بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

فرسان

محفلین
قرآن كي اس آيت كا مطلب بھي يهاں درج كيے ديتے هيں. مگر پهلے يه جان ليجئے كه اگر واقعي اس آيت سے جنابت ميں تيمم كا مطلب صاف نكلتا تو حضرت عمار رضي الله عنه بھي اسي كا حواله ديتے.


آيت ميں اصل الفاظ [Arabic]"لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ"[/Arabic] هيں جس كے مطلب هيں چھونا. اب چھونے سے مراد جماع كيسے هوگيا؟؟

جب عرب خود چھونے سے مراد جماع نهيں ليتے تو تم كون هوتے هو اپني جهالت كا بار حضرت عمر رضي الله عنه كي طرف منسوب كرنے والے؟؟؟

شيعوں ميں معزز مفسر شيخ طبرسي اپني مشهور تفسير مجمع البيان ميں لكھتے هيں كه"روايت كيا جاتا هے كه عربوں اور عجميوں ميں اس لفظ پر اختلاف هوگيا ، عرب كهتے تھےكه اس سے مراد محض هاتھ كا چھونا هے اور عجمي كهتے تھے كه اس سے مراد جماع هے.( مجمع البيان جلد 3 صفحه 94)

يه ايك دليل هے عربي كو عرب سے سمجھنے كي.
 
آخری تدوین:

فرسان

محفلین
اور ظلم تو ديكھيے ، اس آيت سے جو مطلب حضرت عمر نے سمجھا بعينه وهي مطلب حضرت عبد الله بن مسعودرضي الله عنه، امام شعبي، امام عطا اور امام شافعي نے سمجھا. تو كيا يه سب لوگ غير فقيه تھے؟؟؟ يه تمام نام شيعه مفسر شيخ طبرسي نے گنوائے هيں جو مجمع البيان جلد 3 صفحه 94پر ديكھے جا سكتے هيں. شيعه مفسر شيخ طوسي ان ناموں ميں حضرت ابن عمر رضي الله عنه ، مشهور قاضي تابعي حضرت عبيدة اور حضرت ابراهيم نخعي كا اضافه كرتے هيں جو تفسير التبيان جلد 3 صفحه 205 پر ديكھے جا سكتے هيں.

شيخ طبرسي اور طوسي دونوں نے لكھا هے كه حضرت عمر نے اس آيت كا مطلب جماع كے بجائے چھونا ليا هے، تو صاحب ! حضرت عمر رضي الله عنه وأرضاه نے آيت سمجھ كر عربي كلام كے مطابق كچھ معنى مراد لئے تھے آيت معلوم نه هوتي تو معنى كيسے مراد لئے جاتے؟؟؟


قرآن ميں لفظ هے[Arabic]"وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ"[/Arabic] تو كيا اس ميں لمس سے مراد يه هو گيا كه آسمان كے ساتھ جماع كيا؟؟؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

فرسان

محفلین
امام شافعي خود بھي عربي كے امام تھے اور مشهور عربي امام اصمعي كے هذيلي اشعار كي حد تك استاد بھي تھے ، لغت كا يه امام بھي اس آيت كا وهي مفهوم مراد ليتا هے جو حضرت عمر رضي الله عنه نے ليا. تو كيا امام الائمه حضرت شافعي بھي آپ كي تنگ نظري كا شكار هو جائيں گے؟؟؟


همارے آقا صلى الله عليه وسلم كا فرمان هے كه قرآن چار لوگوں سے سيكھو: عبد الله بن مسعود ، أبي بن كعب ، معاذ بن جبل اور سالم (رضي الله تعالى عنهم).

ان ميں سب سے پهلے صحابي يعني حضرت عبد الله بن مسعود رضي الله عنه بھي اس آيت سے وهي مطلب ليتے هيں جو حضرت عمر رضي الله تعالى عنه نے ليا يعني كه [Arabic]"لامستم"[/Arabic]سے مراد جماع نهيں بلكه محض چھونا مراد هے.

دوسري طرف حضرت علي رضي الله عنه نے اس سے مراد جماع هي ليا هے.

