بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

میں نہ مانوں کی رٹ تو یہاں لازمی لگائی جاتی ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ

بلاشبہ ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے
بلاشبہ ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے
ہاں بلاشبہ ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔ہدایت اور گمراہی آپکی رائے کا نام نہیں ہے۔
 
امام نووی کی اس وضاحت کی دلیل کیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
انہیں کہاں اور کیسے اس حقیقت کا علم ہوا کہ اللہ نے وحی کی یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ لکھوانے میں مصلحت جانی ۔
اور پھر نہ لکھنے کی وحی آئی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ لکھوانا ہی مناسب سمجھا ۔
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مزید کون سے اصحاب اس اجتہاد میں شریک تھے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بہت تناقص ہے اس وضاحت میں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
محترمی۔ میں نے اپنی طرف سے وضاحت پیش کردی تاکہ آپ لوگوں کے ذہنوں کو حدیث رسول علیہ السلام اور صحابی رسول کے متعلق شکوک سے بچا سکوں اور اس میں میں اللہ ہی کی مدد کا طلبگار ہوں ۔
اگر آپ متفق نہیں ہیں تو آپ کی مرضی۔ ہر بات میں اعتراض کرنا جہلا کا وطیرہ ہے۔آپ کو مشورہ ہے کہ ذرا خود بھی تحقیق کرلیں یا کم از کم اس حدیث کی شرح کے ضمن میں امام نووی اور امام ابن حجر اور امام ابن تیمیہ کے ارشادات ملاحظہ فرمالیں۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ وہی کہتے ہیں جس کی آپ کو وحی کی جاتی ہے ۔ اگر کسی کتابت کی واقعی ضرورت ہوتی اور انھیں اللہ کا یہ حکم ملتا کہ آپ کچھ لکھوادیں تاکہ امت گمراہ نہ ہو تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کیوں نہ لکھواتے ؟؟ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاس حکم کی ضرور تعمیل کرتے کیونکہ دین کے معاملے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نرمی نہیں روا رکھتے تھے۔
آپ نے نہایت عجیب بات کی کہ امام نووی کو کیسے معلوم ہوا۔ شاید آپ کو امام نووی کی حیثیت کا علم نہیں ہے۔اور یہ نکتہ تھوڑی سی تفکیر پر آپ پر بھی آشکار ہوجاتا کہ محدثین کا کام ہی احادیث کی تشریح کرنا ہوتا ہے جو وہ صحابہ کرام، سلف صالحین کے اقوال اور ان تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں جو وہ اپنے اساتذہ سے حاصل کرتے ہیں۔وہ اپنی مرضی کی رائے نہیں ٹھونستے۔اگر ایک محدث حدیث کی تشریح بیان نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا ؟ تفقہ اور سمجھ بوجھ بھی کسی شے کا نام ہے ۔ امام نووی اور امام ابن تیمیہ کے اقوال میں اسی سمجھ بوجھ اور تفقہ سے کام لیا گیا ہے جسے آجکل کے مسلمان چھوڑ بیٹھے ہیں۔اگر میں فزکس کے کسی مسئلے میں رائے زنی شروع کردوں تو میری بات کی کیا حیثیت ہوگی جبکہ نیوٹن کی بات کو اہمیت دی جائے گی اور اسے قبول بھی یا جائے گا کیونکہ وہ اس کی فیلڈ ہے اور وہ اپنی فیلڈ کا ماہر شخص ہے۔
تناقص محسوس کرنے والے کو محسوس ہوگا ورنہ بات تو بالکل صاف اور سیدھی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
محترمی۔ میں نے اپنی طرف سے وضاحت پیش کردی تاکہ آپ لوگوں کے ذہنوں کو حدیث رسول علیہ السلام اور صحابی رسول کے متعلق شکوک سے بچا سکوں اور اس میں میں اللہ ہی کی مدد کا طلبگار ہوں ۔
اگر آپ متفق نہیں ہیں تو آپ کی مرضی۔ ہر بات میں اعتراض کرنا جہلا کا وطیرہ ہے۔آپ کو مشورہ ہے کہ ذرا خود بھی تحقیق کرلیں یا کم از کم اس حدیث کی شرح کے ضمن میں امام نووی اور امام ابن حجر اور امام ابن تیمیہ کے ارشادات ملاحظہ فرمالیں۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ وہی کہتے ہیں جس کی آپ کو وحی کی جاتی ہے ۔ اگر کسی کتابت کی واقعی ضرورت ہوتی اور انھیں اللہ کا یہ حکم ملتا کہ آپ کچھ لکھوادیں تاکہ امت گمراہ نہ ہو تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کیوں نہ لکھواتے ؟؟ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاس حکم کی ضرور تعمیل کرتے کیونکہ دین کے معاملے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نرمی نہیں روا رکھتے تھے۔
آپ نے نہایت عجیب بات کی کہ امام نووی کو کیسے معلوم ہوا۔ شاید آپ کو امام نووی کی حیثیت کا علم نہیں ہے۔اور یہ نکتہ تھوڑی سی تفکیر پر آپ پر بھی آشکار ہوجاتا کہ محدثین کا کام ہی احادیث کی تشریح کرنا ہوتا ہے جو وہ صحابہ کرام، سلف صالحین کے اقوال اور ان تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں جو وہ اپنے اساتذہ سے حاصل کرتے ہیں۔وہ اپنی مرضی کی رائے نہیں ٹھونستے۔اگر ایک محدث حدیث کی تشریح بیان نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا ؟ تفقہ اور سمجھ بوجھ بھی کسی شے کا نام ہے ۔ امام نووی اور امام ابن تیمیہ کے اقوال میں اسی سمجھ بوجھ اور تفقہ سے کام لیا گیا ہے جسے آجکل کے مسلمان چھوڑ بیٹھے ہیں۔اگر میں فزکس کے کسی مسئلے میں رائے زنی شروع کردوں تو میری بات کی کیا حیثیت ہوگی جبکہ نیوٹن کی بات کو اہمیت دی جائے گی اور اسے قبول بھی یا جائے گا کیونکہ وہ اس کی فیلڈ ہے اور وہ اپنی فیلڈ کا ماہر شخص ہے۔
تناقص محسوس کرنے والے کو محسوس ہوگا ورنہ بات تو بالکل صاف اور سیدھی ہے۔
میرے محترم بھائی جزاک اللہ خیراء ۔
میں جاہل ہی سہی ۔ آپ تو ماشاءاللہ صاحب علم محقق ہیں ۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے ساتھ اجتہاد میں شامل دوسرے اصحاب بارے معلومات فراہم کر دیتے ۔
اگر کبھی وقت اجازت دے تو " موطا " امام مالک رحمتہ اللہ علیہ ۔ البدایہ و النہایہ کا بھی مطالعہ کیجئے گا ۔ شاید کہ " واقعہ قلم و قرطاس " آپ پر کھل جائے ۔
 
