راحیل فاروق
محفلین
ہم نے الائیڈ بینک کے سامنے کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ ناچار ہم نےان کا نمبر ملا کر علمِ جغرافیہ کے مبادیات زیرِ بحث لانے کا فیصلہ کیا۔ ابھی نیت ہی باندھ رہے تھے کہ موصوف نے چہک کر فرمایا، "میں نے آپ کو دیکھ لیا ہے۔"
اس سے پہلے کہ ہم انھیں مبارک باد دیتے، کچھ فاصلے پہ کھڑا ہوا ایک طوالت مآب قسم کا شخص داڑھی سمیت ہماری طرف لپکا اور بغل گیر ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر ہم نے بھی پنجے اٹھا اٹھا کر ساتھ دینا چاہا مگر ہنسلی کی ہڈی چوم کر نیچے آ رہے۔ پھر ہم نے ان کا نام پوچھ کر تسلی کی کہ معانقہ ضائع تو نہیں ہو رہا۔ انھوں نے ہمیں چھوڑ کر شناخت کروائی اور شرمانے لگے۔
انھیں لے کر گھر کو نکلے۔ عجیب آدمی ہیں۔ ساری راہ شرماتے رہے۔ یعنی اتنا کہ خود ہمیں بھی لاج آنے لگی۔ گھر پہنچ کر ہم نے باتیں شروع کر دیں۔ ہم سے مراد فقط راقم الحروف ہے۔ انھوں نے البتہ ہمیں اور ہماری باتوں کو گوزِ شتر سے زیادہ اہمیت بالکل نہ دی۔ بہتیرا سر کھپایا۔ جگتیں ماریں۔ سوال پوچھے۔ شدید متنازع موضوعات چھیڑے۔ مگر موصوف نے ہوں ہاں پر ہی توکل فرمایا۔ اتنی دیر میں کھانے کا وقت ہو گیا۔ خوش قسمتی سے مرچیں زیادہ تھیں۔کھا تو گئے پر باتیں کرنے لگے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے!
پہلی طبع زاد بات جو انھوں نے کی وہ جیسا کہ ایسے موقعوں کا دستور ہے، ایک سوال تھا۔ ہم سے پوچھا کہ ہم کن کن محفلین سے ملے ہیں۔ ہم نے کراچی کی ملاقات والے لوگ گنوا دیے۔ دوسری طبع زاد بات بھی خلافِ دستور سوال ہی تھی۔ کہنے لگے، بس؟ اب کے ہم نے ہوں ہاں پر اکتفا کیا۔ انھیں کیا بتاتے کہ باقی ملنے والے وصیت کر گئے ہیں کہ ملاقات کی روئیداد کچھ لوگوں کے مرنے تک ہرگز شائع نہ کی جائے۔
خیر، رفتہ رفتہ کھل گئے۔ کافی باتیں ہوئیں۔ ماضی کی شرمندگیوں سے لے کر مستقبل کی تابندگیوں اور ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر عارف کریم تک بہت موضوعات زیرِ بحث رہے۔ کچھ محفلین کے ذکر پر تو اتنا کھلکھلا کر ہنسے کہ پلنگ سے آدھے صوفے پر جا رہے۔ واپس آ کر بھی دو دانت نکلے ہی رہے۔ ادب دوست سے اس دوران میں فون پر بات ہوئی۔ احمد بھائی سے بھی گفتگو کا ارادہ تھا مگر بوجوہ پورا نہ ہو سکا۔ باقی احباب کے علاوہ تابش بھائی اور اے خان کا تادیر ذکر رہا۔ پھر انھوں نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی۔ اللہ کمی بیشی معاف فرمائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بالکل قریب ہی جائے نماز بچھا کر پڑھی۔ مسجد نہیں گئے۔ یہ بھی ان کی محبت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔
کئی بار دورانِ گفتگو میں پھر سے جھجکنے لگے۔ ہم نے گھورا تو لجا کر فرمایا، "وہ۔۔ ایک گندی سی بات ہے۔۔۔" ہم ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کوئی بالکل ہی بے ضرر سی بات کہہ دی اور سر جھکا کر کھی کھی کرنے لگے۔ دو چار بار تو ہم بھی اخلاقاً ہنسے مگر بعد میں بڑی کوفت ہوئی۔ انھیں بھی شاید احساس ہو گیا۔ اس کے بعد کئی نسبتاً زیادہ گندی باتیں بغیر تمہید کے ارشاد فرمائیں۔ بارے دونوں کو اطمینان ہوا۔