تو كيا حضرت عمر ، حضرت عبد الله بن مسعود رضي الله عنهما اور باقي لغت عربي كے اماموں كي رائے ديكھ كر كوئي بيوقوف حضرت علي رضي الله عنه پر طعنه زني كر سكتا هے كه آپ نے ايك منفرد اور غلط مطلب سمجھا؟؟؟؟؟؟
 

فرسان

محفلین
تو صاحب مجھ سے نهيں تو اپنے علاماؤں (شيخ طوسي اور طبرسي) سے هي كچھ ادب سيكھ لينا چاهيے. لكھتے هيں كه "اس لفظ [Arabic]"لامستم النساء"[/Arabic]سے مراد جماع لي گئي هے جو فلان اور فلان اصحاب سے مروي هے. اور اس سے مراد محض چھونا بھي ليا گيا هے جو حضرت عمر اور ديگر اصحاب سے مروي هے البته همارے نزديك صحيح مطلب پهلا هے".


تو جناب قاعده اور قانون يه هے كه جب قرآن كے كسي لفظ كے دو مطلب نكل رهے هوں ، اور امت كے بزرگوں ميں سے كچھ ايك اور كچھ دوسرا مطلب اخذ كرتے هوں ، تو اس صورت ميں آپ كا جو بھي نظريه هو ليكن دوسرے كے نظريے كو برے الفاظ سے مت ياد كرو ، ورنه جاهل وگستاخ كهلاؤ كے.
 

فرسان

محفلین
اور اگر كبھي قرآن شريف ميں آيت ڈھونڈني هو تو كسي ترجمه نهيں بلكه قرآن كے عربي الفاظ ميں ڈھونڈنا !!!!

آپ كے لئے مخلصانه مشوره هے كه آپ سنت مخالف لكھاري "تيجاني "كي كتب پڑھنا چھوڑ ديں.

آپ كے لئے "آيت الله برقعي قمي" كي كتب زياده مفيد رهيں گي.



ثابت هوا كه قرآن ميں ايسي كوئي آيت نهيں كه جنابت ميں بھي تيمم كي اجازت يا هدايت هو. تاهم بعض بزرگوں نے ايك مخصوص لفظ كا مطلب جماع ليا هے. اور يه تفسير كا قاعده هے كه تفسير اور مفهوم آيت نهيں هوتے۔
تفسير تفسير هوتي هے قرآن كي آيت نهيں۔
آيت طلب كي تھي ، صحابه و تابعين كا فهم نهيں۔
 
آخری تدوین:

فرسان

محفلین
لا حول ولا قوة الا بالله

[Arabic]إنا لله وإنا إليه راجعون[/Arabic]

يهاں ميں اپني عبارت كي كچھ وضاحت كردوں كه بعض لوگوں كو يه تشبيه سمجھ نه آئي.

انبياء اپني امت كے لئے والد كي حيثيت ركھتے هيں. حديث قرطاس كے وقت صحابه نے سيدي صلى الله عليه وسلم كي راحت كا خيال ركھا مگر آج اپنے آپ كو مسلمان كهنے والے چندلوگوں كو يه فكر هے كه كاش اس نازك وقت ميں وصيت كي تحرير لكھوالي جاتي.
 

فرسان

محفلین
ميں نے آپ كے بهت سے مفروضات كا جواب ايسے هي ديا هے جيسے حقائق كا ديا جاتا هے. ذيل ميں خاكسار خلاصه كے طور پر اپنے نكات "مراسله بند "كرتا هے.

1. منكرين زكاة صحابه نهيں بلكه مشرق كے بدوي قبائل تھے جنهوں نے بعد ميں شيعي قرامطه كے زير قيادت كعبه پر حمله كيا.

2. سقيفه بني ساعده ميں نسب كي بهتري كي كوئي بات سرے سے موجود هي نه تھي. يه آپ كا اپنا تخيل هے جس كا آپ كے ذهن سے خارج كوئي وجود نهيں.

3. بنو تميم (قبيله) بدترين قبيله هے ، يا حضور سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم كا نا پسنديده قبيله هے ، يه كوئي ثابت نهيں كر پايا.

4. ثابت هوا كه قرآن ميں ايسي كوئي آيت نهيں جو جنابت ميں بھي تيمم كي اجازت يا هدايت ديتي هو. تاهم بعض بزرگوں نے ايك مخصوص لفظ كا مطلب جماع ليا هے

5. بالا نكات ميں مطالعه كا كافي كچھ مواد جمع هو گيا هے. اگر آپ ان باتوں هي كے حوالاجات ڈھونڈ ليں تو آپ كافي كچھ علم كا ذخيره جمع كرليں گے ان شاء الله. تاهم آپ كو اپني سابقه باتوں كے حوالاجات كبھي نه مليں گے، اور مليں بھي كيسے كه ان كا تعلق كتابوں سے نهيں بلكه آيات الله العظمي كے حوزات علميه كے نجي ذوق اور كشف واجتهاد وغيره سے هے.
 