میرے محترم بھائی جزاک اللہ خیراء ۔
میں جاہل ہی سہی ۔ آپ تو ماشاءاللہ صاحب علم محقق ہیں ۔
نہیں بھائی صاحب ۔ میں کوئی صاحب علم محقق نہیں۔ بلکہ قرآن و سنت کا ادنیٰ طالب علم ہوں۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے ساتھ اجتہاد میں شامل دوسرے اصحاب بارے معلومات فراہم کر دیتے ۔
اگر کبھی وقت اجازت دے تو " موطا " امام مالک رحمتہ اللہ علیہ ۔ البدایہ و النہایہ کا بھی مطالعہ کیجئے گا ۔ شاید کہ " واقعہ قلم و قرطاس " آپ پر کھل جائے ۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ میرا مشورہ مان کر صحیح مسلم شرح امام نووی میں کتاب الوصیۃ باب
ترك الوصية لمن ليس له شيء يوصي فيه
میں اس حدیث کی شرح ملاحظہ فرمالیتے۔وہاں آپ کو علمائے امت کے اقوال اور ارشادات مل جائیں گے جس سے ان شاء اللہ ذہن کا غبار دھل جائے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کی موافقت اور اصحاب نے بھی کی ، یہ میرا نہیں حضرت ابن عباس کی روایت کا حصہ ہے جس میں اصحاب کے اسماء گرامی کا تعین نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں شرح نووی ۔ یہاں بھی یہ روایت درج کررہا ہوں۔


وفي رواية: قوله: (فقال عمر رضي الله عنه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا)ثم ذكر أن بعضهم أراد الكتاب وبعضهم وافق عمر، وأنه لما أكثروا اللغو وإِلاختلاف قال النبي صلى الله عليه وسلم قوموا.