ہم نے انھیں رات ٹھہرنے کی دعوت دی تو فرمایا، "آپ کو تکلیف ہو گی۔" ہم نے عرض کیا، "بندہ پرور! بستر ہم کرائے پر نہیں لائے۔ بلا تکلف استراحت فرمائیے۔" شرما کر کہنے لگے، "میں رات کو خراٹے بھی لیتا ہوں۔" ہم نے اسے ان کے انکسار پر محمول کیا۔ رات کو سوئے تو معلوم ہوا کہ واقعی خراٹے لیتے ہیں۔ عجیب ماحول پیدا ہو گیا۔ ہم اس قسم کے حالات میں عموماً غزل لکھتے ہیں۔ مگر اس رات شدید تنافر پیدا ہو جانے کا خطرہ تھا۔ لہٰذا ہم بھی لحاف اوڑھ کر عصمت چغتائی کے بارے میں سوچتے رہے۔
علیٰ الصبح بھائی نے جانے پر کمر باندھی۔ ہم نے روکا مگر شاید انھیں اپنے جرم کا احساس دم نہیں لینے دے رہا تھا۔ بار بار شکریہ ادا کر رہے تھے۔ گلے مل کر رخصت ہوئے۔ اس بار ہم نے ان کی پسلیوں کو نہایت عقیدت سے بوسے دیے۔
موصوف سے جب ملاقات کا منصوبہ بن رہا تھا تو انھوں نے بارہا ہمیں متنبہ کرنے کے انداز میں بتایا تھا کہ ہمیں ان سے مل کر بہت مایوسی ہو گی۔ ہم دل ہی دل میں ہنستے تھے کہ بھولے بادشاہ، مردوں پر تو ہم عاشق ہوتے ہی نہیں۔ فکر کاہے کی؟ مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر شرمانے والے، چھوٹے چھوٹے چٹکلوں پر جی بھر کر ہنسنے والے اور چھوٹی چھوٹی محبتوں کا ڈھیروں شکریہ ادا کرنے والے اس معصوم سے بھائی نے ہمیں اپنا گرویدہ کر ہی لیا۔ سدا سلامت رہیں، بدر الفاتح بھائی۔ ہم ابھی سے آپ کے لیے اداس ہونے لگے ہیں۔
اردو محفل کا بہت شکریہ۔ ہمارے کئی استاد، بہن بھائی، محبوب، دوست، محسن ہمیں یہاں سے میسر آئے۔ کبھی کبھی دکھ ہوتا ہے کہ زندگی ہمارے مطابق نہیں گزرتی۔ ہم زندگی کے مطابق چلنے پر مجبور ہیں۔ ممکن ہےمحفل کا اور ہمارا تعلق کسی دن منقطع بھی ہو جائے۔ مگر وقت کی زنجیر میں یہ جو چند حسین کڑیاں آ گئی ہیں انھیں اب کون نکال سکتا ہے؟
اس سے پہلے کہ ہم انھیں مبارک باد دیتے، کچھ فاصلے پہ کھڑا ہوا ایک طوالت مآب قسم کا شخص داڑھی سمیت ہماری طرف لپکا اور بغل گیر ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر ہم نے بھی پنجے اٹھا اٹھا کر ساتھ دینا چاہا مگر ہنسلی کی ہڈی چوم کر نیچے آ رہے۔ پھر ہم نے ان کا نام پوچھ کر تسلی کی کہ معانقہ ضائع تو نہیں ہو رہا۔ انھوں نے ہمیں چھوڑ کر شناخت کروائی اور شرمانے لگے۔
انھیں لے کر گھر کو نکلے۔ عجیب آدمی ہیں۔ ساری راہ شرماتے رہے۔ یعنی اتنا کہ خود ہمیں بھی لاج آنے لگی۔ گھر پہنچ کر ہم نے باتیں شروع کر دیں۔ ہم سے مراد فقط راقم الحروف ہے۔ انھوں نے البتہ ہمیں اور ہماری باتوں کو گوزِ شتر سے زیادہ اہمیت بالکل نہ دی۔ بہتیرا سر کھپایا۔ جگتیں ماریں۔ سوال پوچھے۔ شدید متنازع موضوعات چھیڑے۔ مگر موصوف نے ہوں ہاں پر ہی توکل فرمایا۔ اتنی دیر میں کھانے کا وقت ہو گیا۔ خوش قسمتی سے مرچیں زیادہ تھیں۔کھا تو گئے پر باتیں کرنے لگے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے!