آخری تدوین:

bheram

معطل
ارے واه !

يه شراكت تو سب سے زياده مضحكه خيز هے ، اور سچ پوچھيے تو ميں كهه سكتا هوں كه اس طرز استدلال پر ميرے "هاسے" چھوٹ گئے.

يعني كه ايك جليل القدر صحابي جن كي اپني زبان عربي تھي وه آيت سمجھ نه سكے اور دليل يه دي جاتي هے كيونكه هندوستان كے جالندھري صاحب نے آيت كا مطلب اور ترجمه كسي اور طرح سمجھا !!!

آفرين !


آپ نے تو ايسي بات كي جيسے كوئي شخص كهے كه حضرت علي كرم الله وجهه نے بعد از ركوع قنوت پڑھ كر غلطي كي ، اور ثبوت يه دے كيونكه هندوستان كے كوئي عالم قبل از ركوع قنوت پڑھنے كے قائل هيں. ايك تو كيا پورا هندوستان ايك طرف جمع هو جائے تو بھي اس كے قول كي اتني حيثيت نهيں كه حضرت علي رضي الله عنه وأرضاه كو غلط ثابت كرسكے.

يا جيسے كوئي كهے كه حضرت حسن رضي الله عنه نے لشكر جرار هونے كے باوجود اپنا منصب چھوڑ كر غلط قدم اٹھايا اور ثبوت يه دے كيونكه حضرت حسن رضي الله عنه كے لشكر كے كئي لوگ ان كے اس اقدام كو غلط كهتے هيں.

تو جناب يه جالندھري صاحب والي دليل نےبهت محظوظ كيا.
پہلی بات یہ کہ یہ جالندھری صاحب ایک وہابی عالم ہیں اور وہابیوں کے بارے آپ اس دھاگے میں تعریفوں کے پل باندھ رہےہیں اب وہابیوں کی دلیل آپ کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی کیونکہ آپ صرف اپنے نفس کی ہی پیروی میں لگے ہوئے ہیں
یہ بات یاد رہے کہ اس دھاگے میں آپ کی موجودگی کی وجہ جو آپ نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں آپ نے امام بخاری کی صحیح بخاری کا دفاع کرنا ہے لیکن آپ کا عمل اس کے بلکل برعکس ہے یعنی آپ یہاں صحیح بخاری کا ہی رد فرمارہے ہیں وہ کس طرح وہ بیان کیا جاتا ہے

صحیح بخاری میں کتاب تیمم میں امام بخاری نے ایک حدیث بیان کی ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے جو کہ داؤد راز صاحب نے کیا ہےیاد رہے یہ صاحب بھی وہابی ہیں

صحیح بخاری ۔ کتاب تیمم ،باب: جب جنبی کو (غسل کی وجہ سے) مرض بڑھ جانے کا یا موت ہونے کا یا (پانی کے کم ہونے کی وجہ سے) پیاس کا ڈر ہو تو تیمم کر لے ،
حدیث نمبر: 346

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ (بن مسعود) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف (ہاتھ اور منہ کا تیمم) کافی تھا۔ ابن مسعود نے فرمایا کہ تم عمر کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے (جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے) عبداللہ بن مسعود اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ (اعمش کہتے ہیں کہ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔
عربی متن کے لئے درجہ ذیل لنک پر تشریف لائیں
http://hadith.al-islam.com/Page.aspx?pageid=192&TOCID=241&BookID=24&PID=341
یہ ہے ایک صحابی کی دلیل جس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی روایت کی گئی حدیث کو نہیں مانا یعنی صحابہ کلھم عدول کےفلسفے کا انکار کیا اور پھر صحابی نےتیمم کی پہلی دلیل حضرت عمار کی روایت سے دی پھر اس کے بعد قرآن کی واضح آیت کی دی اب صحابی پر یہ الزام نہ لگادینا کہ یہ غیر فقہی ہیں اور قرآن کی آیت کی دلیل پہلے دینے کی بجائے یہ حدیث کی دلیل دے رہے ہیں
دوسری بات یہ کہ کہا جاتا ہے امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں ہے اور امام بخاری کی فقہہ کے مطابق بھی جنبی کو پانی میسر نہ ہونے پر تیمم کرنا چاہئے
امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب تیمم میں ایک اور حدیث بیان کی جو کہ ایک طویل حدیث ہے اس کا اس موضوع سے مناسب والا حصہ پیش کرتا ہوں
ترجمہ داؤد راز
ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے
صحیح بخاری ، کتاب التیمم ، حدیث نمبر: 344
عر بی متن کے لئے یہ لنک
http://hadith.al-islam.com/Page.aspx?pageid=192&BookID=24&TOCID=240
اب دیکھتے ہیں کہ آپ صحیح بخاری کا دفاع فرماتے ہیں یا رد
اس بحث میں اہل بیت اطہار کے افراد کا نام لے لےکر آپ جو اپنی دل کی بھڑاس نکل رہے ہیں اس سے ناصبیت کی بو آرہی ہے ہوسکتا یہ خیال صحیح نہ ہو

