سید ذیشان
محفلین
بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ہوں
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ہے اب اپنی ہستی مٹا رہا ہوں
تیری ہی صورت کے دیکھنے کو بتوں کی تصویریں لا رہا ہوں
کہ خوبیاں سب کی جمع کر کے تیرا تصور جما رہا ہوں
کفن میں خود کو چھپا لیا ہے کہ تجھ کو پردے کی ہو نہ زحمت
نقاب اپنے لیے بنا کر حجاب تیرا اٹھا رہا ہوں
ادھر وہ گھر نکل پڑے ہیں ادھر میرا دم نکل رہا ہے
الٰہی کیسی ہے یہ قیامت وہ آ رہے ہیں میں جا رہا ہوں
محبت انسان کی ہے فطرت کہاں ہے امکان ترک الفت
وہ اور بھی یاد آ رہے ہیں میں ان کو جتنا بھلا رہا ہوں
زبان پہ لبیک ہر نفس میں جبیں پہ سجدہ ہے ہر قدم پہ
یوں جا رہا بت کدے کو ناطق کہ جیسے کعبے کو جا رہا ہوں