں چٹائیاں بچھی ہوں گی اور پیڑھیاں دھری ہوں گی- اگرکسی روز لاؤڈ تھنکنگ کرتے ہوئے اشفاق کہے بھئی چینی کھانوں کی کیابات ہے تو چند دنوں میں کھانے کی میز پرچینی کھانے یوں ہوں گے جیسے ہانگ کانگ کے
کسی ریستوران کا میز ہو-
ایک دن اشفاق کھانا کھاتے ہوئے کہے کہ کھانے کا مزہ تو تب آتا تھا جب اماں مٹی کی ہانڈی میں
پکاتی تھیں- اگلے روز قدسی کے باورچی خانے میں مٹی کی ہاںڈیا چولہے پردھری ہوگی-
پہلی مرتبہ میں نے بانو کو سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا امی ایڈیٹر صاحب آپ سے
ملنے آئے ہیں قدسی ڈرائینگ چلی گئی-
پھرڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کررہی تھی - افسانوں کی باتیں- کرداروں کی باتیں- مرکزی خیال
اندازِ بیان کی خصوصیات کی باتیں- ان باتوں میں فلسفہ ، نفسیات اورجمالیات تھی-
میں حیرت سے سن رہا تھا-اللہ اندر توقدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کررہی ہے- قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں ، جی ہاں ہے اگرمگر، چونکہ ، چنانچہ کون ہے
تب مجھے پتہ چلا بانوکون ہے-
(ممتازمفتی کی بانوقدسیہ کے بارے تحریر سے ایک اقتباس )
 

زبیر مرزا

محفلین
کرنیل کور کے ہونٹ بغیر ہلے کہہ رہے تھے
"یا رسول اللہ تیرے درپہ آئے ہوئے لوگوں کے لیے تیرے پیاروں نے دروازے کیوں بند کررکھے ہیں- مجھے اس بات کا رنج نہیں کہ سوڈھی سرداروں کی لڑکی تیلی سے بیاہی جارہی ہے
میں توپوچھتی ہوں کتنے سوبرسوں میں ایک نومسلم مسلمان ہوجاتا ہے - کلمہ پڑھنے کے بعد
مسلمان کہلانے کے لیے کتنے برسوں کی کھٹالی میں رہنا پڑتاہے"
کتنے سال ---- کتنے سوسال ؟
(بانوقدسیہ کے افسانے کتنے سوسال سے اقتباس)
 

زبیر مرزا

محفلین
قاسم فردوس نے دیوار پر آویزاں دارالشکوہ کے قطعے پر نظریں جمائے کھڑاتھا - نہ جانے وہ سوچوں کی کن منزلوں میں تھا
یک ذرہ ندیدیم ازخورشید جدا
ہرقطرہ آب ہست عین دریا
حق رابچہ کس بتواندن؟
ہرنام کہ ہست است ازاسمائےخدا
کچھ سال پہلے وہ لندن کی انڈیا لائبریری میں دارالشکوہ کی جمع کردہ تصویروں کے البم سے متعارف ہواتھا- تب اس کے دل میں دارالشکوہ کے لیے
عجیب جذبات نے جنم لیاتھا- ہمیشہ سے مغل بادشاہوں کے متعلق دورُخے رویے کا شکاررہا تھا
جب کبھی ان کے متعلق سوچتا اس کے دل میں محبت ونفرت کا دوہراچکرچلنے لگتا
دارالشکوہ کی شخصیت پر اگرصوفی کا اطلاق ہوتا تھا تو ساتھ ہی بادشاہت کے نبردآزما ہونے کا چارج بھی تھا
بھلا کسی صوفی کا بادشاہت سے کیا سروکار؟ کوئی صوفی ملکیت کا دعویٰ دار کب ہواتھا-
کیا آبائی وطن سے دوری نے مغل شہزادوں کوایسا منقسم کیا کہ وہ کبھی بھی یکجائی اختیار نہ کرسکے؟
بکھرے ہوئے شہزادوں میں دارالشکوہ سب سے زیادہ ذات کے خنجرسے خودکشی کرنے والاتھا
اسے اورنگزیب سے کم اپنے وجود سے زیادہ تکلیف پہنچی تھی- وہ ایک ذات میں کئی روپ اکٹھے کرکے سب کی الگ الگ پرورش کرتا رہا-
قاسم فردوس نے پرگنہ باڑی کے اس صوفی کے متعلق سوچا جس سے دارالشکوہ کو والہانہ عقیدت تھی اوراسے اپنا نام یہ کہہ کر نہ بتاتا تھاکہ
ہرنام خدا کے ناموں میں سے ہے توپھراپنے نام سے کیا شناخت پیدا ہوگی؟
جب پانی کا قطرہ سمندرہے تو پھر اس کا نام کیا معنی رکھتا ہے؟
قاسم فردوس نے سوچا " اصل درالشکوہ کون تھا؟"
(آخرمیں ہی کیوں؟ سے اقتباس)
 

