بدعنوانی کا خاتمہ کیسے ممکن؟

اگر ایک کرپٹ حکمران یہاں حکومت کر کے اپنے جیسے کئی کرپٹ پیدا کر سکتا ہے تو ایک اچھا حکمران کیوں نہیں ملک کی تقدیر بدل سکتا
میرا تو ایک معصومانہ سوال ہے کہ آپ کے موجودہ الیکشن سسٹم کے تحت کہ جہاں ایم -این -اے یا ایم -پی -اے بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں وہاں اس پیسوں کے لین دین کے عمل کے نتیجے میں الیکٹ ہونے والا کوئی ایک اچھا حُکمران کیسے اور کہاں سے آئے گا ؟؟
دوسرا یہ کہ فرض کریں اگر کوئی ایسا حکمران آ بھی جاتا ہے جو اپنے ذاتی پیسے خرچ کر کے دل میں درد رکھتا ہو کہ وہ اس ملک کی تقدیر بدل دے گا تو ساتھ والی پوری کابینہ ۔۔ اپوزیشن ۔۔۔ حکومتی ادارے ۔۔ یہ سب اُسے کام کرنے دیں گے ؟؟؟
میرے خیال میں تو ایسا نا مُمکن ہے ۔دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے ۔
تو کیوں نہ جو مُمکن ہے اسے پکڑیں اور خود ٹھیک ہو کے ٹھیک لوگوں کو ساتھ ملاتے جائیں ۔ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ پورا کاروا ں بنے گا انشا ء اللہ۔
 
آپ نے نہیائت ہی مختصر اور خوبصورت طریقے سے مسئلے کا پورا احاطہ کیا ہے۔ میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
لیکن ہمارے موجودہ تفتیشی اور عدالتی نظام میں اصطلاحات کی بھی ضرورت ہے اور ہماری پولیس یا دوسری ایجنسیوں کے پاس وہ صلاحیتیں اور وسائل نہیں ہیں جو ہماری عسکری فورسز کے پاس ہیں۔ جیسے کہ میں نے کہا کہ وہ بھی ہمیں سے ہیں مگر پھر بھی ان کے اندر اور دوسرے اداروں میں بہت فرق ہے لہذا مستقل نہیں لیکن وقتی اور جزوی طور پر ان کو شامل کرنے سے تھوڑے عرصے میں اچھے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس میں کئی طرح سے فائدہ ہو گا:
۱۔دوسرے اداروں کے اہلکاروں کی بھی تربیت ہوگی
۲۔ خواہ مخواہ کے فرسودہ اور ڈیلینگ پروسیجرز سے جان چھوٹے گی اور انصاف کا عمل شفاف اور تیز بھی ہو سکتا ہے۔
۳۔ پرفارمنس اچھی ہو جائے گی کیونکہ عسکری افاروں کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے۔
ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ جائنٹ ٹربیونل بنادیا جائے جو بلکل فوجی عدالتوں کی طرز پر کاروائی کرے اور اچھی شہرت والے افسران ہوں ۔

اور ساتھ ہی ساتھ عوامی سطح پر بیدارگی شعور کی بھی ضرورت ہے۔ شہریوں کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کا پتا ہونا چاہئے اور ان کے اندر یہ سوچ پیدا کی جائے کہ ان کے اندر ملک ، قوم اور قومی اداروں اور املاک کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا ہو کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ انسان اس چیز کی حفاظت کرتا ہے جس کی ملکیت اور اہمیت کا احساس ہو۔ میں مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر ہمارے گھر میں ٹوٹا ہوا لوٹا بھی پڑاہو تو کسی کی جرآت نہیں کہ کوئی اٹھا لے کیونکہ ہمارے اندر دونوں ا حساسات موجود ہیں اور ہمارے ادارے، سکول ہسپتال، سڑکیں گلیاں اور جنگل کوئی خراب کر رہا ہے تو ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے کیونکہ ہمارے اندر ان کی ملکیت اور اہمیت کا ا حساس نہیں ہے۔ اور جب یہ پیدا ہو جائے گا تو یقین کرو عوام پکڑ پکڑ کے لوگوں کو ایم پی اے اور ایم این اے کے لئے کھڑا کریں گے مگر کوئی تیار نہیں ہوگا
اور عوام ہی اصل سرچشمہ طاقت ہوتے ہیں اس پر پھر تفصیلی بات کریں گے
 
