میرے محترم بھائی جزاک اللہ خیراء ۔
میں جاہل ہی سہی ۔ آپ تو ماشاءاللہ صاحب علم محقق ہیں ۔
نہیں بھائی صاحب ۔ میں کوئی صاحب علم محقق نہیں۔ بلکہ قرآن و سنت کا ادنیٰ طالب علم ہوں۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے ساتھ اجتہاد میں شامل دوسرے اصحاب بارے معلومات فراہم کر دیتے ۔
اگر کبھی وقت اجازت دے تو " موطا " امام مالک رحمتہ اللہ علیہ ۔ البدایہ و النہایہ کا بھی مطالعہ کیجئے گا ۔ شاید کہ " واقعہ قلم و قرطاس " آپ پر کھل جائے ۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ میرا مشورہ مان کر صحیح مسلم شرح امام نووی میں کتاب الوصیۃ باب
ترك الوصية لمن ليس له شيء يوصي فيه
میں اس حدیث کی شرح ملاحظہ فرمالیتے۔وہاں آپ کو علمائے امت کے اقوال اور ارشادات مل جائیں گے جس سے ان شاء اللہ ذہن کا غبار دھل جائے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کی موافقت اور اصحاب نے بھی کی ، یہ میرا نہیں حضرت ابن عباس کی روایت کا حصہ ہے جس میں اصحاب کے اسماء گرامی کا تعین نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں شرح نووی ۔ یہاں بھی یہ روایت درج کررہا ہوں۔
وفي رواية: قوله: (فقال عمر رضي الله عنه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا)ثم ذكر أن بعضهم أراد الكتاب وبعضهم وافق عمر، وأنه لما أكثروا اللغو وإِلاختلاف قال النبي صلى الله عليه وسلم قوموا.
امام نووی فرماتے ہیں کہ علمائے متکلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ان کی فضیلت ، تفقہ اور بالغ نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہم سے زیادہ اس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ اپنی امت کیلئے فکرمند رہتے تھے لہذا مرض وفات میں بھی آپ ﷺ کو امت کی فکر دامنگیر ہوئی اور کچھ لکھوانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو پالیا (اس کے علاوہ اور بھی وجوہات علماء نے بیان کی ہیں ، ملاحظہ کیجئے شرح امام نووی ) چنانچہ انہوں نے قرآن کریم کی آیات
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ {المائدة: 67
کے ضمن میں فرمایا کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے۔ گویا وہ فرما رہے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ، امت کا غم نہ کھایئے ۔ یقینا آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا کردیا ہے اور آپ اللہ کا پیغام اور حکم کما حقہ ہم تک پہنچا چکے ہیں (فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی حاضرین سے گواہی مانگنے اور صحابہ رضی اللہ عنھم کا جواب ذہن میں رکھیے ) لہذا قرآن کریم کے ہوتے ہوئے امت گمراہ نہ ہوگی۔امام بیہقی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد رسول اللہ کی پریشانی اور فکر میں تخفیف کرنا تھا کیونکہ آپ ﷺ کی طبیعت سخت ناساز تھی۔ صلی اللہ علیک یا سیدی الف الف سلام ۔ حضرت عمر کے الفاظ
وسلم قد غلب عليه الوجع ( آپ ﷺ پر درد و تکلیف کا غلبہ ہے ) خود ہی تفسیر کر رہے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی رائے کو قبول کیا اور بغیر کچھ لکھوائے سب کو رخصت ہوجانے کا حکم دیا۔ اگر کچھ لکھوانا اَمر مِن اللہ (اللہ کی طرف سے حکم ) ہوتا تو اللہ کے رسول اسی وقت لکھوادیتے بلکہ اس کے بعد بھی جب کہ آپ ﷺ اس واقعے کے بعد دو روز تک حیات رہے ، لکھوادیتے۔
یہ توضیحات میری نہیں بلکہ علمائے امت کے مؤقف اور آراء کامخلص ہے ۔
عربی میں یہ روابط ملاحظہ فرمائیں۔
http://www.iid-alraid.de/hadeethlib/Books/22/sharh126.htm
http://bayanelislam.net/Suspicion.aspx?id=03-02-0045&value=&type=
http://www.burhaniya.org/questions/query22.htm
http://islamqa.info/ar/ref/154865
صلی الله عليك يا سيدي وسلم تسليما كثيرا ۔
اللهم فاشهد أني دافعت عن حديث رسولك ﷺ و موقف الصحابي و موقف أهل السنة.
برادرم
فرسان اگر کہیں میرے فہم میں نقص ہے تو میری اصلاح فرمادیں ۔ میں ممنون ہوں گا۔