سید زبیر

محفلین
زبیر مرزا ! بہت شکریہ ، انتہائی خوبصور ت تحریر شریک محفل کی ہے ۔ یہ جوڑی معاشرتی، فکری، اور ادبی طور پر منفرد تھی
خدا ایسے جوڑے بناتا ہے کم
سر ! بہت شکریہ
 

نیلم

محفلین
بہت خُوب ،،
بے مثال جوڑی تھی بانو آپا اور اشفاق صاحب کی ایک چاند اور دوسری چاندنی ۔جنہوں نے اپنی روشنی صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھی بلکہ ہر ایک تک پُہنچائی ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان آپ نے "بانو آپا - بانو قدسیہ کی تحریروں سے اقتباسات اور ان کی باتیں" رکھا لیکن پہلا مراسلہ ممتاز مفتی مرحوم کی تحریر سے ہے۔
 

نیلم

محفلین
عنوان آپ نے "بانو آپا - بانو قدسیہ کی تحریروں سے اقتباسات اور ان کی باتیں" رکھا لیکن پہلا مراسلہ ممتاز مفتی مرحوم کی تحریر سے ہے۔
جی وہ پہلے تعارف دینا چا رہے ہیں بانو آپا کا اسی لیے ۔اور تعارف تو بانو آپا کا ہی ہے :)
 

تلمیذ

لائبریرین
دونوں قران پاک کی اس آیت کی سراپا تمثیل ہیں جس کے مفہوم میں شامل ہے کہ اللہ پاک نے نے نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں پیدا کی ہیں۔
شراکت کے لئے بہت شکریہ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
بانوقدسیہ کے بارے میں ممتازمفتی مزید لکھتے ہیں
"اشفاق احمد نے ایک خاتون سے عشق - کئی سال وہ اس عشق میں گھلتا رہا - عشق کامیاب ہوا - خاتون بیوی بن کے گھرآئیں تو محبوبہ نہیں
عاشق نکلیں -ورنہ اشفاق احمد کے جملہ کس بل نکل جاتے - محبوب طبعیت وہ ازلی طورپرتھا بیوی کی آمد کےبعد بلکل دیوتا بن گیا
کانٹا اشفاق کو چبھے تو ددرد بانو کو ہوتا ہے - ہتھ چکی اشفاق چلاتا ہے آبلے بانو کے ہاتھوں میں پڑتے ہیں - حیرت ہوتی ہے ایک پکی دانشور
نے پتی بھگتی میں اپنا سب کچھ تیاگ رکھا ہے-"

مفتی جی کی براؤن آنکھیں غصے میں پھیل جاتیں "او بے وقوف احمقے عورت تو دِکھناچاہتی ہے وہ پھول ہے پھول-"
"تو دِکھ تو رہی ہے مفتی جی ------کبھی ماڈل بن کر کبھی چھوٹی یا بڑی اسکرین پرجگمگا رہی ہے----- کون روک سکتا ہے
اسے- اسے تو مذہب نہیں روک سکا تو مرد کی کیا مجال ہے؟"

(بانوقدسیہ کے مضمون مفتی جی خیمہ ساز سے اقتباس)
 

زبیر مرزا

محفلین
مرد اورعورت بنیادی طورپردونوں مشقتی ہیں- مگردونوں کی مشقت مختلف ہے- مردساری عمر کفالت کرتا ہے
اوراندھا کپڑا ناطاقتا ہوکرآخری عمرمیں کھانستا دنیا سے سدھارجاتا ہے- عورت کی مشقت رنگ لاتی ہے بڑے ہوکر
بچے رکشے پرلکھتے پڑھتے ہیں " ماں کی دُعا جنت کی ہوا"
مردساری عمردھکے کھاکرکفالت کی راہ نہیں چھوڑتا- مکان بنواتا- دفتروں میں سرکھپاتا ، پردیسوں کی مٹی پھانکتا ہے
اورآخرمیں بچے کہتے ہیں اباجی اگرآپ کوئی ڈھنگ کا کام کرلیتے تو زندگی سنورجاتی-
(مفتی جی خیمہ ساز سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
بانوقدسیہ کے بارے میں ممتازمفتی مزید لکھتے ہیں
"اشفاق احمد نے ایک خاتون سے عشق - کئی سال وہ اس عشق میں گھلتا رہا - عشق کامیاب ہوا - خاتون بیوی بن کے گھرآئیں تو محبوبہ نہیں
عاشق نکلیں -ورنہ اشفاق احمد کے جملہ کس بل نکل جاتے - محبوب طبعیت وہ ازلی طورپرتھا بیوی کی آمد کےبعد بلکل دیوتا بن گیا
کانٹا اشفاق کو چبھے تو ددرد بانو کو ہوتا ہے - ہتھ چکی اشفاق چلاتا ہے آبلے بانو کے ہاتھوں میں پڑتے ہیں - حیرت ہوتی ہے ایک پکی دانشور
نے پتی بھگتی میں اپنا سب کچھ تیاگ رکھا ہے-"