امام نووی فرماتے ہیں کہ علمائے متکلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ان کی فضیلت ، تفقہ اور بالغ نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہم سے زیادہ اس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ اپنی امت کیلئے فکرمند رہتے تھے لہذا مرض وفات میں بھی آپ ﷺ کو امت کی فکر دامنگیر ہوئی اور کچھ لکھوانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو پالیا (اس کے علاوہ اور بھی وجوہات علماء نے بیان کی ہیں ، ملاحظہ کیجئے شرح امام نووی ) چنانچہ انہوں نے قرآن کریم کی آیات
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ {المائدة: 67
کے ضمن میں فرمایا کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے۔ گویا وہ فرما رہے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ، امت کا غم نہ کھایئے ۔ یقینا آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا کردیا ہے اور آپ اللہ کا پیغام اور حکم کما حقہ ہم تک پہنچا چکے ہیں (فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی حاضرین سے گواہی مانگنے اور صحابہ رضی اللہ عنھم کا جواب ذہن میں رکھیے ) لہذا قرآن کریم کے ہوتے ہوئے امت گمراہ نہ ہوگی۔امام بیہقی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد رسول اللہ کی پریشانی اور فکر میں تخفیف کرنا تھا کیونکہ آپ ﷺ کی طبیعت سخت ناساز تھی۔ صلی اللہ علیک یا سیدی الف الف سلام ۔ حضرت عمر کے الفاظ
وسلم قد غلب عليه الوجع ( آپ ﷺ پر درد و تکلیف کا غلبہ ہے ) خود ہی تفسیر کر رہے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی رائے کو قبول کیا اور بغیر کچھ لکھوائے سب کو رخصت ہوجانے کا حکم دیا۔ اگر کچھ لکھوانا اَمر مِن اللہ (اللہ کی طرف سے حکم ) ہوتا تو اللہ کے رسول اسی وقت لکھوادیتے بلکہ اس کے بعد بھی جب کہ آپ ﷺ اس واقعے کے بعد دو روز تک حیات رہے ، لکھوادیتے۔
یہ توضیحات میری نہیں بلکہ علمائے امت کے مؤقف اور آراء کامخلص ہے ۔
عربی میں یہ روابط ملاحظہ فرمائیں۔
http://www.iid-alraid.de/hadeethlib/Books/22/sharh126.htm
http://bayanelislam.net/Suspicion.aspx?id=03-02-0045&value=&type=
http://www.burhaniya.org/questions/query22.htm
http://islamqa.info/ar/ref/154865

صلی الله عليك يا سيدي وسلم تسليما كثيرا ۔

اللهم فاشهد أني دافعت عن حديث رسولك ﷺ و موقف الصحابي و موقف أهل السنة.​

برادرم فرسان اگر کہیں میرے فہم میں نقص ہے تو میری اصلاح فرمادیں ۔ میں ممنون ہوں گا۔
 

فرسان

محفلین
مديران سے استدعا هے كه اختلافي مسائل كو هوا دينے والے موضوعات كو عموما اور اس موضوع كو خصوصا دفع دور كيا جائے اور يه دھاگه لپیٹا جائے۔

ورنه فقير بھي كافي كوفي شافي طوسي كليني طبرسي جفر كتاب الأظله اور بهت كچھ اختلافات كا بحار الأظلام بنا ڈالنے كي طرف توجه دينے كي جسارت كر بيٹھے گا۔