پہلی طبع زاد بات جو انھوں نے کی وہ جیسا کہ ایسے موقعوں کا دستور ہے، ایک سوال تھا۔ ہم سے پوچھا کہ ہم کن کن محفلین سے ملے ہیں۔ ہم نے کراچی کی ملاقات والے لوگ گنوا دیے۔ دوسری طبع زاد بات بھی خلافِ دستور سوال ہی تھی۔ کہنے لگے، بس؟ اب کے ہم نے ہوں ہاں پر اکتفا کیا۔ انھیں کیا بتاتے کہ باقی ملنے والے وصیت کر گئے ہیں کہ ملاقات کی روئیداد کچھ لوگوں کے مرنے تک ہرگز شائع نہ کی جائے۔
خیر، رفتہ رفتہ کھل گئے۔ کافی باتیں ہوئیں۔ ماضی کی شرمندگیوں سے لے کر مستقبل کی تابندگیوں اور ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر عارف کریم تک بہت موضوعات زیرِ بحث رہے۔ کچھ محفلین کے ذکر پر تو اتنا کھلکھلا کر ہنسے کہ پلنگ سے آدھے صوفے پر جا رہے۔ واپس آ کر بھی دو دانت نکلے ہی رہے۔ ادب دوست سے اس دوران میں فون پر بات ہوئی۔ احمد بھائی سے بھی گفتگو کا ارادہ تھا مگر بوجوہ پورا نہ ہو سکا۔ باقی احباب کے علاوہ تابش بھائی اور اے خان کا تادیر ذکر رہا۔ پھر انھوں نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی۔ اللہ کمی بیشی معاف فرمائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بالکل قریب ہی جائے نماز بچھا کر پڑھی۔ مسجد نہیں گئے۔ یہ بھی ان کی محبت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔
کئی بار دورانِ گفتگو میں پھر سے جھجکنے لگے۔ ہم نے گھورا تو لجا کر فرمایا، "وہ۔۔ ایک گندی سی بات ہے۔۔۔" ہم ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کوئی بالکل ہی بے ضرر سی بات کہہ دی اور سر جھکا کر کھی کھی کرنے لگے۔ دو چار بار تو ہم بھی اخلاقاً ہنسے مگر بعد میں بڑی کوفت ہوئی۔ انھیں بھی شاید احساس ہو گیا۔ اس کے بعد کئی نسبتاً زیادہ گندی باتیں بغیر تمہید کے ارشاد فرمائیں۔ بارے دونوں کو اطمینان ہوا۔
ہم نے انھیں رات ٹھہرنے کی دعوت دی تو فرمایا، "آپ کو تکلیف ہو گی۔" ہم نے عرض کیا، "بندہ پرور! بستر ہم کرائے پر نہیں لائے۔ بلا تکلف استراحت فرمائیے۔" شرما کر کہنے لگے، "میں رات کو خراٹے بھی لیتا ہوں۔" ہم نے اسے ان کے انکسار پر محمول کیا۔ رات کو سوئے تو معلوم ہوا کہ واقعی خراٹے لیتے ہیں۔ عجیب ماحول پیدا ہو گیا۔ ہم اس قسم کے حالات میں عموماً غزل لکھتے ہیں۔ مگر اس رات شدید تنافر پیدا ہو جانے کا خطرہ تھا۔ لہٰذا ہم بھی لحاف اوڑھ کر عصمت چغتائی کے بارے میں سوچتے رہے۔
علیٰ الصبح بھائی نے جانے پر کمر باندھی۔ ہم نے روکا مگر شاید انھیں اپنے جرم کا احساس دم نہیں لینے دے رہا تھا۔ بار بار شکریہ ادا کر رہے تھے۔ گلے مل کر رخصت ہوئے۔ اس بار ہم نے ان کی پسلیوں کو نہایت عقیدت سے بوسے دیے۔
موصوف سے جب ملاقات کا منصوبہ بن رہا تھا تو انھوں نے بارہا ہمیں متنبہ کرنے کے انداز میں بتایا تھا کہ ہمیں ان سے مل کر بہت مایوسی ہو گی۔ ہم دل ہی دل میں ہنستے تھے کہ بھولے بادشاہ، مردوں پر تو ہم عاشق ہوتے ہی نہیں۔ فکر کاہے کی؟ مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر شرمانے والے، چھوٹے چھوٹے چٹکلوں پر جی بھر کر ہنسنے والے اور چھوٹی چھوٹی محبتوں کا ڈھیروں شکریہ ادا کرنے والے اس معصوم سے بھائی نے ہمیں اپنا گرویدہ کر ہی لیا۔ سدا سلامت رہیں، بدر الفاتح بھائی۔ ہم ابھی سے آپ کے لیے اداس ہونے لگے ہیں۔
اردو محفل کا بہت شکریہ۔ ہمارے کئی استاد، بہن بھائی، محبوب، دوست، محسن ہمیں یہاں سے میسر آئے۔ کبھی کبھی دکھ ہوتا ہے کہ زندگی ہمارے مطابق نہیں گزرتی۔ ہم زندگی کے مطابق چلنے پر مجبور ہیں۔ ممکن ہےمحفل کا اور ہمارا تعلق کسی دن منقطع بھی ہو جائے۔ مگر وقت کی زنجیر میں یہ جو چند حسین کڑیاں آ گئی ہیں انھیں اب کون نکال سکتا ہے؟
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا ہے؟
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا ہے؟
آخری تدوین: