اپنے عنوان کے لحاظ سے اس پوسٹ کو سیرت سرور کائنات میں ہونا چاہیے ، مگر چونکہ مذکور باتیں فاروق سرور خاں صاحب کے جاری مذاکرہ کا حصہ ہیں ، پس اس فریق کے نزدیک یہ باتیں تاریخ تو یقینا ہے ۔
یہ باتیں " اسلام کو نہیں ، مسلمانوں کو درپیش چیلنج " میں ایک ضمنی بحث میں آگئیں ، مگر چونکہ معلومات اس عنوان سے الگ اور مستقل حیثیت ہیں اس لیے یہاں نقل کرتا ہوں ، اور مزید معلومات بھی اسی پر پیش کر دوں گا۔
پہلے فاروق صاحب کا وہ پورا اقتباس جو میرے ان جوابات کی بنیاد ہے
یہ سراسر غلط ہے ، اصل نسخہ ہونا ضروری نہیں ، نہ دنیا میں موجود تمام کتابوں کے اصل مسودات موجود ہیں ۔
اور رہی بات ایمان کی ، تو جناب وہ نسخہ قران ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کروایا تھا ، کس کے پاس ہے ؟ حضرت عثمان کا نسخہ آپ کو ملے گا، وہ حضرت عثمان کے دور میں جمع ہوا تھا ۔
میرے خیال سے یا تو یہ اعتراض بہت سطحی ہے یا پھر حدیث سے اپنے جہالت اور بلکہ دلی کدورت اور بعد کی وجہ سے آپ کو اس میں وزن معلوم ہوتا ہے ۔
قران میں ہے
ولا یجمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا
یعنی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پاءے ۔
ا
میں نے پہلے آپ سے پوچھا تھا کہ نماز کا حکم قرآن میں ہے ، مگر اس کی رکعات کی تفصیل ، اوقات کی تفصیل ابتدا اور انتہائی وضاحت کے ساتھ ، طریقہ نماز وغیرہ باتیں قرآن میں نہیں ، اگر قرآن کے حکم صلوۃ پر ایمان ہے تو اس پر عمل کیسے ہوگا ؟ ان احادیث پر ایمان ضروری ہے جن میں حکم صلوۃ پر عمل کر نے کا طریقہ ہے ، یہی بات زکوۃ ، حج ، وغیرہ کے بارے میں ہے ، چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے ، قران میں " ید " کا لفظ ہے ، معنی ہے ہے " ہاتھ " کیا پورا ہاتھ بغل سے کاٹ دیا جائے ؟
قرآن میں زنا سے منع کیا ہے ، اس کی سزا ہے ، مگر جرم زنا کے ثبوت اور اور سزا کے اجرائ کا طریقہ کیا ہوگا ؟
قران میں ہے احل اللہ البیع و حرم الربو ، بیع اور ربا کو فرق کہاں سے معلوم ہوگا ؟ قرآن میں ہی کفار کا یہ قول ہے کہ " انما البیع مثل الربو " یعنی بیع کی ربا کی طرح حلال چیز ہے، ( کفار بیع کو ربا کی طرح درست کہتے تھے، نہ کہ ربا کو بیع کی طرح )
ایسے سینکروں مسائل ہے ، جو قران سے فرائض ہیں اور بدون احادیث ان پر عمل کرنا ممکن نہیں، اور قرآن پر ایمان کا مطلب یہ تو ہرگز آپ کے نزدیک نہ ہوگا کہ بس مان کہ نماز کا حکم ہے ۔ قرآن پر ایمان ہو گیا ۔ پڑھنے سے کوئی سروکار نہیں ۔
میں نے لنک دیکھا ، میری انگریزی کمزور ہے ، سائٹ والوں سے ، اور مضمون نگار مفتی ابراہیم دیسائی سے واقف ہوں ، اس پر بکاری شریف کے بارے میں بالکل ابتدائی معلومات فراہم ہے ، میں تو کتب روایات پر تابڑتوڑ آپ کے حملوں کی وجہ سے سمجھتا تھا کہ آپ کو اس سے کہیں زیادہ بخاری کے بارے میں معلوم ہوگا ، خیر بتا دوں کہ " الجامع الصحیح للامام بخاری " ان کی مستقل تصنیف ہے ، متعدد کتابوں سے مرتب نہیں دی گئی ، امام بخاری کی اور بھی تصانیف ہے ، مثلا الادب المفرد، جز رفع یدین ، وغیرہ ۔ ہو سکتا ہے کہیں یہ لکھا ہو کہ یہ کتاب انہوں نے اتنے اجزاء پر مرتب کی تھی ،