مفتی جی کی براؤن آنکھیں غصے میں پھیل جاتیں "او بے وقوف احمقے عورت تو دِکھناچاہتی ہے وہ پھول ہے پھول-"
"تو دِکھ تو رہی ہے مفتی جی ------کبھی ماڈل بن کر کبھی چھوٹی یا بڑی اسکرین پرجگمگا رہی ہے----- کون روک سکتا ہے
اسے- اسے تو مذہب نہیں روک سکا تو مرد کی کیا مجال ہے؟"

(بانوقدسیہ کے مضمون مفتی جی خیمہ ساز سے اقتباس)
بہت ہی خُوب
 

نیلم

محفلین
میری چپ حویلی کے صدر دروازے کے قدموں میں گرے ہوئے اس قفل کی مانند ہے، جسے چور پچھلی رات دروازے کے کنڈے سے اتار کر پھینک گئے ہوں۔ ایسا تالا بہت کچھ کہتا ہے، لیکن کوئی تفصیل بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے، لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کرسکنے کا غم، اپنی ہیچ مدانی کا احساس، اپنے مالکوں سے گہری دغابازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کردیتا ہے۔

(اقتباس: بانو قدسیہ کی کہانی ”انتر ہوت اداسی“ سے)
 

تلمیذ

لائبریرین
وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے، لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کرسکنے کا غم، اپنی ہیچ مدانی کا احساس، اپنے مالکوں سے گہری دغابازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کردیتا ہے۔

(اقتباس: بانو قدسیہ کی کہانی ”انتر ہوت اداسی“ سے)

واہ، تالے کی زبان سے انسانی احساسات کی کیا خوبصورت ترجمانی کی ہے، بانو آپا نے۔ بلاشبہ یہ انہی کا حصہ ہے۔
بہت خوب، شراکت کا شکریہ، جزاک اللہ!!
 

زبیر مرزا

محفلین
میرے اردگرد Kipling کا مقولہ گھومتا رہتا ہے
"مغرب مغرب ہے اورمشرق مشرق یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے"
سوچتا ہوں مل بھی کیسے سکتے ہیں ؟ مشرق میں جب سورج نکلتا ہے مغرب میں عین اس وقت آغازِ شب کا منظرہوتا ہے
سورج انسان کے دن رات متعین کرنے والا ہے- پھر جب ایک کی رات ہو اوردوسری جگہ سورج کی کرنیں پھیلی ہو ں
ایک قوم سوتی ہو ایک بیدار ہو تو فاصلے کم ہونے میں نہیں آتے-

(حاصل گھاٹ سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
محبت چھلاوہ ھے۔ ۔ ۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ھے کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ھیں اتصال جسم کے خواہاں ھیں ۔ کچھ آپ کی روح کے لیئے تڑپتے ھیں کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ھو جانا چاھتے ھیں ۔ کچھ کو سمجھ سوچ ادراک کی سمتوں پر چھا جانے کا شوق ھوتا ھے ۔ ۔ ۔ محبت چھلاوہ ھے لاکھ روپ بدلتی ھے ۔ ۔ ۔ اسی لیئے لاکھ چاھو ایک آدمی آپ کی تمام ضرورتیں پوری کر دے یہ ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ اور بالفرض کوئی آپ کی ھر سمت ھر جہت کے خلا کو پورا بھی کر دے تو اس بات کی کیا گارنٹی ھے کہ آپ اس کی ھر ضرورت کو ھر جگہ ھر موسم اور ھر عہد میں پورا کرسکیں گے ۔ ۔ ۔ انسان جامد نہیں ھے بڑھنے والا ھے اوپر دائیں بائیں ۔ ۔ ۔ اس کی ضروریات کو تم پابند نہیں کر سکتے ۔۔۔

ًبانو قدسیہ کے ناول، راجہ گدھ سے اقتباس
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت عمدہ ۔ اچھا انتخاب ہے۔
(براہ مہربانی تدوین کرکےاس عبارت میں لفظ 'ھ' کو 'ہ' سے بدل دیں۔ پڑھتے ہوئے یہ غلط محسوس ہوتا ہے)
 
Top