بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔۔۔ غزل اصلاح کے لئے

مری ایک اور تازہ غزل اصلاح کے لئے حاضر ہے
بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف لی ہے یعنی وزن ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
اساتذہ سے اصلاح، رہنمائی اور ضعف بیان کی نشاندہی کی درخواست ہے ...
-------------------------------------
نقش ِ کف ِ پا دیکھ کے حیران ہوا ہے
صحرا ہے کہ گھر جیسا بیابان ہوا ہے

جانے وہ خطا کیا تھی سزا جس کی ملی ہے
تا عمر جدائی ہو یہ فرمان ہوا ہے

دہشت سی عجب پھیلی ہے اس شہر میں دیکھو
سب مہر بہ لب ہی رہیں اعلان ہوا ہے

عورت کو تو شاعر بھی نہ سمجھا کوئی، لیکن
تیار اسی ضمن میں دیوان ہوا ہے

ہے موڑ جدائی کا مگر دل کو لگے یوں
کچھ تازہ رفاقت کا بھی امکان ہوا ہے

اس دشت میں دل والوں قدم سوچ کے رکھنا
قربانی یہاں دینی ہے اعلان ہوا ہے

فرعون تو موجود تھا ہر دور میں لیکن
موسیٰ سے تہی اب کے مسلمان ہوا ہے

تیرا یہ تبسم تو چھپایے نہیں چھپتا
کیا ان سے ملاقات کا پیمان ہوا ہے ؟

تصویر تری سب سے چھپا ہم نے رکھی ہے
دل ہے کہ تری یاد کا جزدان ہوا ہے

اب دل کا یہ اسرار سمجھ آیا ہے کاشف
اک عمر میں جا کر ہمیں عرفان ہوا ہے


شکریہ ....
 

الف عین

لائبریرین
واہ۔ غزل درست ہے یعنی اکثر اشعار
فرمان ہوتا نہیں، ملتا ہے۔

دہشت سی عجب پھیلی ہے اس شہر میں دیکھو
سب مہر بہ لب ہی رہیں اعلان ہوا ہے
۔۔”بہ لب ہی ‘ رواں فقرہ نہیں۔ ہوسکے تو بدل دو۔

عورت کو تو شاعر بھی نہ سمجھا کوئی، لیکن
تیار اسی ضمن میں دیوان ہوا ہے
مفہوم؟؟
؎
ہے موڑ جدائی کا مگر دل کو لگے یوں
کچھ تازہ رفاقت کا بھی امکان ہوا ہے
÷÷پہلا مصرع یوں رواں ہو گا
ہے موڑ جدائی کا پہ یوں دل کو لگے ہے

اس دشت میں دل والوں قدم سوچ کے رکھنا
قربانی یہاں دینی ہے اعلان ہوا ہے
÷÷’دل والو‘ کا مقام ہے، والوں‘ کا نہیں۔

فرعون تو موجود تھا ہر دور میں لیکن
موسیٰ سے تہی اب کے مسلمان ہوا ہے
مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکا
 
جناب محترم الف عین صاحب ....
تصحیح کے ساتھ حاضر ہوا ہوں ... آپ کی پر شفقت توجہ کا طالب ہوں ...

نقش ِ کف ِ پا، دیکھ کے حیران ہوا ہے
صحرا ہے، کہ گھر جیسا بیابان ہوا ہے

جانے وہ خطا کیا تھی سزا جس کی ملی ہے
"اور ایسے ملی جیسے کہ احسان ہوا ہے"

دہشت سی عجب پھیلی ہے اس شہر میں دیکھو
سب مہر بہ لب ہی رہیں اعلان ہوا ہے
یہاں "مہر بہ لب ہی.." کا متبادل ابھی تک نہیں مل پایا ....

عورت کو تو شاعر بھی نہ سمجھا کوئی، لیکن
تیار اسی ضمن میں دیوان ہوا ہے
یہ شعر اب غزل سے خارج کرتے ہیں ...

"ہے موڑ جدائی کا پہ یوں دل کو لگے ہے"
کچھ تازہ رفاقت کا بھی امکان ہوا ہے

اس دشت میں "دل والو" قدم سوچ کے رکھنا
قربانی یہاں دینی ہے اعلان ہوا ہے

فرعون تو موجود تھا ہر دور میں لیکن
موسیٰ سے تہی اب کے مسلمان ہوا ہے
یہ شعر بھی غزل سے خارج کر رہا ہوں ...

تیرا یہ تبسم تو چھپایے نہیں چھپتا
کیا ان سے ملاقات کا پیمان ہوا ہے ؟

تصویر تری سب سے چھپا ہم نے رکھی ہے
دل ہے کہ تری یاد کا جزدان ہوا ہے

اب دل کا یہ اسرار سمجھ آیا ہے کاشف
اک عمر میں جا کر ہمیں عرفان ہوا ہے

ایک نیا شعر موزوں کیا ہے ...
کل رات کو یادوں کی بڑی خاک اڑی ہے
فرقت سے تری رات کو گھمسان ہوا ہے


آپ کے مشوروں اور رہنمائی کا منتظر ہوں ...
شکریہ ...
 
آخری تدوین:
Top