آئیں دیکھے کہ وھابی دیوبندی عورت کو چھونے سے وضو کرنے کے بارے میں کیا کہتے ہیں
سوال ::
میں شادی شدہ ہوں جب میں وضو کرکے آتاہوں تو کیا میں اپنی بیوی کا بوسہ لے سکتاہوں؟ کیا میں اپنی بیوی کے سامنے کپڑے بدل سکتاہوں جب میں وضو سے ہوں ؟ کیا اس سے میرا وضو بچا رہے گا؟
جواب ::
وضو کرنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کا بوسہ نہ لیں، تاکہ تمام ائمہ کے نزدیک آپ کی نماز صحیح رہے۔ وضو کی حالت میں بیوی کے سامنے اپنے کپڑے بدل سکتے ہیں، آپ کا وضو محفوظ رہے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=49472&limit=1&idxpg=0&qry=<c>PAD</c><s>PAC</s><l>ur</l>

یعنی کچھ ائمہ اہل سنت ایسے بھی ہیں جن نزدیک وضو کی حالت میں اپنی عورت کا بوسہ لینے سے بھی وضو نہیں ٹوٹا جب وضو ہی ناقص نہ ہوا تو وہ جنبی کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایسےتیمم کرنے کی کی حاجت ہو

وہابی اہل حدیث کا فتویٰ
سوال :
کیا عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب :

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بات یہ ہے کہ عورت کو محض چھوٹے سے وضو نہیں ٹوٹتا الایہ کہ اسے چھونے کی وجہ سے کوئی چیز خارج ہو۔ اس کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کو بوسہ دیا،پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہ کیا اور اس لیے بھی کہ اصل عدم نقض ہے الایہ کہ کسی صحیح اور صریح دلیل سے نقض ثابت ہو جائے۔ اور یہ کہ بندے نے اپنی طہارت کو دلیل شرعی کے مطابق مکمل کیا تھا لہذا جو چیز دلیل شرعی کے تقاضے کے مطابق ثابت ہو، وہ ختم بھی دلیل شرعی ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

﴿أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ﴾--المائدة:6
’’یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو۔‘‘

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں چھونے سے مراد ہم بستری ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور پھر اس کی ایک اور دلیل بھی ہے کہ اس آیت میں طہارت کو اصلی اور بدلی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور اسی طرح ان دونوں میں سے ہر ایک کو طہارت صغریٰ اور کبریٰ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور طہارت صغریٰ و کبریٰ کے اسباب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا قُمۡتُمۡ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغۡسِلُواْ وُجُوهَكُمۡ وَأَيۡدِيَكُمۡ إِلَى ٱلۡمَرَافِقِ وَٱمۡسَحُواْ بِرُءُوسِكُمۡ وَأَرۡجُلَكُمۡ إِلَى ٱلۡكَعۡبَيۡنِۚ﴾--المائدة:6
’’مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘

یہ پانی کے ساتھ اصلی صغریٰ طہارت ہے، پھر فرمایا:﴿وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ﴾’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘یہ پانی کے ساتھ اصلی کبریٰ طہارت ہے۔ پھر فرمایا:﴿وَإِن كُنتُم مَّرۡضَىٰٓ أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوۡ جَآءَ أَحَدٞ مِّنكُم مِّنَٱلۡغَآئِطِ أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُواْ مَآءٗ فَتَيَمَّمُواْ﴾ ’’اور بیماری ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا عورتوں سے ہم بستر ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو تیمم کر لو۔‘‘ چنانچہ یہاں تیمم بدل ہے اور﴿أَوۡ جَآءَ أَحَدٞ مِّنكُم مِّنَ ٱلۡغَآئِطِ﴾’’یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو۔‘‘ یہ سبب صغریٰ کا بیان ہے اور﴿أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ﴾’’یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو۔‘‘ یہ سبب کبریٰ کا بیان ہے اور اگر اسے ہاتھ سے چھونے پر محمول کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے طہارت صغریٰ کے دو سبب ذکر کیے ہیں اور طہارت کبریٰ کے سبب سے سکوت فرمایا ہے، حالانکہ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ﴿وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ﴾ ’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘ تو ایسا کہنا قرآنی بلاغت کے خلاف ہے، لہٰذا اس آیت میں عورتوں کو چھونے سے مراد ہم بستر ہونا ہے، تاکہ آیت طہارت کے موجب دواسباب، سبب اکبر اور سبب اصغر پر مشتمل ہو جائے جن میں سے طہارت صغریٰ کا تعلق جسم کے چار اعضا سے ہے جب کہ طہارت کبریٰ کا تعلق سارے بدن سے ہے اور اس کے بدل یعنی تیمم کے ساتھ طہارت کا تعلق صرف دو اعضا سے ہے کیونکہ اس میں طہارت صغریٰ و کبریٰ مساوی ہیں۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1038/29/
یعنی انھوں نے تو سارا مسئلہ ہی حل کردیا کہ قرآن میں جہاں عورت کو چھونے کا ذکر ہے اس سے مراد ہم بستری ہے

لیجئے اب اہل سنت والجماعت کا فتویٰ بھی سن لیجئے

سوال :
کن چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا؟

جواب :

درج ذیل امور سے وضو نہیں ٹوٹتا :

  1. خون کا ظاہر ہونا جو اپنی جگہ سے بہا نہ ہو۔
  2. خون بہے بغیر گوشت کا گر جانا۔
  3. کیڑے کا زخم سے یا کان سے یا ناک سے نکلنا۔
  4. عضو تناسل کو چھونا۔
  5. عورت کو چھونا۔
  6. قے جو منہ بھر کر نہ آئے۔
  7. بلغم کی قے اگرچہ بلغم زیادہ ہو۔
  8. کسی ایسی چیز سے ٹیک لگا کر سونا کہ اسے ہٹا لیا جائے تو آدمی گر جائے۔
  9. بیٹھ کر سویا اور گرگیا تب بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن رکوع و سجدہ یا قیام و قعود میں سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک گر نہ جائے۔
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/334/کن-چیزوں-سے-وضو-نہیں-ٹوٹتا/


اب جب عورت کو چھونے سے وضو ناقص نہیں ہوتا تو پھر پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کی حاجت کیوں پیش آئے گی ؟
ویسے سنن ابی داؤد کی یہ حدیث بھی قابل غور ہے

أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قبَّلَ امرأةًمِن نسائِهِ ثمَّ خرجَ إلى الصَّلاةِ ولم يتوضَّأْ

الراوي:عائشة أم المؤمنينالمحدث:الألباني -المصدر:صحيح أبي داود-الصفحة أو الرقم:179
خلاصة حكم المحدث:صحيح
 

حافظ احمد

محفلین
اجماع اور فقہ وغیرہ کے موضوعات اور انکی ابحاث کافی وسیع ہیں۔ اگر ہم زیرِ نظر موضوع تک ہی محدود رہ کر بات کریں تو شائد کوئی کام کی بات ہوسکے۔اگر ہم ان لوگوں سے سوءِ ظن نہ رکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ بھی رسول کی بات کو قولِ فیصل اور حرفِ آخر مانتے ہیں بشرطیکہ وہ بات حقیقتاّ رسول ہی کی بات ہو۔۔۔:)
 

حافظ احمد

محفلین

نعمان خالد

محفلین
ذیل میں ایک کتاب کا لنک فراہم کررہا ہوں۔ یہ کتاب علامہ احمد سعید ملتانی صاحب نے لکھی ہے جو 74 سال کے ہیں اور جناب عرصہ 35 سال سے جامعہ محمدیہ احیاء السنۃ، کبیر والا شہر ضلع خانیوال میں قرآن اور حدیث کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جناب نے بخاری محدث کے ایسے بیانات کو واضح کیا ہے جو فرمان الہی قرآن حکیم کے سراسر خلاف ہیں۔

