ایم اے راجا

محفلین
کو ن پھر دل ر با ہو ا آخر
جان و دل کا خدا ہوا آخر

مینے دیکھا نہیں اسے جی بھر کے
اور وہ مجھ سے جدا ہوا آخر

کون پوچھے بھلا یہ لوگوں سے
کیوں یہ سر بے ردا ہوا آخر

کسکی آنکھوں کا سرمہ بکھرا ہے
کون غم کی صدا ہوا آخر

بات تو بات جیسی تھی لیکن
جانے کیوں وہ خفا ہوا آخر

درد ا تنا بڑھا ہے اب میرا
لفظ ہر اک دعا ہوا آخر

کون آیا ہے آج بستی میں
جس پہ ہر دل فدا ہوا آخر

لمس ہے کس کے ہاتھ کا باقی
درد مجھ سے جدا ہوا آخر

کون جانے گا شہر میں راجا
کون کس سے خفا ہوا آخر


استادِ محترم کافی اشعار میں آخر بھلا نہیں لگ رہا اور محل کے مطابق بھی نہیں نہ ہی معنیٰ کے مطابق، مزید ذرا غور فرمائیے گا۔ شکریہ۔
 

فاتح

لائبریرین
جی ہاں درست فرمایا کہ کافی اشعار میں "آخر" زبردستی ڈالا ہوا لگ رہا ہے۔ "صاحب" کیسا رہے گا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
میری کیا بساط اعجاز صاحب کہ زبان کھولوں خیر حکم حاکم۔۔۔۔۔۔۔ :)

'آخر' گو فاتح صاحب نے بجا کہا، کچھ اشعار میں زبردستی کا لگ رہا ہے لیکن 'یارو' تو سبھی اشعار میں زبردستی کی ردیف ہے :)

کم از کم آخر کے ساتھ مطلع بہت چمکا ہے!

کون پھر دل ربا ہوا آخر
جان و دل کا خدا ہوا آخر

اور یہ شعر بھی، اگر اس میں ایک سوالیہ نشان کا اضافہ کیا جائے

کس کی آنکھوں کا سرمہ بکھرا ہے
کون غم کی صدا ہوا آخر؟
 

راقم

محفلین
بہت شکریہ محترم وارث صاحب۔
میں نے بحر خفیف کا پورا مضمون ابھی کاپی کیا ہے۔ سیکھنے کی کوشش کروں گا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
راقم بھائی یہاں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے آپ انشاءاللہ جلد ہی ہو کچھ حاصر کر لیں گے جو آپ نہیں کر سکے اتنے عرصے میں
 
"دھیان " بروزن "اُڑان" درست نہیں۔
"دھیان" بروزن "دان" یا "نان" ہوتا ہے۔ ویسے آجکل نان ہی دھیان میں رہتا ہے۔
سودا نے ایک جگہ دھیان بروزن اڑان باندھا ہے۔ لیکن اسی دور میں خواجہ درد نے بروزن نان رکھا۔ بعدازاں یہی وزن رائج ہو گیا۔ مجھے یاد پّڑتا ہے کہ دونوں کی غزل کی زمین بھی ایک ہی تھی۔
ویسے دھیان سے پہلے یہ لگا دیں۔

غزل کی بحر ہے

فاعلاتن - مفاعلن - فعلن

جی مرزا رفیع سودا کا وہ کونسا شعر ہے جس میں دھیان کو بروزن اڑان باندھا گیا ہے۔
 
جی سر میں پھر حاضر ہو گیا ہوں ”آدمی آدمی سے ملتا ہے“ اس زمین میں کچھ حاضر ہے


اس قدر بے بسی سے ملتا ہے
وہ بہت کم کسی سے ملتا ہے

دل میں لازم ہے نور کا ہونا
راستہ روشنی سے ملتا ہے

اس کی دیکھی ہے میں نے جب صورت
وہ تو ہر آدمی سے ملتا ہے

اس میں تھی سادگی بہت پہلے
اب بھی وہ سادگی سے ملتا ہے

ہے تو پیاری بہت مگر خرم
غم بھی تو زندگی سے ملتا ہے
نہیں ملتا کبھی جو خرم سے
عالم اعظمی سے ملتا ہے
 
Top