آپ نے نہیائت ہی مختصر اور خوبصورت طریقے سے مسئلے کا پورا احاطہ کیا ہے۔ میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
لیکن ہمارے موجودہ تفتیشی اور عدالتی نظام میں اصطلاحات کی بھی ضرورت ہے اور ہماری پولیس یا دوسری ایجنسیوں کے پاس وہ صلاحیتیں اور وسائل نہیں ہیں جو ہماری عسکری فورسز کے پاس ہیں۔ جیسے کہ میں نے کہا کہ وہ بھی ہمیں سے ہیں مگر پھر بھی ان کے اندر اور دوسرے اداروں میں بہت فرق ہے لہذا مستقل نہیں لیکن وقتی اور جزوی طور پر ان کو شامل کرنے سے تھوڑے عرصے میں اچھے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس میں کئی طرح سے فائدہ ہو گا:
۱۔دوسرے اداروں کے اہلکاروں کی بھی تربیت ہوگی
۲۔ خواہ مخواہ کے فرسودہ اور ڈیلینگ پروسیجرز سے جان چھوٹے گی اور انصاف کا عمل شفاف اور تیز بھی ہو سکتا ہے۔
۳۔ پرفارمنس اچھی ہو جائے گی کیونکہ عسکری افاروں کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے۔
ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ جائنٹ ٹربیونل بنادیا جائے جو بلکل فوجی عدالتوں کی طرز پر کاروائی کرے اور اچھی شہرت والے افسران ہوں ۔

اور ساتھ ہی ساتھ عوامی سطح پر بیدارگی شعور کی بھی ضرورت ہے۔ شہریوں کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کا پتا ہونا چاہئے اور ان کے اندر یہ سوچ پیدا کی جائے کہ ان کے اندر ملک ، قوم اور قومی اداروں اور املاک کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا ہو کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ انسان اس چیز کی حفاظت کرتا ہے جس کی ملکیت اور اہمیت کا احساس ہو۔ میں مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر ہمارے گھر میں ٹوٹا ہوا لوٹا بھی پڑاہو تو کسی کی جرآت نہیں کہ کوئی اٹھا لے کیونکہ ہمارے اندر دونوں ا حساسات موجود ہیں اور ہمارے ادارے، سکول ہسپتال، سڑکیں گلیاں اور جنگل کوئی خراب کر رہا ہے تو ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے کیونکہ ہمارے اندر ان کی ملکیت اور اہمیت کا ا حساس نہیں ہے۔ اور جب یہ پیدا ہو جائے گا تو یقین کرو عوام پکڑ پکڑ کے لوگوں کو ایم پی اے اور ایم این اے کے لئے کھڑا کریں گے مگر کوئی تیار نہیں ہوگا
اور عوام ہی اصل سرچشمہ طاقت ہوتے ہیں اس پر پھر تفصیلی بات کریں گے
 

