ایم اے راجا
محفلین
اب غزل کی شکل کچھ یوں بنتی ہے،
اس طرف روشنی کا میلا تھا
اِس طرف دل بہت اکیلا تھا
جس کی آنکھوں میں آج پانی ہے
اس نے صحرا کا کرب جھیلا تھا
موت کا انتظار کرتا ہے/ اسکو یوں کہیں تو؟ آج کیوں منتظر ہے مرنے کا
کل تلک موت سے جو کھیلا تھا
میں نے ماضی نچوڑا تو جانا
آبِ غم سے یہ کتنا گیلا تھا
آنکھ سیراب کرنے کو خرم
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا
ُ
اس طرف روشنی کا میلا تھا
اِس طرف دل بہت اکیلا تھا
جس کی آنکھوں میں آج پانی ہے
اس نے صحرا کا کرب جھیلا تھا
موت کا انتظار کرتا ہے/ اسکو یوں کہیں تو؟ آج کیوں منتظر ہے مرنے کا
کل تلک موت سے جو کھیلا تھا
میں نے ماضی نچوڑا تو جانا
آبِ غم سے یہ کتنا گیلا تھا
آنکھ سیراب کرنے کو خرم
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا
ُ