بحر رمل مسدس محذوف۔ غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر رمل مسدس محذوف
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔

*******............********............********
ہر سِتم پر، چُپ ہیں میرے لَب مِیاں!
بے صَدا کی سُن رہا ہے رب مِیاں!

زندگی ہے، اِمتحاں دَر اِمتحاں
زاویہ در زاویہ، مکتَب مِیاں!

شمع سے منسُوب ہے، مانندِ آگ
ہاتھ پر رکھیں خَطائیں، سب مِیاں!

کچھ وَضاحت کی ترے الزام نے
سِی لئے کچھ ہم نے اپنے لَب مِیاں !

سب ہی تنہا ہیں اَنا کی راہ پر
ایک قِصّہ نا شُنیدہ، سَب مِیاں!

جِس زَمانے میں لِکھے جاتے تھے خَط
فاصلے اِتنے نہیں تھے تَب مِیاں!

گُھل گئیں اُس کے بدن کی خُوشبؤیں
جاں فَزا تھی وَصل کی ہر شَب مِیاں!

چادرِ تَنہائی خود پر کھینچ لو
یاد کا رَوشن ہے اک کَوکَب مِیاں!

عُمر بھر کی آشنائی کا نِچوڑ
جو کہا کاشف نے، سب بے ڈَھب مِیاں!

سیّد کاشف
*******............********............********

شکریہ
 

اکمل زیدی

محفلین
ہر سِتم پر، چُپ ہیں میرے لَب مِیاں!
بے صَدا کی سُن رہا ہے رب مِیاں!
بہت خوب
شمع سے منسُوب ہے، مانندِ آگ
ہاتھ پر رکھیں خَطائیں، سب مِیاں!
واھ کیا استعارہ ہے ..
سب ہی تنہا ہیں اَنا کی راہ پر
ایک قِصّہ نا شُنیدہ، سَب مِیاں!
سچ کہا ۔۔۔
جِس زَمانے میں لِکھے جاتے تھے خَط
فاصلے اِتنے نہیں تھے تَب مِیاں!
صحیح بات ہے ...اب فاصلے گھٹ گئے اور رابطے بڑھ گئے
گُھل گئیں اُس کے بدن کی خُوشبؤیں
جاں فَزا تھی وَصل کی ہر شَب مِیاں!

چادرِ تَنہائی خود پر کھینچ لو
یاد کا رَوشن ہے اک کَوکَب مِیاں!

عُمر بھر کی آشنائی کا نِچوڑ
جو کہا کاشف نے، سب بے ڈَھب مِیاں!
بہت سی داد ۔۔۔۔

زندگی ہے، اِمتحاں دَر اِمتحاں
زاویہ در زاویہ، مکتَب مِیاں!
خوب نبھایا
 

الف عین

لائبریرین
چادرِ تنہائیاچھی غزل ہے میاں، اب اس کا پوسٹ مارٹم مجھ سے سنو، خیر یہ تو محض مذاق ہے۔ ورنہ بہت کم ہی گنجائش ہے اصلاح کی۔

ہر سِتم پر، چُپ ہیں میرے لَب مِیاں!
بے صَدا کی سُن رہا ہے رب مِیاں!
÷÷ درست تو ہے۔ لیکن ’رب میاں‘ ایسے لگا جیسے اللہ میاں کہنا چاہا تھا!!

زندگی ہے، اِمتحاں دَر اِمتحاں
زاویہ در زاویہ، مکتَب مِیاں!
۔۔واہ واہ

شمع سے منسُوب ہے، مانندِ آگ
ہاتھ پر رکھیں خَطائیں، سب مِیاں!
۔۔مانندَ آگ کی ترکیب غلط ہے۔ شمع سے منسوب کیا چیز ہے؟ یہ بھی واضح نہیں۔ قیاس استعمال کرنا پڑتا ہے۔

کچھ وَضاحت کی ترے الزام نے
سِی لئے کچھ ہم نے اپنے لَب مِیاں !
۔۔واہ

سب ہی تنہا ہیں اَنا کی راہ پر
ایک قِصّہ نا شُنیدہ، سَب مِیاں!
÷÷قافیہ کا استعمال درست نہیں لگتا۔’سب‘ تو پچھلے مصرع میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اور یہاں ’ایک قصہ‘ سے منسوب ہو تو سب‘ غلط ہے۔

جِس زَمانے میں لِکھے جاتے تھے خَط
فاصلے اِتنے نہیں تھے تَب مِیاں!
۔۔بہت خوب
ِ

گُھل گئیں اُس کے بدن کی خُوشبؤیں
جاں فَزا تھی وَصل کی ہر شَب مِیاں!
÷÷درست، اگرچہ یہ وضاحت ہوتی تو بہتر تھا کہ خوشبوئیں کس شے میں گھل گئیں!