نایاب

لائبریرین
ہم سب نفاذ شرعیت کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر اپنے چھ فٹ کے جسم پر نافذ کرنے پر بے بس ہیں
من حیث القوم ہم سب ہی بلا تخصیص اپنے اپنے مفاد کے غلام اور " میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑواتھو "کے اسیر ہیں ،
پاکستانی معاشرے کا فرد ہی اس معاشرے کے بگاڑکا ذمہ دار ہے ۔یہ "فرد "ہی اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے " اپنے سے زیادہ چالاک اور عیار "کا اپنی خوشی سے آلہ کار بنتا ہے ۔
اسے اقتدار تک پہچاتا ہے ۔ اور اس کے اقتدار کی حفاظت کے لیے ہر لمحہ مستعد رہتا ہے ۔
میں بھی پاکستانی ہوں اورپاکستانی معاشرے کا فرد
" مولوی ہو یا کوئی مبلغ " مجھے کوئی نہیں بدل سکتا ۔جب تک کہ میں خود کو خود ہی نہ بدل لوں ۔
کوئی مجھے کیسے بدلے کہ مجھے نصیحت کرنے والے اپنی جیبیں گڑ سے بھری رکھتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ گڑ کھانا اچھا نہیں ۔
فرد جب ہی درست ہو سکتا ہے جب اسے معاشرے میں "عدل " ہوتا دکھائی دے ۔
کون سا ادارہ ہے جو اپنے فرائض سے مخلص ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
ادارے کیسے مخلص ہوں کہ یہاں اداروں کو نہیں شخصیتوں کو پوجا جاتا ہے ۔
اللہ سوہنا سوہنی دھرتی پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین
بہت دعائیں
 

عثمان

محفلین
من حیث القوم ہم سب ہی بلا تخصیص اپنے اپنے مفاد کے غلام اور " میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑواتھو "کے اسیر ہیں ،
پاکستانی معاشرے کا فرد ہی اس معاشرے کے بگاڑکا ذمہ دار ہے ۔یہ "فرد "ہی اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے " اپنے سے زیادہ چالاک اور عیار "کا اپنی خوشی سے آلہ کار بنتا ہے ۔
اسے اقتدار تک پہچاتا ہے ۔ اور اس کے اقتدار کی حفاظت کے لیے ہر لمحہ مستعد رہتا ہے ۔
میں بھی پاکستانی ہوں اورپاکستانی معاشرے کا فرد
" مولوی ہو یا کوئی مبلغ " مجھے کوئی نہیں بدل سکتا ۔جب تک کہ میں خود کو خود ہی نہ بدل لوں ۔
کوئی مجھے کیسے بدلے کہ مجھے نصیحت کرنے والے اپنی جیبیں گڑ سے بھری رکھتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ گڑ کھانا اچھا نہیں ۔
فرد جب ہی درست ہو سکتا ہے جب اسے معاشرے میں "عدل " ہوتا دکھائی دے ۔
کون سا ادارہ ہے جو اپنے فرائض سے مخلص ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
ادارے کیسے مخلص ہوں کہ یہاں اداروں کو نہیں شخصیتوں کو پوجا جاتا ہے ۔
اللہ سوہنا سوہنی دھرتی پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین
بہت دعائیں
کافی دنوں بعد آمد ہوئی نایاب بھائی۔ کیسے ہیں آپ؟ :)
 

نایاب

لائبریرین
کافی دنوں بعد آمد ہوئی نایاب بھائی۔ کیسے ہیں آپ؟ :)
کرم ہے اللہ سوہنے کا
بس بھائی مصروفیت ہی کچھ ایسی ہے کہ حاضری لگانے کا وقت نہیں نکلتا ۔
آپ سنائیں کیسے ہیں آپ اور شہزادے ؟
اللہ سوہنا سدا اپنی رحمتوں سے نوازے آمین
بہت دعائیں
 
