پہلی شکل "مثالِ دودِ بے آواز جو دل سے نکلتا ہے" میں لفظ "جو" کچھ تشنگی سی چھوڑ جاتا ہے۔ اگر یوں کر دیں "مثالِ دودِ بے آواز ہے، دل سے نکلتا ہے" تب؟
دوسری شکل "تڑپتے دل کی حسرت کو بیاں کرتا نکلتا ہے" کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے جناب ؟
بہت بہتر جناب۔یہاں اپنی ترجیحات سے کام لیجئے۔ یہ سارے بہت قریب قریب ہیں۔
جناب:زمانے، خاک اب کر دے مرا گلشن، کہ میں چاہوں
نیا باغِ تمنّا ہو، یہ موسم گر بدلتا ہے
یہ شعر غالباً نیا شامل کیا گیا ہے۔ یہاں اب شاید پاسنگ ڈالا ہے؟ مجھے ڈر ہے زمانہ میرے گلشن کو مٹادے گا۔ دوسرے مصرعے کو بھی اس کے مطابق کسی موزوں انداز میں باندھ لیں۔
سچی بات کہوں؟ باغِ تمنا کے ساتھ اگر وغیرہ کی بات نہیں جچتی۔ اور جیسا میں نے عرض کیا تھا، لفظ کی جگہ لفظ بٹھانے سے عروضی تقاضا تو پورا ہو جائے گا، شعر کے دیگر تقاضے شاید ویسے پورے نہ ہو سکیں۔تمنائیں تو موسم سے آزاد ہوتی ہیں!جناب:
زمانہ خاک بھی کر دے اگر گلشن ، لگا لیں گے
نیا باغِ تمنّا اک ، اگر موسم بدلتا ہے
کیا اب کچھ بہتر صورت ہوئی؟
جناب:
زمانہ خاک بھی کر دے اگر گلشن ، لگا لیں گے
نیا باغِ تمنّا اک ، اگر موسم بدلتا ہے
کیا اب کچھ بہتر صورت ہوئی؟
استاد محترم جناب الف عین صاحبعزیزی کاشف اسرار احمد اب فائنل سورت ایک بار پوسٹ کر دیں تاکہ میں بھی کچھ زبردستی آسی بھائی کے ارشاد کی تعمیل کر سکوں
یہاں ابھی کچھ بہترسمجھ نہیں آیا۔کبھی بےکیف تھے لمحے ، سماں اب سر میں ڈھلتا ہے
۔۔سماں کا سُر میں ڈھلنا۔۔۔ کچھ عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔
وہ میرا اشکِ خوں، بہتا وہ تیرے پیار کا موتیوہ میرا اشکِ خوں، یعنی وہ تیرے پیار کا موتی
÷÷یعنی‘ سے بات بگڑ رہی ہے۔ اس کے بغیر کوشش کریں۔
نئے گل مسکراتے ہیں مرے باغ تمنا میںتصور میں بھی جو چھپ کے، تو میرے ساتھ چلتا ہے
الفاقظ کی نشست بدلیں تو شاید زیادہ چست مصرع وجود میں آئے۔
تصور میں بھی وہ چھپ کر مرے ہمراہ چلتا ہے
ایک صورت ہو سکتی ہے۔
کئی انداز سے سوچا ، کئی آہنگ میں پرکھا
وہ اک امکان کاشف، دل میں رہتا ہے نہ ڈھلتا ہے
۔۔آہنگ میں پرکھا؟؟؟
رہتا ہے نہ ڈھلتا ہے، دونوں افعال میں تضاد ہو تو بہتر ہے۔ مثلاً ابھرنا، ڈھلنا
اس سے تو ‘یعنی‘ ہی بہتر ہو گا۔وہ میرا اشکِ خوں، بہتا وہ تیرے پیار کا موتی
مثالِ دودِ بے آواز ہے، دل سے نکلتا ہے
آہنگ کا ’گ‘ تقطیع میں نہیں آ رہا ہے۔ اس سے تو یوں بہتر ہو گاکئی انداز سے سوچا ، سمویا کتنے آہنگ میں
مکیں جو دل میں ہے کاشف ، ابھرتا ہے نہ ڈھلتا ہے
اس سے تو ‘یعنی‘ ہی بہتر ہو گا۔
آہنگ کا ’گ‘ تقطیع میں نہیں آ رہا ہے۔ اس سے تو یوں بہتر ہو گا
کسی انداز سے سوچو، کسی آہنگ میں پرکھو