پہلے زمانہ میں اور اج بھی یہ ہوتا تھا کہ مصنفین اپنے مسودہ کو مختلف اجزاء میں تقسیم کر لیتے ہیں ، تا کہ پورا مسودہ ہر جگہ لے کر پھرنا نہ پڑے ، ( بخاری نارمل سائز کے جدید کمیوٹر ٹائب کے بھی دو تین ہزار صفحات کی کتاب ہو سکتی ہے ، ) پس ان اجزاء کو کسی نے مختلف کتابیں قرار دے دی ۔
باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقول الله جل ذكره { إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده }
[ 1 ] حدثنا الحميدي عبد الله بن الزبير قال حدثنا سفيان قال حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري قال أخبرني محمد بن إبراهيم التيمي أنه سمع علقمة بن وقاص الليثي يقول سمعت عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنه على المنبر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
اول اس میں عنوان ہے اور پھر حدیث پوری سند کے ساتھ ہے ۔
کبھی امام بخاری عنوان کے ساتھ کوئی قول رسول ذکر کرتے ہیں مگر اس کی سند بیان نہیں کرتے ۔ جیسے اس باب کو دیکھیں
باب المعاصي من أمر الجاهلية ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك لقول النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرؤ فيك جاهلية وقول الله تعالى { إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء }
[ 30 ] حدثنا سليمان بن حرب قال حدثنا شعبة عن واصل الأحدب عن المعرور قال لقيت أبا ذر بالربذة وعليه حلة وعلى غلامه حلة فسألته عن ذلك فقال إني ساببت رجلا فعيرته بأمه فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم يا أبا ذر أعيرته بأمه إنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم خولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
اس میں اولا باب کا عنوان ہے اور اس کے ساتھ حدیث النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرؤ فيك جاهلية نقل کی ہے مگر سند نہیں ، البتہ اس کے بعد 30 نمبر کی حدیث پوری سند کے ساتھ ہے ۔
محققین ایسی احادیث کو جو باب کے تحت بلا سند ہے ، ان کو تعلیقات کہتے ہیں ، ایسی تعلیقات بعض ضعیف اور منکر ہیں ۔ مگر اس کی نشاندہی مکمل طور پر کر دی گئی ہے ۔
اور میں گذارش کروں گا کہ پہلے حسن ضعیف ، اور منکر کی تعریف بھی دیکھ لیں ۔
صحیح لذاتہ
جس کے تمام راوی "عادل " "تام الضبط " ہوں ، اس کی سند " متصل " ہو ، اور وہ " معلل " و" شاذ " نہ ہو ۔ ( عادل ، تام الضبطم متصل ، معلل اور شاذ پانچوں اصطلاحیں ہیں )
حسن لذاتہ
وہ حدیث جس کا کوءی راوی خفیف الضبط ہو ، البتہ صحیح لذاتہ باقی چار شرطیں اس میں موجود ہوں۔
ضعیف
یہ ایک عام اصطلاح ہیں ،
یعنی اس کے ضمن الگ الگ قسمیں شراءط کے اعتبار سے شامل ہوں گی پھر بھی اس کی وضاحت یہ ہے کہ
وہ حدیث ہے جس میں صحیح اور حسن کی شرطوں میں سے کوءی ایک یا سبھی شرطیں نہ پاءی جاءیں ۔منکر
ضعیف راوی کی وہ روایت جو ثقہ کی روایت کے خلاف ہو
یہ باتیں " اسلام کو نہیں ، مسلمانوں کو درپیش چیلنج " میں ایک ضمنی بحث میں آگئیں ، مگر چونکہ معلومات اس عنوان سے الگ اور مستقل حیثیت ہیں اس لیے یہاں نقل کرتا ہوں ، اور مزید معلومات بھی اسی پر پیش کر دوں گا۔
پہلے فاروق صاحب کا وہ پورا اقتباس جو میرے ان جوابات کی بنیاد ہے
فرید احمد صاحب - شکریہ، مفید معلومات کا اور مفید خیالات کا۔ اس مضمون کا لہجہ نرم ہے اور آپ کے بیان سے جو سوالات جنم لیتے ہیں درج کئے ہیں۔