من حیث القوم ہم سب ہی بلا تخصیص اپنے اپنے مفاد کے غلام اور " میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑواتھو "کے اسیر ہیں ،
پاکستانی معاشرے کا فرد ہی اس معاشرے کے بگاڑکا ذمہ دار ہے ۔یہ "فرد "ہی اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے " اپنے سے زیادہ چالاک اور عیار "کا اپنی خوشی سے آلہ کار بنتا ہے ۔
اسے اقتدار تک پہچاتا ہے ۔ اور اس کے اقتدار کی حفاظت کے لیے ہر لمحہ مستعد رہتا ہے ۔
میں بھی پاکستانی ہوں اورپاکستانی معاشرے کا فرد
" مولوی ہو یا کوئی مبلغ " مجھے کوئی نہیں بدل سکتا ۔جب تک کہ میں خود کو خود ہی نہ بدل لوں ۔
کوئی مجھے کیسے بدلے کہ مجھے نصیحت کرنے والے اپنی جیبیں گڑ سے بھری رکھتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ گڑ کھانا اچھا نہیں ۔
فرد جب ہی درست ہو سکتا ہے جب اسے معاشرے میں "عدل " ہوتا دکھائی دے ۔
کون سا ادارہ ہے جو اپنے فرائض سے مخلص ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
ادارے کیسے مخلص ہوں کہ یہاں اداروں کو نہیں شخصیتوں کو پوجا جاتا ہے ۔
اللہ سوہنا سوہنی دھرتی پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین
بہت دعائیں
شکریہ نایاب۔ آپ نے بہت ہی مختصر اور جامع انداز میں معاشرے کی تصویر پیش کی۔
اب تھوژا سا اس پر اپنے علم اور تجربات سے مستفید کہ بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
کرم ہے اللہ سوہنے کا
بس بھائی مصروفیت ہی کچھ ایسی ہے کہ حاضری لگانے کا وقت نہیں نکلتا ۔
آپ سنائیں کیسے ہیں آپ اور شہزادے ؟
اللہ سوہنا سدا اپنی رحمتوں سے نوازے آمین
بہت دعائیں
اللہ کا شکر ہے ہمارے شہزادے اور ہم سب خیریت سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کے خاندان کو بھی رحمتوں سے نوازے۔ آمین!
 

نایاب

لائبریرین
بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے۔
بحیثیت اک فردمجھے بجائے کسی دوسرے فرد کے کسی عمل پر اپنی عدالت لگانے کے خود کو اپنے عمل سے معاشرے کے ہر فرد تک یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ اگر ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری عزیز ہے تو اپنی اپنی اصلاح کر لی جائے ۔ اگر میں اپنے کرپشن ک عمل سے معاشرے کے فرد کو کرپشن کی راہ دکھا سکتا ہوں تو با لیقین اپنے اچھے عمل سے کسی دوسرے فرد کو بنا کسی تبلیغ کے راہ پر آنے کی سوچ دے سکتا ہوں ۔
بہت دعائیں
 
