اب بحرِ طویل میں چائے کا وقفہ تو رکھنا پڑے گا.لیجئے صاحب بحرِ طویل نہ ہوئی محفل کا چائے خانہ ہو گیا ہادیہ بی بی آپ بھی اپنی تعارفی لڑی کی طرف میری رہنمائی فرمائیں ؛۔
چائے ہی کا کیوں کھانے کا وقفہ فراہم کیا جاتا ہے!اب بحرِ طویل میں چائے کا وقفہ تو رکھنا پڑے گا.
میرے تعارف میں بھی کچھ نہیں سر نیرنگ خیال کے تعارف کی طرحلیجئے صاحب بحرِ طویل نہ ہوئی محفل کا چائے خانہ ہو گیا ہادیہ بی بی آپ بھی اپنی تعارفی لڑی کی طرف میری رہنمائی فرمائیں ؛۔
پھر تو بھول کر بھی لنک نہ دیجئے گامیرے تعارف میں بھی کچھ نہیں سر نیرنگ خیال کے تعارف کی طرح
تقطیع تو درست ہے، کیا شعر بھی درست ہے؟واہ میاں، درست ہے تقطیع بس میں ہی ہمت نہیں کر پا رہا تھا
ہاتھ ہولا رکھو جی۔ جناب ہوراں نو پتا ہونا عوام پہلوں ای کافی تنگ مفتیاں توں وی تے فتویاں تو وی۔کیونکہ اس پر ایک منفی فتویٰ لگانے کی سوچ تھی
عملی جامہ پہنائیے سر کار اسی لئے اسے پیش کیا ہےکیونکہ اس پر ایک منفی فتویٰ لگانے کی سوچ تھی ابھی تک ذہن میں
دوست وہ ساغر کی غزل پر شعر ابھی تک مکمل نہیں ہوئےہاتھ ہولا رکھو جی۔ جناب ہوراں نو پتا ہونا عوام پہلوں ای کافی تنگ مفتیاں توں وی تے فتویاں تو وی۔
فی الحال ہماری توجہ مسجد کے سپیکر کی طرف ہے۔ کرتے ہیں کچھ اس کا بھی۔ ۔ ۔دوست وہ ساغر کی غزل پر شعر ابھی تک مکمل نہیں ہوئے
آپ اسے بحر طویل کا نام دیتے ہیں۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ چھوٹی بحر ہے جس کے محض دو رکن ہیں یعنی مستفعلن مستفعلن (معذرت، کہ میرا عروض کا علم ناقص ہے، پھر بھی ارکان کو کچھ کچھ سمجھتا ہوں) ۔۔۔ یعنی عشق عجب سنگ گراں ۔۔۔۔ الگ ہے ۔۔۔ اب نہ رہے تاب و تواں ۔۔۔ الگ ۔۔۔ و علیٰ ھٰذا القیاس ۔۔ آگے یہ ٹکڑوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے جنہیں ایک ہی لائن میں لکھ دیا گیااور بحر طویل کہہ دیا گیا۔ غور کیجئے تو ان ٹکڑوں میں بھی قافیہ پیمائی کا سلسلہ آخر تک جاری رہتا ہے۔عشق عجب سنگِ گراں اب نہ رہے تاب و تواں شیخ پئے راحتِ جاں حسن پہ ہر دم نگراں خوار ہیں سب حیلہ گراں کاملِ فن پیرِ مغاں سارا جہاں ریگِ تپاں فخرِ زمیں کوئے بتاں عشوہ گری تیغ و سناں توبہ شکن ہے یہ سماں آبلہ پا رقص کناں
آئے گئے کتنے یہاں ہم کو نہیں خوفِ زیاں نشۂ مے جائے اماں ہوش ہے اب ہم پہ گراں زمزمہ خواں جوئے رواں ایک ذرا آ تو سہی تا ہو عیاں رازِ نہاں کچھ تو بتا فیض رساں نکتہ وراں روحِ زماں یعنی کہیں کوئی نہیں صرف گماں صرف گماں
آپ نے نتیجہ اخذ کرنے میں اعجلت دکھائی سر پہلے ہی ہماری رائے خود اس نظم غزل شعر یا جو کچھ جو کچھ بھی اسے کہئے لے لیتے تو الجھن کا شکار نہ ہوتےآپ اسے بحر طویل کا نام دیتے ہیں۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ چھوٹی بحر ہے جس کے محض دو رکن ہیں یعنی مستفعلن مستفعلن (معذرت، کہ میرا عروض کا علم ناقص ہے، پھر بھی ارکان کو کچھ کچھ سمجھتا ہوں) ۔۔۔ یعنی عشق عجب سنگ گراں ۔۔۔۔ الگ ہے ۔۔۔ اب نہ رہے تاب و تواں ۔۔۔ الگ ۔۔۔ و علیٰ ھٰذا القیاس ۔۔ آگے یہ ٹکڑوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے جنہیں ایک ہی لائن میں لکھ دیا گیااور بحر طویل کہہ دیا گیا۔ غور کیجئے تو ان ٹکڑوں میں بھی قافیہ پیمائی کا سلسلہ آخر تک جاری رہتا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ مانوس بحروں میں اتنی لمبی بحر نہ ہوتی ہے، نہ بنائی جاتی ہے تو وہ ان قواعد کی بات ہے جو ہم نے کبھی پڑھے نہیں ، نہ ان پر کبھی توجہ دی۔ جو جی میں آیا لکھا ، اور جو آپ کے جی میں آیا، آپ نے لکھا، ہم پڑھ رہے ہیں، لیکن طوالت اس قدر ہوئی کہ آپ کے نزدیک چاہے یہ شعر ہو، ہمیں ایک مضمون دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، بجائے مضمون کے، اسے نظم کہہ لیا جائے تو حرج نہیں لیکن اس میں بھی ایک قباحت ہے۔۔۔ عنوان کیا ہے؟
رہی منفی فتوے کی با ت تو وہ صرف اتنا کہ ہم اسے شعر نہیں مانتے۔ لیکن اس کا جواب بھی ازخود سوجھا ہے اور وہ یہ کہ بندہ پرور! پہلے سمجھ تو لو شاعر نے کہا کیا ہے۔ اس کے بعد اسے سمجھانا کہ یہ شعر ہے یا نہیں ہے۔ نظم ہے، مضمون ہے یا کچھ اور ۔۔۔ پہلے یہ طے ہوجائے۔۔۔ پھر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔۔۔
ہاہاہا!! آپ کی حسِ ظرافت کمال ہے!!سائیکل اٹھا کر شعر پڑھنے نکل آیا۔ شعر ختم ہوا تو پتا چلا گھر سے دو کلومیٹر دور ہوں۔ اب روزے میں واپس کیسے جاؤں۔