مگر بهتر هے كه بات يهاں ختم كي جائے۔ اور اس دھاگے كو بالكل حذف كيا جائے۔
 

نایاب

لائبریرین
ناياب صاحب ! آپ كے خيال ميں اس حديث قرطاس كا كيا جواب هے؟

ذرا واضح اور نكته پر مركوز تحرير فرايے گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہم سے زیادہ اس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ اپنی امت کیلئے فکرمند رہتے تھے لہذا مرض وفات میں بھی آپ ﷺ کو امت کی فکر دامنگیر ہوئی اور کچھ لکھوانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو پالیا (اس کے علاوہ اور بھی وجوہات علماء نے بیان کی ہیں ، ملاحظہ کیجئے شرح امام نووی ) چنانچہ انہوں نے قرآن کریم کی آیات
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ {المائدة: 67
کے ضمن میں فرمایا کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے۔ گویا وہ فرما رہے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ، امت کا غم نہ کھایئے ۔ یقینا آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا کردیا ہے اور آپ اللہ کا پیغام اور حکم کما حقہ ہم تک پہنچا چکے ہیں (فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی حاضرین سے گواہی مانگنے اور صحابہ رضی اللہ عنھم کا جواب ذہن میں رکھیے ) لہذا قرآن کریم کے ہوتے ہوئے امت گمراہ نہ ہوگی۔امام بیہقی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد رسول اللہ کی پریشانی اور فکر میں تخفیف کرنا تھا کیونکہ آپ ﷺ کی طبیعت سخت ناساز تھی۔ صلی اللہ علیک یا سیدی الف الف سلام ۔ حضرت عمر کے الفاظ
وسلم قد غلب عليه الوجع ( آپ ﷺ پر درد و تکلیف کا غلبہ ہے ) خود ہی تفسیر کر رہے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی رائے کو قبول کیا اور بغیر کچھ لکھوائے سب کو رخصت ہوجانے کا حکم دیا۔ اگر کچھ لکھوانا اَمر مِن اللہ (اللہ کی طرف سے حکم ) ہوتا تو اللہ کے رسول اسی وقت لکھوادیتے بلکہ اس کے بعد بھی جب کہ آپ ﷺ اس واقعے کے بعد دو روز تک حیات رہے ، لکھوادیتے۔

میرے محترم بھائی
آپ پر سلامتی ہو سدا ۔
مجھے یقین ہے کہ قران فہمی میں آپ مجھ جاہل سے بہت بلند سطح پر ہوں گے ۔
اپنے جس مقرب بندے کے بارے اللہ تعالی سورة النجم کی اس آیتِ مبارکہ میں فرمائے کہ
وماینطق عن الھوی ۔ان ھو الا وحی یوحٰی
وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بھی نہیں کہتے ،جوکچھ وہ کہتے ہیں وہ وحی ہوتیہے ۔
اس کے کسی فرمان پر کسی بھی درجے کی حامل ہستی کیسے اعتراض کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
" امت کا غم نہ کیجیئے " آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درد و تکلیف کا غلبہ ہے " (ہذیان طاری ہے کے الفاظ بھی ملتے ہیں )
ان کلمات کی نسبت صرف اور صرف جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کی جانب کی جاتی ہے اور کسی دوسرے جلیل القدر اصحاب کا اسم گرامی نہیں ملتا ۔ اس واقعے پر غور کرتے جناب عمر فاروق کی شخصیت کو بھی ذہن میں رکھیئے ۔ اور پھر آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد دفن میں تاخیر بھی سامنے رہے کہ " امت کی گمراہی کا کون سا سبب تھا " جس نے دفن میں تاخیر کی ۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ نے وسلم نے اپنی خواہش نفس سے کوئی ایسی تحریر لکھوانا چاہی جو کہ ان کے نزدیک امت کے لیئے مفید ہوتی ۔ تو پھر آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سورت النجم میں بیان کردہ اللہ کی گواہی کے حق دار نہیں ٹھہرتے ۔
کتنی عجب بات ہے کہ صرف حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اپنی فہم و فراست سے یہ حقیقت پا لی کہ آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت " مرض الموت " میں مبتلا ہیں ۔ اور امت کے بارے فکرمندی میں اپنی مرضی سے کوئی تحریر لکھوانا چاہتے ہیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ ہستی مبارک ہیں جن پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ۔ وہ اللہ کا رسول " مرض الموت " کی شدت میں بھی امت کی فکر میں مبتلا ہے ۔ اور وہ ہستی جو ہمیشہ اس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحتوں سے مشرف ہوتی ہے ۔ وہ ان کے کلام پر اپنے فہم و فراست کو مقدم کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید وضاحت صرف اور صرف انتشار و فساد کا باعث ہو گی ۔ اس لیئے بصد معذرت مزید مکالمے سے معذور ہوں ۔
اللہ تعالی ہم سب کو قران پاک میں تفکر کی توفیق سے نوازے اور تاریخ اسلام بارے ہمیں کسی بھی شخصیت پرستی سے دور رکھے آمین
 