متفق۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں اوسطاً بے دین لوگ اخلاقیات میں بہتر کیوں ہیں۔۔۔۔
اخلاق کی بات کرتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں تقدس کا چشمہ اتار کے دیکھوں۔ میں نے تو یہی سیکھا ہے کہ اگر تقدس اور ادب کو چھوڑ دیا جائے تو شیطان اور انسان میں فرق ختم ہو جاتا ہے۔
بہت آسان جواب ہے اس کا..... وہ بے دین لوگ ماضی میں خود کئی تجربے کر کے آزما چکے ہیں کہ اخلاقیات کے بغیر نظام نہیں چل سکتا تو انہوں نے اس کو اپنے نظام کا حصہ بنا لیا چاہے دین یا مزہب کو ماننے یا نہ ماننے کے باوجود مجبوری ہی سہی.... ہر دور میں اخلاقیات کا ماخز مزہب ہی رہا ہے..... یہ اخلاقیات پیمبروں سے ہی آئی ہیں.... اس لیے کہا جاتا ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں.... اس کی مثالیں آپ کے سامنے موجود ہیں.... ہم دین سے اتنے وفاداری کے باوجود بدعنوانی میں مثال بن چکے ہیں.... کیوں؟ کیونکہ ہمارے علماء سمیت ہم نے دین کو صرف تقدس تک محدود کر رکھا ہے.... قران پاک کو شادیوں میں یا ختم شریف تک ہی محدود کر رکھا ہے یا علماء نے اپنے اوپر تقدس کی چادر کے طور پہ ڈھال رکھا ہے تاکہ جب بھی ان کی کسی غلط بات کو رد کرنے کی کوشش کی جائے تو اس پر تنقید اسلام پر تنقید تصور کی جائے.... اس لیے تقدس سے باہر نکل کر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا بہت ضروری ہے ورنہ پھر اسی تقدس میں لوگ کی عصمتیں، عزتیں اور جانیں اسی طرح لٹتی رہیں گی اور ہم نسل در نسل غلام ابن غلام چلتے جائیں گے.... تقدس اگر جائز ہے کسی ہستی کے لیے تو صرف اللہ کے لیے، اللہ کی کتابوں کے لیے، اس کے انبیاء کے لیے اور فرشتوں کے لیے.... (ایمان مفصل اور ایمان مجمل)
ایک عام انسانی معاشرے میں تقدس وہ پہلی سیڑھی ہے جو ایک عام انسان کو غلام اور تقدس زدہ ہستی کے دل میں تکبر کی بدبو پیدا کرتی ہے اور تکبر وہ پہلا راستہ ہے جب انسان سے شیطان کی طرف کا آغاز ہوتا ہے..... شیطان کی مثال آپ کے سامنے ہے.... ایک تو اس نے اللہ پاک کا تقدس نہ کیا جو کہ بالکل آپکے ایمان کا حصہ ہے جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے (دوسرے لفظوں میں اللہ پاک کے تکبر کو چیلنج کیا) اور اللہ پاک کا حکم ماننے سے انکار کیا اور دوسرا اس نے خود کو انسان سے افضل سمجھا یعنی تکبر.... اب یہی مثال ایک عام مسلمان معاشرے پہ فٹ کرتے ہیں جب آپ کہیں گے میرا تقدس ہو تو شیطان کا پہلا وار ہی آپکے دل میں یہی بٹھانا ہو گا کہ تم سب سے بہتر ہو جو کہ تکبر کی ابتداء ہے اور یہی عمل شیطانیت کی طرف لے جائے گا کیونکہ تکبر رب کی ذات کے علاوہ کسی کے لیے نہیں ہے.... اس لیے کنسیپٹ کلییر کرنا بہت ضروری ہے کہ تقدس کس کے لیے جائز ہے.... ساتھ آپ نے ادب کی بات کی تو ادب سے کوئی انکاری نہیں کہ ہمیں ضرور ادب کرنا چاہیے، (بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت) عزت ضرور دینی چاہیے بشرطیکہ اس نے عزت کمائی ہو اور اس کے قابل ہو..... میں نے اس لڑی میں اپنے پہلے تبصرے میں یہی کہنے کی کوشش کی ہے....
"1. ایک عالم خود کو عام آدمی سے برتر سمجھتا ہے اور اسکے ہر اچھے برے عمل پر عوام اس کا ساتھ دے کیونکہ وہ اسلام کا علمبردار ہے اس لیے قانون سے بھی مبرا ہے...
2. ایک سیاستدان خود کو عام آدمی سے بر تر سمجھتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہی سب کا کرتا دھرتا ہے اس لیے یہ شخصیات بھی قانون سے مبرا ہیں...."
 
آخری تدوین:
آ پپوری اسلامی تاریخ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کسی بھی سند کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے۔ کسی نھی چیز کو محض تنقید کی نظر سر نہیںدیکھنا چاہیے
شاید آپکی نظر سے یہ درج ذیل بات نہیں گزری جو کہ میں نے پہلے ہی تبصرہ میں لکھ دی تھی...
نوٹ: یہاں عالم سے مراد وہ طبقہ ہے جو دین کو اپنی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرتا ہے....
مخلص عالم کی تو میں یہاں بات کر ہی نہیں رہا جو کہ بالکل موجود ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر اور انہوں نے بھی عزت کے لیے تقدس کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ حقیقی معنوں میں دین کی خدمت کر کے عزت کمائی ہے....یہی بات اس لڑی میں میرے دوسرے تبصرے میں بھی موجود ہے.....
 