چادرِ تَنہائی خود پر کھینچ لو
یاد کا رَوشن ہے اک کَوکَب مِیاں!
۔ ۔چادرِ تنہائی؟ ’مانندِ آگ‘ کی طرح ہی ہے۔ ’کوکب‘ کا استعمال درست تو ہے، اگرچہ یہ لفظ واحد استعمال نہیں کیا جاتا، تراکیب میں ہی آتا ہے۔

عُمر بھر کی آشنائی کا نِچوڑ
جو کہا کاشف نے، سب بے ڈَھب مِیاں!
۔۔کچھ دو لختی کا احساس ہوتا ہے۔
 
شمع سے منسُوب ہے، مانندِ آگ
ہاتھ پر رکھیں خَطائیں، سب مِیاں!
۔۔مانندَ آگ کی ترکیب غلط ہے۔ شمع سے منسوب کیا چیز ہے؟ یہ بھی واضح نہیں۔ قیاس استعمال کرنا پڑتا ہے۔
استاد محترم یہ کیسا رہے گا؟
شمع سے منسوب ہے یہ رسم، اب
ہاتھ پر رکھیں خطائیں سب، میاں !
سب ہی تنہا ہیں اَنا کی راہ پر
ایک قِصّہ نا شُنیدہ، سَب مِیاں!
÷÷قافیہ کا استعمال درست نہیں لگتا۔’سب‘ تو پچھلے مصرع میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اور یہاں ’ایک قصہ‘ سے منسوب ہو تو سب‘ غلط ہے۔
میں نہیں تنہا ، انا کی راہ پر
ایک قِصّہ نا شُنیدہ، سب میاں !
استاد محترم لفظ "سب" انا کی راہ پر چلنے والوں کے لئے ہے۔ قِصے کی بابت نہیں۔
چادرِ تَنہائی خود پر کھینچ لو
یاد کا رَوشن ہے اک کَوکَب مِیاں!
۔ ۔چادرِ تنہائی؟ ’مانندِ آگ‘ کی طرح ہی ہے۔ ’کوکب‘ کا استعمال درست تو ہے، اگرچہ یہ لفظ واحد استعمال نہیں کیا جاتا، تراکیب میں ہی آتا ہے۔
ابھی کچھ بہتر شکل سمجھ میں نہیں آ رہی۔ بعد میں درست کرتا ہوں۔ ان شا اللہ
عُمر بھر کی آشنائی کا نِچوڑ
جو کہا کاشف نے، سب بے ڈَھب مِیاں!
۔۔کچھ دو لختی کا احساس ہوتا ہے۔
عمر بھر کے دوست یہ کہنے لگے
جو کہا کاشف نے، سب بے ڈھب میاں !

استاد محترم آپ کی دی گئی اصلاح کا منتطر رہونگا۔
جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
اقتباس میں ہی میری رائے شامل ہے
استاد محترم یہ کیسا رہے گا؟
شمع سے منسوب ہے یہ رسم، اب
ہاتھ پر رکھیں خطائیں سب، میاں !

۔۔یہ اب درست ہو گیا ہے


میں نہیں تنہا ، انا کی راہ پر
ایک قِصّہ نا شُنیدہ، سب میاں !
استاد محترم لفظ "سب" انا کی راہ پر چلنے والوں کے لئے ہے۔ قِصے کی بابت نہیں۔

۔۔نہیں بات نہیں بنی، اگر یوں ہے تو نا شنیدہ قصہ کیا کر رہا ہے یہاں؟

ابھی کچھ بہتر شکل سمجھ میں نہیں آ رہی۔ بعد میں درست کرتا ہوں۔ ان شا اللہ

عمر بھر کے دوست یہ کہنے لگے
جو کہا کاشف نے، سب بے ڈھب میاں !
÷درست، اگرچہ ’عمر بھر‘ کی جگہ کچھ اور صفت بہتر ہوگی

استاد محترم آپ کی دی گئی اصلاح کا منتطر رہونگا۔
جزاک اللہ
 
زندگی ہے، اِمتحاں دَر اِمتحاں
زاویہ در زاویہ، مکتَب مِیاں!

کچھ وَضاحت کی ترے الزام نے
سِی لئے کچھ ہم نے اپنے لَب مِیاں !

جِس زَمانے میں لِکھے جاتے تھے خَط
فاصلے اِتنے نہیں تھے تَب مِیاں!


لاجواب اشعار ہیں۔ :)
 
زندگی ہے، اِمتحاں دَر اِمتحاں
زاویہ در زاویہ، مکتَب مِیاں!

کچھ وَضاحت کی ترے الزام نے
سِی لئے کچھ ہم نے اپنے لَب مِیاں !

جِس زَمانے میں لِکھے جاتے تھے خَط
فاصلے اِتنے نہیں تھے تَب مِیاں!


لاجواب اشعار ہیں۔ :)
جزاک اللہ استاد محترم۔:)
 
Top