کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر رمل مسدس محذوف
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
ہر سِتم پر، چُپ ہیں میرے لَب مِیاں!
بے صَدا کی سُن رہا ہے رب مِیاں!
زندگی ہے، اِمتحاں دَر اِمتحاں
زاویہ در زاویہ، مکتَب مِیاں!
شمع سے منسُوب ہے، مانندِ آگ
ہاتھ پر رکھیں خَطائیں، سب مِیاں!
کچھ وَضاحت کی ترے الزام نے
سِی لئے کچھ ہم نے اپنے لَب مِیاں !
سب ہی تنہا ہیں اَنا کی راہ پر
ایک قِصّہ نا شُنیدہ، سَب مِیاں!
جِس زَمانے میں لِکھے جاتے تھے خَط
فاصلے اِتنے نہیں تھے تَب مِیاں!
گُھل گئیں اُس کے بدن کی خُوشبؤیں
جاں فَزا تھی وَصل کی ہر شَب مِیاں!
چادرِ تَنہائی خود پر کھینچ لو
یاد کا رَوشن ہے اک کَوکَب مِیاں!
عُمر بھر کی آشنائی کا نِچوڑ
جو کہا کاشف نے، سب بے ڈَھب مِیاں!
سیّد کاشف
*******............********............********
شکریہ
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر رمل مسدس محذوف
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
ہر سِتم پر، چُپ ہیں میرے لَب مِیاں!
بے صَدا کی سُن رہا ہے رب مِیاں!
زندگی ہے، اِمتحاں دَر اِمتحاں
زاویہ در زاویہ، مکتَب مِیاں!
شمع سے منسُوب ہے، مانندِ آگ
ہاتھ پر رکھیں خَطائیں، سب مِیاں!
کچھ وَضاحت کی ترے الزام نے
سِی لئے کچھ ہم نے اپنے لَب مِیاں !
سب ہی تنہا ہیں اَنا کی راہ پر
ایک قِصّہ نا شُنیدہ، سَب مِیاں!
جِس زَمانے میں لِکھے جاتے تھے خَط
فاصلے اِتنے نہیں تھے تَب مِیاں!
گُھل گئیں اُس کے بدن کی خُوشبؤیں
جاں فَزا تھی وَصل کی ہر شَب مِیاں!
چادرِ تَنہائی خود پر کھینچ لو
یاد کا رَوشن ہے اک کَوکَب مِیاں!
عُمر بھر کی آشنائی کا نِچوڑ
جو کہا کاشف نے، سب بے ڈَھب مِیاں!
سیّد کاشف
*******............********............********
شکریہ