http://ia701508.us.archive.org/2/it...adath/QuranMuqaddasOrBukhariMuhadath_text.pdf
جو واقعہ مندرجہ بالا کتاب کی تصنیف کا محرک بنا اس کا سیاق و سباق کچھ یوں تھا کہ علامہ احمد سعید ملتانی کا بیٹا سیف اللہ خالد ملتانی غیر مقلد (اہل حدیث) ہو گیا تھا۔ جس کے بعد علامہ صاحب کی ساری کوششیں اور کاوشیں غیر مقلدین کے رد میں صرف ہونے لگیں۔ علامہ مرحوم اپنے بیٹے کو تو راہ راست پر نہ لا سکے، بلکہ الٹا اس نے علامہ صاحب کو اور اپنے چھوٹے بھائی کلیم اللہ ملتانی کو کھلم کھلا چیلنج کرنا شروع کر دیے۔ چنانچہ علامہ صاحب نے اپنا سارے کا سارا غصہ امام بخاری رحمہ اللہ کی تکذیب اور تکفیر پر نکال دیا۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
کتاب کو سر سری طور پر دیکھا ملتانی صاحب کالب و لہجہ متانت، تحمل اور برباری سے عاری نظر آیا۔ اس لیے کتاب کو اپنے مزاج سے ہم آہنگ نہ پاکر مطالعہ ترک کر دیا تاہم ملتانی صاحب کے موقف کو ان مخالفت کی رو میں بہتے ہوئے یک سر رد بھی نہیں کیا جا سکتا
 

x boy

محفلین
یہ تو بہت لمبی بحث ہے
اس پر ہاتھ ڈالنا مزید آگ کو قریب لانے کے مترادف ہوگا۔
 

آصف

محفلین
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 11
شداد بن معقل نے ابن عباس سے پوچھا کیا نبی نے کچھ لکھی ہوئی چیزیں بھی چھوڑی ہیں وہ بولے جِلد قرآن کے درمیان جو کلام الہی ہے صرف وہی چھوڑا پھر ہم محمد بن حنفیہ کے پاس گئے اور ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ قرآن کی جلد کے درمیان جو کچھ ہے اس کے علاوہ آپ نے اور کچھ بھی نہیں چھوڑا

اس روایت کے بارے میں علماء کیا فرمائیں گے؟؟؟
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں قرآن کے علاوہ کچھ بھی لکھوانا امت کے لئے ضروری نہیں سمجھا !!!!
یا یوں کہئے کہ ان کو جو کچھ پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا انہوں نے پہنچا دیا۔ باقی ہم نے اسے ناکافی سمجھتے ہوئے خود تیار کر لیا ؟؟
 
آخری تدوین:

آصف

محفلین
ایک عام مسلمان کا سادہ سا سوال ہے
مہربانی کر کے کوئی عالم فاضل آسان سا جواب عنایت فرمائے۔
اگر روایات پر ایمان لانا ایسے ہی ضروری ہے جیسے قرآن پر ایمان تو پھر اللہ اور اللہ کے رسول نے امت کیلئے حجت پوری کیوں نہیں کی۔ کیوں اتنے اہم مسئلہ کو انسانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا کہ جس کا جیسا دل چاہئے اسی طریقے سے آگے پہنچا دے۔ پہنچا دے تو پہنچا دے، نہ پہنچائے تو نہ سہی،
70 ہزار میں سے اپنی مرضی کی 7 ہزار پہنچا دے تو اسی پر ایمان لانا ہمارے لئے فرض، اگر باقی 63 ہزار بھی پہنچا دی جاتیں تو ہمارا کیا بنتا؟؟؟

چند روایات اساتذہ کی خدمت میں اور بھی پیش ہیں

صحیح بخاری: جلد سوم: حدیث نمبر 1674
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی چیز نہیں ہے جسے ہم پڑھیں سوائے اِس صحیفہ کے اس کو انہوں نے نکالا تو اس میں زخموں اور اونٹوں کے متعلق چند باتیں لکھی تھیں۔

صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 834
حضرت علی رضی اللہ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ جو آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ ہمارے پاس وہ چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں سوائے اللہ کی کتاب اور اس صحیفے کے ۔ (جو آپ کی تلوار کی نیام کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔) اس طرح کا خیال کرنے والا آدمی جھوٹا ہے ۔اس صحیفے میں تو اونٹوں کی عمروں اور کچھ زخموں کی دیت کا ذکر ہے۔

میری ناقص رائے میں روایات پر عمل کا صحیح طریقہ شاید یہ ہے ۔
(عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں ۔)( تفسیر ابن کثیر ج٤ ص٩٤٥ ،سورہ فاطر)
 
Top