یہاں ایک دوست نے کہا ہے کہ" جس بات پر امت کے تمام فقہاء و علماء کا اتفاق ہوجائے، اسے اجماعِ امت کہتے ہیں اور اس سے انحراف کفر ہے۔"۔۔۔ اب اس حوالے سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں جنکا جواب دیا جانا ضروری ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ امت کے تمام فقہاء و علماء سے کیا مراد ہے؟ کیونکہ امت میں تو قیامِ قیامت تک کےوہ تما م لوگ شامل ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہوں ۔ کیا آج کی تاریخ کے بعد سے لیکر قیامت تک امت میں مزید کوئی عالم یا فقیہہ نہیں پیدا ہوگا؟ ظاہری بات ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ امت کے تمام علماء اور فقہاء سے آپکی کیا مراد ہے؟ اسکی وضاحت کی ضرورت ہے۔
بہت اچھا سوال ہے۔
اب دیکھیں یہ بات مذکورہ اجماع کی حدیث (اس حدیث پر بھی تمام اہلسنت علماء کا اجماع ہے) اگر اسی حدیث پر غور فرمائیں تو اندازہ ہوگا کہ آپ کی بات کا جواب اسی میں موجود ہے:
”بأصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم“
پہلی بات: یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ امت کا ایک پورا حصہ ایک ہی وقت میں نیست و نابود ہوجائے پھر اگلی نسل اس کے بعد پیدا ہو کر عالم اور فقیہ بنے۔
اسلام ایک زنجیر کی طرح ہے جس کا ایک سرا نبیؑ اور دوسرا سرا آج کا زمانہ ہے۔(یعنی آنے والا ہر زمانہ ایک ایک کڑی کی طرح بڑھتا جائےگا) اس زنجیر سے جو الگ ہوگا وہ ایک کڑی تو ضرور ہو سکتی ہے مگر اس کا تعلق نبی پاک سے نہیں مل سکتا۔
دوسری بات: جہاں یہ واضح ہوگیا کہ امت کا ایک حصہ مکمل طور پر ایک ہی جھٹکے میں ختم نہیں ہوسکتا تو یہ بھی ثابت ہوا کہ اگلی نسل میں پچھلے بھی علماء و فقہا شامل ہونگے پھر ان سب میں اجماع کی صورت کا بھی وہی حساب ہوگا جو آج تک چلا آیا ہے یعنی کچھ پہلے کے لوگ اور کچھ بعد کے لوگ کسی ایک بات پر متفق ہونگے تو اجماع کہلائے گا ایسا نہیں ہوسکتا کہ پہلے کے سارے لوگ اختلاف کریں اور بعد کے سارے لوگ اتفاق کریں تو یہ صورت بھی اجماع سے خارج ہوگی۔
پہلے کے لوگوں کا درجہ بڑا ہے اور انکی اہمیت بعد والوں سے کم، کم تر اور کم ترین ہوتی جاتی ہے۔ (یہ بھی حدیث سے ثابت ہے)
فروعی اختلافات میں یہ مسئلہ کوئی زیادہ قوی نہیں۔ مثلاً ایک آدمی کہے کہ تو نماز میں رکوع والی رفع یدین نہیں کرتا اس لئے تو مشرک یا سنت کا تارک ہے تو اس بات میں کوئی وزن نہیں کیونکہ فقہاء کا جتنا بڑا حصہ رفع یدین کرنے پر متفق ہے اس سے دس گناہ سے بھی بڑا حصہ رفع یدین نہیں کرنے پر متفق ہے
مگر کوئی کسی پر لعن طعن نہیں کرتا کیونکہ یہ فروعی اور غیر اہم مسئلہ ہے
مگر اس کے برخلاف تمام فقہاء اہلسنت (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کا کلی طور پر اجماع ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دے دی جائیں تو تین واقع ہو جاتی ہیں۔ اب اگر کچھ ہزار لوگ اس کے خلاف کرینگے تو یہ لوگ اجماع امت سے خارج اور گمراہ ہیں۔ اور آخرت میں ان کی پکڑ بھی ہے
کیونکہ آپ کسی آئمہ مجتہد کسی اہلسنت والجماعت کے فقہاء کا کوئی فتوی نہیں دکھا سکتے کہ جو تین طلاق دے وہ ایک شمار ہوگی۔
یہی فرق ہے فروعی مسائل میں اختلافات صحابہ تک میں تھے مگر غیر فروعی مسائل میں کسی کا اختلاف نہیں ہوتا۔ اور جو اجماع سے اختلاف کرے وہ گمراہ ہے (اس بات پر بھی اجماع ہے) امید ہے میں اپنی بات واضح طور پر سمجھانے میں کامیاب رہا ہوں۔