میرا بیان:
1۔میری ذاتی ریسرچ کے مطابق اصل کتاب بخاری کا سراغنہیں ملتا، لہذا اصل کتاب کی غیر موجودگی میں امام بخاری کسی بھی الزام سے مبراء ہے۔
2۔ صحیح بکاری کی طرح، بیشتر کتب روایات، کئی کتب سے مل کر وجود میں آئی ہیں۔ یہ علم واعلام پر ضرور مبنی ہیں لیکن کسی بھی تصنیف میں یہ روایات رسول اللہ کے اقوال کے مطابق قرآن کی روشنی میں پرکھے جانے ضروری ہیں۔
3۔ یہ کتب روایات مسلم ایمان کا حصہ نہیں، جیسا کہ کچھ حضرات مصر ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرقہ ہے تو اس کا ایمان اس کے لئے۔
اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
یہ صحیح بخاری کی شرحیں ہیں ، متن نہیں ۔۔۔۔۔
ان کی شناخت کے لیے ایک مستقل فن "اسمائ الرجال " کا ہے ، اس میں ہر ایک پیدائش ، وفات ، دینی حالت ، عقائد ، تعلیم و تعلم ، شیوخ و تلامذہ کی تفصیل ، مختصرا یا مفصلا ، درج ہے ۔
اس انفارمیشن پر شکریہ۔کیا آپ نے فراہم کیا ہوا لنک بھی دیکھا ؟ کیا اس لنک پر فراہم کی ہوئی معلومات درست ہیں؟ یہ لوگ کتب حدیث نیٹ پر بیچتے ہیں۔ اور سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔
میں خاص طور پر ان لوگوں کے اس بیان کی تصدیق کسی شخص سے چاہتا ہوں جو وثوق کے ساتھ یہ بتا سکیں کہ امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے مل کر بنائی گئی؟
مزید یہ کہ کیا ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟
صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث
جیسا کہ اس اسٹور کا دعوی ہے؟
اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
اس طرح یہ انہی حضرات کی روایت ۔۔۔۔ اگر کسی نے بخاری میں غلط طریقہ سے لکھی ہے تو دوسری کتابوں میں اس راوی کی حدیث سے صحیح الفاظ متعین ہو جاتے ہیں ۔
بہت شکریہ اس انفارمیشن کا۔
اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
یہ اعتراض بالکل بے معنی اور بے وزن ہے کہ کتب احادیث 250 سال بعد لکھی گئی ہیں ،
اس لیے کہ ان مرتب کرنے والوں نے جن احادیث لی ہیں ، انہوں نے ان کئے حافظہ کی بنیاد پر لی ہیں ، ان حضرات نے اپنی راوی در راوی حافظہ سے محفوظ کی ہوئی روایات جمع کی ہیں ،
بہت شکریہ۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟
اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو کسی کے حافظہ سے بیان کی ہوئی باتوں پر اعتماد ہے یا نہیں ؟
لگتا ہے آپ کے نزدیک حافظہ کا کوئی اعتبار ہی نہیں ۔
آخر کار فن اسماء الرجال ، کتب حدیث کی شرحیں ، اس پر طول طویل بحثیں اسی لیے لیں کہ حدیث کے نام پر کوئی دوسری خلاف اسلام بات در نہ آئے ۔۔
مجھے حافظے سے بتائی باتوں کے بتانے والے پر اعتماد نہیں۔ اس کی وجہ؟
1۔ سنی سنائی بات کی گواہی کی اہمیت قران سے ثابت نہیں۔
2۔ یہ سلسلہ اگر امام بخاری کی کتاب کی تصنیف کے بعد منقطع ہوا تو وہ 'اصل بخاری' کہاں ہے؟
3۔کسی کتب روایات کے حفظ کرنے کے اور اس عمل کے جاری رہنے کی روایت نہیں ملتی اور آج بھی یہ سلسہ موجود نہیں ہے۔
4۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔
اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
اس سے قبل ایک پوسٹ میں آپ نے ایک آیت کے ضمن میں کچھ حسابات درج کیے تھے ، کیوں پیش کیے ؟ کیا وہ قرآن کی طرح لازم ایمان ہیں ؟ اس کے بغیر قران فہمی ممکن نہیں ؟ اس کی حیثیت کیا ہے ؟ اس میں کوئی غلطی کا امکان ہے یا نہیں ؟
گو کہ یہ سوال کچھ مبہم ہے، وضاحت فرمائیے تو بہتر ہوگا۔ پوسٹ کا لنک فراہم کردیجئے۔
اگر آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ انسانوںسے غلطی کا احتمال ہے تو آپ نے بالکل درست بات کی طرف اشارہ کیا کہ انسانوں کی تصنیف شدہ کوئی بات، کوئی کتاب، مسمان ایمان کا باعث نہیں۔
اپ کی پوسٹ سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، یہ سوالات آپ کی آسانی کے لئے یکجا کردئے ہیں تاکہ آپ کو جواب دینے میںآسانی رہے۔ اور اس ہم، آپ کے علم سے مستفید ہو سکیں:
1۔ کیا امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ صحیح بخاری، امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے ملا کر بنائی گئی ہے؟
2۔ کیا اس اسٹور کا دعوی درست ہے کہ ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟ صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث ؟
3۔ کیا یہ کتب روایات، ہمارے ایمان کا حصہ ہیں یا انسانی علم و اعلام ہیں؟
4۔ اگر یہ کتب روایات ہمارے ایمان کا حصہ ہیں تو ان کو ہمارے ایمان کا حصہ کس نے بنایا؟ یہ حوالہ درکار ہے۔
5۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟
6۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے یا منسوخ شدہ ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔
اقتباس:
1۔ 1میری ذاتی ریسرچ کے مطابق اصل کتاب بخاری کا سراغنہیں ملتا، لہذا اصل کتاب کی غیر موجودگی میں امام بخاری کسی بھی الزام سے مبراء ہے۔
یہ سراسر غلط ہے ، اصل نسخہ ہونا ضروری نہیں ، نہ دنیا میں موجود تمام کتابوں کے اصل مسودات موجود ہیں ۔
اور رہی بات ایمان کی ، تو جناب وہ نسخہ قران ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کروایا تھا ، کس کے پاس ہے ؟ حضرت عثمان کا نسخہ آپ کو ملے گا، وہ حضرت عثمان کے دور میں جمع ہوا تھا ۔
میرے خیال سے یا تو یہ اعتراض بہت سطحی ہے یا پھر حدیث سے اپنے جہالت اور بلکہ دلی کدورت اور بعد کی وجہ سے آپ کو اس میں وزن معلوم ہوتا ہے ۔
قران میں ہے
ولا یجمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا
یعنی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پاءے ۔
ا
یہ کتابیں مختلف کتابوں سے نہیں بلکہ محدثین کی بیان کردہ احادیث کو جمع کرنے سے وجود میں آئی ہیں ، اور محدثین حدیثوں سند کے ساتھ کو اسی طرح بلفظہ یاد کرتے تھے ، جس طرح قران یاد کرتھے اور کرتے ہیں ، اج کتابوں میں سب کچھ ضبظ ہو جانے کے باوجود بھی بھی کسی اچھے مدرسے میں استاد حدیث کو جا کر سن لیں ، یا حرمین میں بعض معتبر اساتذہ حدیث کا درس دیتے ہیں ، ان کے درس حدیث میں شریک ہو لیں ، صفحات کے صفحات احادیث کے پڑھ سناتے ہیں ، اور وہ بھی اس وضاحت کے ساتھ اس حدیث کو فلاں نے فلاں نے ، اس نے فلاں سے تا آخر اور پھر ان میں ہر ایک راوی کے احوال اور سند کے اعتبار سے اس کی حالت کو بھی ۔ ہند و پاک میں بھی بحمد اللہ ایسے افراد موجود ہیں ۔قتباس:
2۔ صحیح بکاری کی طرح، بیشتر کتب روایات، کئی کتب سے مل کر وجود میں آئی ہیں۔ یہ علم واعلام پر ضرور مبنی ہیں لیکن کسی بھی تصنیف میں یہ روایات رسول اللہ کے اقوال کے مطابق قرآن کی روشنی میں پرکھے جانے ضروری ہیں۔
اقتباس:
3۔ یہ کتب روایات مسلم ایمان کا حصہ نہیں، جیسا کہ کچھ حضرات مصر ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرقہ ہے تو اس کا ایمان اس کے لئے۔
میں نے پہلے آپ سے پوچھا تھا کہ نماز کا حکم قرآن میں ہے ، مگر اس کی رکعات کی تفصیل ، اوقات کی تفصیل ابتدا اور انتہائی وضاحت کے ساتھ ، طریقہ نماز وغیرہ باتیں قرآن میں نہیں ، اگر قرآن کے حکم صلوۃ پر ایمان ہے تو اس پر عمل کیسے ہوگا ؟ ان احادیث پر ایمان ضروری ہے جن میں حکم صلوۃ پر عمل کر نے کا طریقہ ہے ، یہی بات زکوۃ ، حج ، وغیرہ کے بارے میں ہے ، چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے ، قران میں " ید " کا لفظ ہے ، معنی ہے ہے " ہاتھ " کیا پورا ہاتھ بغل سے کاٹ دیا جائے ؟
قرآن میں زنا سے منع کیا ہے ، اس کی سزا ہے ، مگر جرم زنا کے ثبوت اور اور سزا کے اجرائ کا طریقہ کیا ہوگا ؟
قران میں ہے احل اللہ البیع و حرم الربو ، بیع اور ربا کو فرق کہاں سے معلوم ہوگا ؟ قرآن میں ہی کفار کا یہ قول ہے کہ " انما البیع مثل الربو " یعنی بیع کی ربا کی طرح حلال چیز ہے، ( کفار بیع کو ربا کی طرح درست کہتے تھے، نہ کہ ربا کو بیع کی طرح )
ایسے سینکروں مسائل ہے ، جو قران سے فرائض ہیں اور بدون احادیث ان پر عمل کرنا ممکن نہیں، اور قرآن پر ایمان کا مطلب یہ تو ہرگز آپ کے نزدیک نہ ہوگا کہ بس مان کہ نماز کا حکم ہے ۔ قرآن پر ایمان ہو گیا ۔ پڑھنے سے کوئی سروکار نہیں ۔
اقتباس:
اس انفارمیشن پر شکریہ۔کیا آپ نے فراہم کیا ہوا لنک بھی دیکھا ؟ کیا اس لنک پر فراہم کی ہوئی معلومات درست ہیں؟ یہ لوگ کتب حدیث نیٹ پر بیچتے ہیں۔ اور سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔
میں خاص طور پر ان لوگوں کے اس بیان کی تصدیق کسی شخص سے چاہتا ہوں جو وثوق کے ساتھ یہ بتا سکیں کہ امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے مل کر بنائی گئی؟
میں نے لنک دیکھا ، میری انگریزی کمزور ہے ، سائٹ والوں سے ، اور مضمون نگار مفتی ابراہیم دیسائی سے واقف ہوں ، اس پر بکاری شریف کے بارے میں بالکل ابتدائی معلومات فراہم ہے ، میں تو کتب روایات پر تابڑتوڑ آپ کے حملوں کی وجہ سے سمجھتا تھا کہ آپ کو اس سے کہیں زیادہ بخاری کے بارے میں معلوم ہوگا ، خیر بتا دوں کہ " الجامع الصحیح للامام بخاری " ان کی مستقل تصنیف ہے ، متعدد کتابوں سے مرتب نہیں دی گئی ، امام بخاری کی اور بھی تصانیف ہے ، مثلا الادب المفرد، جز رفع یدین ، وغیرہ ۔ ہو سکتا ہے کہیں یہ لکھا ہو کہ یہ کتاب انہوں نے اتنے اجزاء پر مرتب کی تھی ،
پہلے زمانہ میں اور اج بھی یہ ہوتا تھا کہ مصنفین اپنے مسودہ کو مختلف اجزاء میں تقسیم کر لیتے ہیں ، تا کہ پورا مسودہ ہر جگہ لے کر پھرنا نہ پڑے ، ( بخاری نارمل سائز کے جدید کمیوٹر ٹائب کے بھی دو تین ہزار صفحات کی کتاب ہو سکتی ہے ، ) پس ان اجزاء کو کسی نے مختلف کتابیں قرار دے دی ۔
اس کتاب میں درج قسم کی احادیث ہونے کی بات اس لنک پر نہیں کی گئی، بلکہ اس کے فٹ نوٹ میں ہونے کو کہا گیا ہے ، فٹ نوٹ سے یہ تو متعین ہے کہ اصل کتاب مراد نہیں ، یہ انگریزی لفظ ہے ، خیر اس کے دو مطلب ہے ، اس لنک پر یہ معلومات ہندستانی نسخے کی بیان کی گئی ہے ۔ بخاری کے ہندستانی نسخے بڑی سائز کے یعنی ڈیڑھ فٹ لمبے، ایک فٹ چوڑے ہوتے ہیں ، اس میں تین طرف حاشیہ ہوتا ہے ، ممکن ہے حاشیہ میں کسی نے ایسی احادیث نقل کی ہو ، ورنہ امام بخاری کی کتاب کا نام ہی " الجامع الصحیح " ہے ۔ امام بخاری کا طرز یہ ہے باب قائم کرکے اس کے ضمن میں احادیث پیش کرتے ہیں ، جیسےاقتباس:
مزید یہ کہ کیا ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟
صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث
جیسا کہ اس اسٹور کا دعوی ہے؟
باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقول الله جل ذكره { إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده }
[ 1 ] حدثنا الحميدي عبد الله بن الزبير قال حدثنا سفيان قال حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري قال أخبرني محمد بن إبراهيم التيمي أنه سمع علقمة بن وقاص الليثي يقول سمعت عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنه على المنبر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
اول اس میں عنوان ہے اور پھر حدیث پوری سند کے ساتھ ہے ۔
کبھی امام بخاری عنوان کے ساتھ کوئی قول رسول ذکر کرتے ہیں مگر اس کی سند بیان نہیں کرتے ۔ جیسے اس باب کو دیکھیں
باب المعاصي من أمر الجاهلية ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك لقول النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرؤ فيك جاهلية وقول الله تعالى { إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء }
[ 30 ] حدثنا سليمان بن حرب قال حدثنا شعبة عن واصل الأحدب عن المعرور قال لقيت أبا ذر بالربذة وعليه حلة وعلى غلامه حلة فسألته عن ذلك فقال إني ساببت رجلا فعيرته بأمه فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم يا أبا ذر أعيرته بأمه إنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم خولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
اس میں اولا باب کا عنوان ہے اور اس کے ساتھ حدیث النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرؤ فيك جاهلية نقل کی ہے مگر سند نہیں ، البتہ اس کے بعد 30 نمبر کی حدیث پوری سند کے ساتھ ہے ۔
محققین ایسی احادیث کو جو باب کے تحت بلا سند ہے ، ان کو تعلیقات کہتے ہیں ، ایسی تعلیقات بعض ضعیف اور منکر ہیں ۔ مگر اس کی نشاندہی مکمل طور پر کر دی گئی ہے ۔
اور میں گذارش کروں گا کہ پہلے حسن ضعیف ، اور منکر کی تعریف بھی دیکھ لیں ۔
صحیح لذاتہ
جس کے تمام راوی "عادل " "تام الضبط " ہوں ، اس کی سند " متصل " ہو ، اور وہ " معلل " و" شاذ " نہ ہو ۔ ( عادل ، تام الضبطم متصل ، معلل اور شاذ پانچوں اصطلاحیں ہیں )
حسن لذاتہ
وہ حدیث جس کا کوءی راوی خفیف الضبط ہو ، البتہ صحیح لذاتہ باقی چار شرطیں اس میں موجود ہوں۔
ضعیف
یہ ایک عام اصطلاح ہیں ،
یعنی اس کے ضمن الگ الگ قسمیں شراءط کے اعتبار سے شامل ہوں گی پھر بھی اس کی وضاحت یہ ہے کہ
وہ حدیث ہے جس میں صحیح اور حسن کی شرطوں میں سے کوءی ایک یا سبھی شرطیں نہ پاءی جاءیں ۔منکر
ضعیف راوی کی وہ روایت جو ثقہ کی روایت کے خلاف ہو