آخری تدوین:
صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط آپ کو جو دین اور مبلغ اچھا لگتا ہے اس کو مان لیں مگر دوسرے کے دیں یا مبلغ کو برا نہ کہیں
میں بھی یہی کہ رہا ہوں کہ بلا تفریق صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہیں، وہ چاہے میں کہ رہا ہوں یا کوئی عالم لیکن بلا تفریق... تقدس کے دائرے سے باہر نکل کر....
کسی دوسرے کے دیں یا مبلغ کو تو میں نے خود بھی کہیں اچھا یا برا نہیں کہا کیونکہ اچھائی یا برائی اس کا ذاتی فعل ہے لیکن اس بات پر کیسے خاموش رہا جا سکتا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پھیلائے ہوئے دین کا لوگ اپنی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرتے رہیں اور ہم تقدس کی آڑ میں خاموش رہیں.... بھائی جس کے جتنے مرضی چاہنے والے ہوں لیکن کل کو جواب دہ اللہ کے سامنے ہونا ہے ان کے سامنے نہیں، جان اللہ کی امانت ہے ان کی نہیں.....
 
دلیل کے معانی آپ کے قریب کیا ہیں
مجھ ناچیز کے ناقص علم کے مطابق منررجہ ذیل میں سے کوئی بھی قول میری کسی بات کی دلیل نہیں ہے....

ویسے آپکی بھی ایک ہی دھن ہے چلا گھما کر مولویوں پر

آپ کو پورا پورا موقعہ دیا جائے گا دل کی بھڑاس کو نکالنے کا

آپ مجھ سے اختلاف رائے ضرور رکھیں یہ آپ کا حق ہے، آپ میری ہر بات پر تنقید کریں کوئی مسئلہ نہیں لیکن میری کی ہوئی بات کو کسی حقیقی و عملی مثال یا بات سے رد کریں، اگر میں غلط ہوں میری اصلاح کریں، میری رہنمائی فرمائیں....
اسی بات کو میں نے اوپر بھی بیان کیا ہے کہ ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ اختلاف کو بجائے صحیح معنی میں لینے کے اسلام کا نام استعمال کر کے زبان کو بند کروانا.....
آپ سے دلی معذرت میرا اور آپکا ذاتی جھگڑا تو ہے نہیں، ہم محض اپنا نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں.... میرا نقطہ آپ کو اچھا لگے یا نہ لگے یا پھر آپ کا نقطہ نظر مجھے اچھا لگے یا نہ لگے، ایک فطری عمل ہے لیکن برداشت مجھے آپ کو اور آپ کو مجھے ہر صورت کرنا پڑے گا.....
 