میرے محترم بھائی
آپ پر سلامتی ہو سدا ۔
مجھے یقین ہے کہ قران فہمی میں آپ مجھ جاہل سے بہت بلند سطح پر ہوں گے ۔
اپنے جس مقرب بندے کے بارے اللہ تعالی سورة النجم کی اس آیتِ مبارکہ میں فرمائے کہ
وماینطق عن الھوی ۔ان ھو الا وحی یوحٰی
وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بھی نہیں کہتے ،جوکچھ وہ کہتے ہیں وہ وحی ہوتیہے ۔
اس کے کسی فرمان پر کسی بھی درجے کی حامل ہستی کیسے اعتراض کر سکتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
" امت کا غم نہ کیجیئے " آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درد و تکلیف کا غلبہ ہے " (ہذیان طاری ہے کے الفاظ بھی ملتے ہیں )
ان کلمات کی نسبت صرف اور صرف جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کی جانب کی جاتی ہے اور کسی دوسرے جلیل القدر اصحاب کا اسم گرامی نہیں ملتا ۔ اس واقعے پر غور کرتے جناب عمر فاروق کی شخصیت کو بھی ذہن میں رکھیئے ۔ اور پھر آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد دفن میں تاخیر بھی سامنے رہے کہ " امت کی گمراہی کا کون سا سبب تھا " جس نے دفن میں تاخیر کی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ نے وسلم نے اپنی خواہش نفس سے کوئی ایسی تحریر لکھوانا چاہی جو کہ ان کے نزدیک امت کے لیئے مفید ہوتی ۔ تو پھر آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سورت النجم میں بیان کردہ اللہ کی گواہی کے حق دار نہیں ٹھہرتے ۔
کتنی عجب بات ہے کہ صرف حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اپنی فہم و فراست سے یہ حقیقت پا لی کہ آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت " مرض الموت " میں مبتلا ہیں ۔ اور امت کے بارے فکرمندی میں اپنی مرضی سے کوئی تحریر لکھوانا چاہتے ہیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ ہستی مبارک ہیں جن پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ۔ وہ اللہ کا رسول " مرض الموت " کی شدت میں بھی امت کی فکر میں مبتلا ہے ۔ اور وہ ہستی جو ہمیشہ اس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحتوں سے مشرف ہوتی ہے ۔ وہ ان کے کلام پر اپنے فہم و فراست کو مقدم کر رہا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
مزید وضاحت صرف اور صرف انتشار و فساد کا باعث ہو گی ۔ اس لیئے بصد معذرت مزید مکالمے سے معذور ہوں ۔
اللہ تعالی ہم سب کو قران پاک میں تفکر کی توفیق سے نوازے اور تاریخ اسلام بارے ہمیں کسی بھی شخصیت پرستی سے دور رکھے آمین
اس حدیث کی جتنی بھی وضاحتیں کی جائیں، اسکے Negative Consequences اتنے خطرناک ہیں کہ ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ اس طرح پیش نہ آیا ہو جس طرح روایت میں درج ہے۔۔۔ہمارے لئے بجائے اسکے کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم جیسی جلیل القدر ہستی کے بارے میں ایسا گمان رکھا جائے جو انکے شایانِ شان نہیں ہے، یہ زیادہ بہتر لگتا ہے کہ اس روایت کو سند کی بجائے درایت کے اصول پر نظر رکھتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے کیونکہ راوی بھی آخر انسان ہیں، کہیں نہ کہیں غلطی کرسکتے ہیں ۔ معمولی سے الفاظ کے تغیر سے بات کہاں کی کہاں پہنچ جاتی ہے۔ مثلاّ جسطرح کفایت ہاشمی صاحب نے لکھا کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر کا یہ فعل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علالت اور تکلیف کی حالت میں زحمت سے بچانا ہو اور انکا مقصد ہو کہ وقتی طور پر انکو"ہمارے لئے کتاب اللہ کافی ہے" کا جملہ کہہ کر زحمت سے بچا کر آرام کرنے دیا جائے۔ اگر یہ واقعہ گذرا ہے تو یقیناّ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ لیکن کیا کیا جائے جب راویانِ حدیث بیچ میں ایسے الفاظ بھی شامل کردیتے ہیں جن سے اس رائے کا دفاع کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ۔۔چنانچہ یہ کہنا زیادہ بہتر لگتا ہے کہ ہوسکتا ہے کسی راوی کو مغالطہ لگا ہو ان مخصوص الفاظ کے حوالے سے۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
 

فرسان

محفلین
ناياب صاحب ميں آپ كي بات سمجھ چكا هوں۔

حضرت علي رضي الله عنه بھي وهيں تھے۔ مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بے بس تھے۔

شير الله اور بے بس !!!

اگر آپ کی مان لی جاے جو نه صرف بے بس بلکہ نهج البلاغة ميں تاخير كرنے والوں كي تعريف وتوصيف كركے گئے۔

مگر حقيقت يه هے كه آپ کی ساري بات هي بے سروپا هے لهذا اسكے سارے نتائج بھی باطل۔

میرے محترم بھائی
آپ پر سلامتی ہو سدا ۔
مجھے یقین ہے کہ قران فہمی میں آپ مجھ جاہل سے بہت بلند سطح پر ہوں گے ۔
آمین

اگر يقين سچا ہے تو آئيے هم فقيروں سے سيكھئے اور الله کے پیاروں سے بدگمانی كو راسته نه ديجئے۔

باقي آپ گریز کریں تو دانا كهلائيں گے۔

تاریخ اسلام بارے ہمیں کسی بھی شخصیت پرستی سے دور رکھے آمین


ان شخصيات ميں حضرت علي رضي الله عنه اور حضرت حسنين رضي الله عنه بھي شامل هيں۔ يا كهيں كهيں "پرستی" كي اجازت هے؟؟؟
 
مديران سے استدعا هے كه اختلافي مسائل كو هوا دينے والے موضوعات كو عموما اور اس موضوع كو خصوصا دفع دور كيا جائے اور يه دھاگه لپیٹا جائے۔

ورنه فقير بھي كافي كوفي شافي طوسي كليني طبرسي جفر كتاب الأظله اور بهت كچھ اختلافات كا بحار الأظلام بنا ڈالنے كي طرف توجه دينے كي جسارت كر بيٹھے گا۔

مگر بهتر هے كه بات يهاں ختم كي جائے۔ اور اس دھاگے كو بالكل حذف كيا جائے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ اختلافی مسائل کو ہوا دینے والے موضوعات کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئیے۔
یہ دھاگہ اہلِ تشیع میں سے کسی شخص نے شروع نہیں کیا بلکہ جن صاحب نے اسے شروع کیا ہے انہیں معروف معنوں میں منکرِ حدیث کہا جاتا ہے اور وہ خود کو اہلِ قرآن کہتے ہیں۔
ان صاحب کا کہنا ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی کچھ غلط روایات موجود ہیں۔ اگرچہ جس کتاب کا انہوں نے لنک دیا ہے اسکا طرز ِ تحریر عالمانہ نہیں ہے بلکہ خاصا اشتعال انگیز ہے، جسکی حمایت کوئی بھی سمجھدار انسان نہیں کرے گا۔ لیکن اگر یہاں ایک حدیث زیرِ بحث آہی گئی ہے (اور اسکو زیرِ بحث لانے والے رکن بھی شیعہ نہیں ہیں) تو اس دھاگے کو شیعہ سنی کے تناظر میں دیکھنا، میرے خیال میں درست نہ ہوگا۔
اور یہ کوئی تحقیقی رویہ نہیں ہے کہ "تم ہماری کتب میں سے ایسی روایتوں کو نہ چھیڑو جنکی توجیہہ مشکل ہو، ورنہ ہم بھی تمہاری کتب میں سے ایسی روایتیں ڈھونڈ کر انکا انبار لگا دیں گے"۔۔اس رویے کے نتیجے میں شیعہ سنی کی بھث تو ضرور چھڑ جائے گی، لیکن دھاگہ شروع کرنے والے رکن کے نظریے کو آپ نادانستگی میں تقویت ضرور پہنچارہے ہونگے اور وہ موصوف دور کہیں بیٹھے ہم سب پر ہنس رہیں ہونگے ۔:)
والسلام
 

فرسان

محفلین
ينطق كا مطلب لكھوانا نهيں هوتا اور نه الھوى كا وه مفهوم هے جس كي طرف آپ بلا رہے ہیں۔

جو چيزيں سيدي صلى الله عليه وسلم لكھوانا چاهتے تھے وه سيدي صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرما دي تھی۔

مگر ان ميں امامت اور وصيت وغيره كو فائده دينے والا ادنى اشاره بھی نهيں۔ لهذا آپ مايوس هونگے۔ بالكل ويسے هي جيسے قرآن اس نص سے خالي هے۔
 

ساجد

محفلین
کفایت ہاشمی صاحب ، مدیران کی نظر ہر اس دھاگے پر ہوتی ہے جس میں ماحول کی خرابی کا ذرا سا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ آپ مطمئن رہیں ہم صورت حال کو قابو کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی بات آپ کے نظریات کے خلاف ہو رہی ہے تو اس کی بنیاد پر دھاگے کی تقفیل کا مطالبہ کرنے کی بجائے ، مختلف دھاگوں میں پیش کردہ اپنے مراسلات میں دوسروں کے عقائد کو رگڑا دینے کی طرف بھی دھیان کیجئے ۔ اگر آپ نے تب یہ بات سوچی ہوتی تو اب تقفیل کا مطالبہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ایک اور دھاگے میں شمشاد بھائی نے آپ سے گزارش بھی کی تھی کہ آپ نے اپنی بات کہہ لی ہے اب کوئی مانے یا نہ مانے آپ اس سے زیادہ کے مکلف نہیں ہیں لیکن آپ نے اس کے بعد تمام مسالک کے عقائد پر تنقید کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
یہ واضح کر دوں کہ یہاں ہر طبقے کو اپنا مؤقف بیان کرنے کی آزادی ہے لیکن یہ آزادی دوسروں کے مذہبی اور مسلکی عقائد پر تنقید و تنقیص تک ہرگز محیط نہیں ہے۔
یہ دھاگہ ابھی چل رہا ہے ، اگرچہ میں اسے شروع میں ہی بند کرنے کے حق میں تھا لیکن چند اراکین تب مجھ پر جانبداری کا ٹوکرا انڈیلنے سے باز نہ آتے اب جبکہ آپ تمام اہل علم اپنے اپنے ”جوہر“ خوب توانائی سے دکھا رہے ہیں میں اس انتظار میں ہوں کہ اس کو میں کوئی تو مثبت بات میرے یا کسی معزز رکن کے پلے پڑے یا کم از کم آپ لوگوں کو ہی احساس ہو جائے کہ ہٹ دھرمی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کچھ بھی وقوع پذیر نہ ہوا تو انتظامیہ بہتر سمجھتی ہے کہ اسے کب بند کر دیا جائے۔
 

ساجد

محفلین
فرسان صاحب ، کسی دوسرے مسلک کا نام لے کر رپورٹ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اظہار خیال کے اختلاف کو برداشت کرنے کا زیادہ حوصلہ نہیں رکھتے۔ حضرت ، مبلغین کو تو بہت بردباد ہونا پڑتا ہے ۔ جب کوئی بھی آپ کے عقائد پر تنقیص کرے گا تو آپ کی رپورٹ پر ایک لمحے پر کارراوئی کی جائے گی لیکن فی الحال دوسرے بھی اپنا مؤقف ہی بیان کر رہے ہیں۔
جب دھاگہ بند کرنا ہو گا تو آپ کی جانب سے کسی ہدایت کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔
 

ساجد

محفلین
یہ دھاگہ اہلِ تشیع میں سے کسی شخص نے شروع نہیں کیا بلکہ جن صاحب نے اسے شروع کیا ہے انہیں معروف معنوں میں منکرِ حدیث کہا جاتا ہے اور وہ خود کو اہلِ قرآن کہتے ہیں۔
میں یہ دھاگہ شروع ہی میں اس لئے ختم کرنے سے باز رہا کہ اولین مراسلہ کے جواب میں ایک اور کتاب کا لنک پیش کیا گیا اور اگر اس وقت یہ کیا جاتا تو فریق ثانی حسبِ سابق مجھ پرجانبداری کا الزام جڑ دیتا۔ اب جن بوتل سے باہر نکل ہی آیا ہے تو اس کی جناتی کرشمہ سازیوں کا کچھ تو پر تو نظر آئے گا۔:)
 

فرسان

محفلین
اور یہ کوئی تحقیقی رویہ نہیں ہے کہ "تم ہماری کتب میں سے ایسی روایتوں کو نہ چھیڑو جنکی توجیہہ مشکل ہو، ورنہ ہم بھی تمہاری کتب میں سے ایسی روایتیں ڈھونڈ کر انکا انبار لگا دیں گے"۔۔اس رویے کے نتیجے میں شیعہ سنی کی بھث تو ضرور چھڑ جائے گی، لیکن دھاگہ شروع کرنے والے رکن کے نظریے کو آپ نادانستگی میں تقویت ضرور پہنچارہے ہونگے اور وہ موصوف دور کہیں بیٹھے ہم سب پر ہنس رہیں ہونگے ۔:)
والسلام
بلا شبه اور اس ماحول ميں تحقيقي رويه برقرار ركھنا مشكل هے۔

لهذا طبيعت دوسري طرف مائل هو هي جاتي هے۔

ياد رهے انسان دل ودماغ كا مركب ہے۔

اگر ميرے كسي محبوب كو كسي كنايه ميں سواليه نشان بنايا جائے تو بھاڑ ميں گئي ميري تحقيق پسندي۔
 