آخری تدوین:
میرا تو ایک معصومانہ سوال ہے کہ آپ کے موجودہ الیکشن سسٹم کے تحت کہ جہاں ایم -این -اے یا ایم -پی -اے بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں وہاں اس پیسوں کے لین دین کے عمل کے نتیجے میں الیکٹ ہونے والا کوئی ایک اچھا حُکمران کیسے اور کہاں سے آئے گا ؟؟
دوسرا یہ کہ فرض کریں اگر کوئی ایسا حکمران آ بھی جاتا ہے جو اپنے ذاتی پیسے خرچ کر کے دل میں درد رکھتا ہو کہ وہ اس ملک کی تقدیر بدل دے گا تو ساتھ والی پوری کابینہ ۔۔ اپوزیشن ۔۔۔ حکومتی ادارے ۔۔ یہ سب اُسے کام کرنے دیں گے ؟؟؟
میرے خیال میں تو ایسا نا مُمکن ہے ۔دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے ۔
تو کیوں نہ جو مُمکن ہے اسے پکڑیں اور خود ٹھیک ہو کے ٹھیک لوگوں کو ساتھ ملاتے جائیں ۔ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ پورا کاروا ں بنے گا انشا ء اللہ۔
متفق.... لیکن اگر نظام چلتا رہا تو ہی ہم مستقبل میں امید لگا سکتے ہیں اس کے اچھے استعمال کی.... اور جب جمہوری نظام میں تسلسل قائم ہو جاتا ہے تو لوگ فلٹر ہوتے جاتے ہیں کیونکہ آہستہ آہستہ لوگ سمجھتے جاتے ہیں کہ ان کے لیے کیا بہتر ہے.... اس پر وقت اور تسلسل درکار ہے.... پاکستان کی تاریخ ہی جمہوریت پر روڑے اٹکانے میں بھری پڑی ہے اور جواز ہر دفعہ یہی دیا جاتا ہے کہ جمہوری لوگ ٹھیک نہیں ہیں.... اگر جمہوری لوگ ٹھیک نہیں ہیں تو اس میں جمہوری نظام کا کیا قصور.... اور آپ نے اسے پھلنے پھولنے کا موقع ہی کب دیا ہے؟... یہ تو بالکل ایسے ہے کہ اگر ایک مسلمان ٹھیک نہیں ہے تو اس میں اسلام کا کیا قصور جبکہ اسلام کو پھلنے پھولنے کے لیے ایک اچھا خاصا وقت لگا ہے.... یونہی اس پر پہلے دن ہی پھل نہیں لگ گیا... اسی مثال کو آپ ایک بیری کے درخت پر فٹ کریں جب ابھی اسے سطح زمین سے اوپر آئے ہی چند دن ہوئے ہوں تو آپ یہ جواز لگا کر اس کا سر قلم کر دیں کہ اس پر تو کانٹے ہی کانٹے ہیں... جب آپ اسے پھلنے پھولنے ہی نہیں دیں گے تو اس کے پھل سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں.... جمہوری عمل میں تسلسل سے ہی ایک اچھے لیڈر کو اوپر آنے کا موقع ملے گا اور اس کے لیے اچھا خاصا وقت اور محنت درکار ہے بالکل اسی طرح جس طرح صحابہ کرام نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ان کی لیڈرشپ میں دین کے لیے کی.... اگر ہم میں سے کوئی اچھا بندہ لیڈر کا رول نہیں ادا کرے گا تو ہم سالہا سال ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہیں گے کہ کون یہ ذمہ داری سر پر لیتا ہے..... نیلسن مینڈیلا کی مثال آپ کے سامنے ہے..... آپ کے اور میرے نقطہ نظر میں فرق ضرور ہے لیکن نتائج کی امید ہماری مشترک ہے.... اور یہی ایک اچھے لیڈر کی پہچان ہے کہ وہ مختلف نقطہ نظر کو ساتھ لے کر چلتا ہے، ان میں مختلف نقطہ نظر ہونے کے باوجود باہمی اتحاد کی فضا قائم رکھتا ہے تاکہ مقصد کا حصول ممکن ہو.... یہاں میری لیڈر سے مراد کوئی بہت بڑا سیاسی لیڈر نہیں ہے، وہ ہم میں سے ہی کوئی اچھا بندہ ہو سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ تمام تر اعلی اخلاقیات کا حامل ہو کیونکہ وہ بھی انسان ہے خطا کا پتلا ہے لیکن اس میں لیڈرشپ کوالٹی کا ہونا بہت ضروری ہے.....
بہر حال ہر صورت میں آپ کے نقطہ نظر کو میں عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ عین ممکن ہے کہ اس میں میری بھلائی کی کوئی بات ہو... ہم دونوں ہی انسان ہیں اور ہم دونوں کے دیکھنے کا زاویہ مختلف ہونا کوئی عجب شے نہیں ہے....
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
متفق.... لیکن اگر نظام چلتا رہا تو ہی ہم مستقبل میں امید لگا سکتے ہیں اس کے اچھے استعمال کی.... اور جب جمہوری نظام میں تسلسل قائم ہو جاتا ہے تو لوگ فلٹر ہوتے جاتے ہیں کیونکہ آہستہ آہستہ لوگ سمجھتے جاتے ہیں کہ ان کے لیے کیا بہتر ہے.... اس پر وقت اور تسلسل درکار ہے.... پاکستان کی تاریخ ہی جمہوریت پر روڑے اٹکانے میں بھری پڑی ہے اور جواز ہر دفعہ یہی دیا جاتا ہے کہ جمہوری لوگ ٹھیک نہیں ہیں.... اگر جمہوری لوگ ٹھیک نہیں ہیں تو اس میں جمہوری نظام کا کیا قصور.... اور آپ نے اسے پھلنے پھولنے کا موقع ہی کب دیا ہے؟... یہ تو بالکل ایسے ہے کہ اگر ایک مسلمان ٹھیک نہیں ہے تو اس میں اسلام کا کیا قصور جبکہ اسلام کو پھلنے پھولنے کے لیے ایک اچھا خاصا وقت لگا ہے.... یونہی اس پر پہلے دن ہی پھل نہیں لگ گیا... اسی مثال کو آپ ایک بیری کے درخت پر فٹ کریں جب ابھی اسے سطح زمین سے اوپر آئے ہی چند دن ہوئے ہوں تو آپ یہ جواز لگا کر اس کا سر قلم کر دیں کہ اس پر تو کانٹے ہی کانٹے ہیں... جب آپ اسے پھلنے پھولنے ہی نہیں دیں گے تو اس کے پھل سے کیسے مفید ہو سکتے ہیں.... جمہوری عمل میں تسلسل سے ہی ایک اچھے لیڈر کو اوپر آنے کا موقع ملے گا اور اس کے لیے اچھا خاصا وقت اور محنت درکار ہے بالکل اسی طرح جس طرح صحابہ کرام نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ان کی لیڈرشپ میں دین کے لیے کی.... اگر ہم میں سے کوئی اچھا بندہ لیڈر کا رول نہیں ادا کرے گا تو ہم سالہا سال ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہیں گے کہ کون یہ ذمہ داری سر پر لیتا ہے..... نیلسن مینڈیلا کی مثال آپ کے سامنے ہے..... آپ کے اور میرے نقطہ نظر میں فرق ضرور ہے لیکن نتائج کی امید ہماری مشترک ہے.... اور یہی ایک اچھے لیڈر کی پہچان ہے کہ وہ مختلف نظر کو ساتھ لے کر چلتا ہے، ان میں مختلف نقطہ نظر ہونے کے باوجود باہمی اتحاد کی فضا قائم رکھتا ہے تاکہ مقصد کا حصول ممکن ہو.... یہاں میری لیڈر سے مراد کوئی بہت بڑا سیاسی لیڈر نہیں ہے، وہ ہم میں سے ہی کوئی اچھا بندہ ہو سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ تمام تر اعلی اخلاقیات کا حامل ہو کیونکہ وہ بھی انسان ہے خطا کا پتلا ہے لیکن اس میں لیڈرشپ کوالٹی کا ہونا بہت ضروری ہے.....
بہر حال ہر صورت میں آپ کے نقطہ نظر کو میں عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ عین ممکن ہے کہ اس میں میری بھلائی کی کوئی بات ہو... ہم دونوں ہی انسان ہیں اور ہم دونوں کے دیکھنے کا زاویہ مختلف ہونا کوئی عجب شے نہیں ہے....
درست کہا! نظام کا تسلسل ضروری ہے تبھی اس سے کسی مفید نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
میرا تو ایک معصومانہ سوال ہے کہ آپ کے موجودہ الیکشن سسٹم کے تحت کہ جہاں ایم -این -اے یا ایم -پی -اے بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں وہاں اس پیسوں کے لین دین کے عمل کے نتیجے میں الیکٹ ہونے والا کوئی ایک اچھا حُکمران کیسے اور کہاں سے آئے گا ؟؟
مغرب میں بھی سیاسی امیدوار کی انتخابی مہم پر کافی رقم خرچ ہوتی ہے۔ تاہم وہ یہ رقم اپنی جیب سے نہیں ادا کرتا بلکہ چندے کے ذریعے سے جمع ہوتی ہے۔
 
آپ لوگوں کے خیال میں پاکستان میں کیسا نظامِ حکومت ہونا چاہیئے جس سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے
آپ نے بہت ہی اچھا سوال کیا ہے۔ نظام حکومت کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ اتنا نظام کا نہیں جتنا نظام بنانے اور چلانے والوں کا ہے۔ لہذا نظام سے پہلے سماج کو بدلنا ہوگا
 
آخری تدوین:
Top