کفایت ہاشمی اگر کوئی بات آپ کے نظریات کے خلاف ہو رہی ہے تو اس کی بنیاد پر دھاگے کی تقفیل کا مطالبہ کرنے کی بجائے ، مختلف دھاگوں میں پیش کردہ اپنے مراسلات میں دوسروں کے عقائد کو رگڑا دینے کی طرف بھی دھیان کیجئے ۔ اگر آپ نے تب یہ بات سوچی ہوتی تو اب تقفیل کا مطالبہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ایک اور دھاگے میں شمشاد بھائی نے آپ سے گزارش بھی کی تھی کہ آپ نے اپنی بات کہہ لی ہے اب کوئی مانے یا نہ مانے آپ اس سے زیادہ کے مکلف نہیں ہیں لیکن آپ نے اس کے بعد تمام مسالک کے عقائد پر تنقید کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔

محترمی۔ میں نے بحث و مباحثہ سے کبھی جی نہیں چرایا اور حق بات کہنے پر مجھے کسی لومۃ لائم کی بھی پرواہ نہیں ہوتی الحمدللہ۔​
جس پوسٹ کے حوالے میں نے یہ گزارش کی تھی تو آپ اسے خود ٹھنڈے دل سے پڑھ لیں کہ اس میں کس طرح خیر القرون کے اصحاب عالی مقام کو اپنی عقل کی کسوٹی پر کس کر طنز و تعریض کا نشانہ بنایا ہے۔یہ بات ہمارے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔​
آپ کے مشورے کا شکریہ۔ میں نے کسی بھی شخصیت کا نام لے کر اپنی آلودہ سوچ کا اظہار نہیں کیا کیونکہ باقیوں کی طرف سے جن محترم شخصیات سے عقیدت کا دم بھراجاتا ہے ، میں اپنے آپ کو ان کے پیروں کی دھول بلکہ اس سے بھی حقیر شے سمجھتا ہوں ۔البتہ میں غلو نہیں کرتا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے تمام پاک نفوس کو اپنا مقتدیٰ اور رہبر مانتا ہوں اور کسی کے بھی خلاف زبان طعن دراز کرنے کو برداشت نہیں کرسکتا۔
بلاشبہ میں نے اپنی بات کہہ لی تھی لیکن فتنہ پروں کی باتوں کا جواب نہ دیا جائے تو اور کیا کیا جائے ؟​
جس بات کی طرف آپ نے رگڑا دینے کا اشارہ کیا ہے، وہ رسومات اور تہواروں پر بغیر تخصیص تنقید تھی، اسے عقائد میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ براہ کرم دونوں کو ایک تناظر میں نہ دیکھیں۔​
برادرم محمود احمد غزنوی سے عرض ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کی جو حکمت میں نے نقل کی تھی ، وہ امام بیہقی کے قول اور دوسرے ائمہ مثلا امام خطابی وغیرہ کے اقوال سے اخذ کردہ ہے اور بعض علماء کے نزدیک "حسبنا کتاب اللہ " کا تخاطب رسول اللہ ﷺ کے قول مبارک کی طرف نہیں تھا بلکہ ان اصحاب کی طرف تھا جو لکھوانے اور نہ لکھوانے کی رائے رکھتے تھے۔​
کاغذ و قلم طلب کرنے کا واقعہ جمعرات کے دن کا ہے جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بتصریح مذکور ہے اور چونکہ نبی پا کﷺ نے دوشنبہ کے دن انتقال فرمایا اس لیے اس واقعہ کے بعد رسول اللہ ﷺ 4 دن تک زندہ رہے ۔میں نے دو دن کا ذکر کیا تھا جو میری غلطی تھی اور میں اس کی تصحیح کرتا ہوں۔ اللہ کریم میری کوتاہی معاف فرمائے۔ آمین​
امام بیقہی اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں رقم طراز ہیں : " اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی واجب امر جس کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا کے لکھوانے کا ارادہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے باہمی اختلاف اور شور کرنے کی وجہ سے اُسے ترک نہیں فرماسکتے تھے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: تمہارے رب کی طرف سے جو چیز تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ،اس کو پہنچائیے“ ،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفین کی مخالفت اور دشمنوں کی دشمنی کی وجہ سے تبلیغ دین کا عمل کبھی ترک نہیں فرمایا تھا۔ٌ​
ساجد بھائی ! آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر ۔​
 
Top