وہ شخص اگرچہ بدحال تو نہ تھا مگر ایسا خوش حال بھی نہ تھا کہ ڈیوڑھی پر ہاتھی جھولتے۔۔۔
البتہ ایک پھٹپھٹی موٹر سائیکل پر پوری فیملی جھولتی ہوئی سفر کرتی ۔۔۔
سفر کے لیے ہونڈا ففٹی اور رہائش کے لیے ایک فلیٹ ۔۔۔
کوئی دس برس ادھر کی بات ہے کہ لینڈ مافیا سے سلام علیک ہوگئی۔۔۔
بس وہ دن اور آج کا دن، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔
آج آٹھ کروڑ کا گھر اور تین گاڑیاں ہیں۔۔۔
گاڑیوں کا ماڈل بھی ہر سال بدلتا ہے۔۔۔
اب سیر و تفریح کے لیے مری نہیں بیرون ملک جاتے ہیں۔۔۔
خیر سے وہ تمام عادات بھی در آئیں جو نو دولتیوں کا خاصّہ ہوتی ہیں۔۔۔
یعنی غریب رشتے داروں کو بالکل منہ نہ لگانا یا کم کم لگانا۔۔۔
نازک ہوتے مزاج میں گاہے بگاہے چڑچڑے پن کا تڑکا لگنا۔۔۔
اپنے سے کمتر کمی کمینوں کے گھر بوجوہ جانے سے احتراز کرنا۔۔۔
کیوں کہ حفظان صحت کے اصولوں پر ہر کس و ناکس کہاں پورا اترتا ہے۔۔۔
اب اتنی مصروف زندگی میں بزنس پارٹنرز کے ناز نخرے اٹھائیں یا رشتے دار کے اللّے تللّے۔۔۔
ہونہہ بلڈی غریب پیوپل!!!
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی تھی۔ جو پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں اچھی تھی۔ اسے لٹریچر یا فائن آرٹس کی فیلڈ میں جانے کا شوق تھا مگر اُسے میٹرک میں سائنس رکھوا دی گئی۔ کیونکہ آرٹس سے متعلق والدین کے کوئی سپنے نہیں ہوتے اور معاشرہ تو شاید یہی سمجھتا ہے کہ آرٹس رکھنے والے لوگ نالائق ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حالانکہ تاریخ ایسا نہیں کہتی مگر اُس بچی کے دلائل کون سُنے؟ وہ تو بچی ہے۔۔۔اُسے کیا پتا؟یہاں ہم ایسے لوگوں کے آنکھوں دیکھے واقعات کی شراکت کریں گے جن کے حالات اچھا یا برے یکسر بدل گئے۔
مریم!ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی تھی۔ جو پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں اچھی تھی۔ اسے لٹریچر یا فائن آرٹس کی فیلڈ میں جانے کا شوق تھا مگر اُسے میٹرک میں سائنس رکھوا دی گئی۔ کیونکہ آرٹس سے متعلق والدین کے کوئی سپنے نہیں ہوتے اور معاشرہ تو شاید یہی سمجھتا ہے کہ آرٹس رکھنے والے لوگ نالائق ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حالانکہ تاریخ ایسا نہیں کہتی مگر اُس بچی کے دلائل کون سُنے؟ وہ تو بچی ہے۔۔۔اُسے کیا پتا؟
وہ خوب روئی ، خوب روئی مگر صرف پہلے دن! کیونکہ وہ ایک بار ہی کئی سالوں کا رو لیتی تھی۔ پھر اس کو میٹرک میں ریاضی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور ایسی ہوئی کہ بورڈ کے امتحانات میں بھی ہمیشہ ریاضی میں پورے نمبر اور صرف ریاضی کی کتاب تھی جو ساری آتی تھی اور وہ شاید ریاضی ہی کرتی رہتی تھی۔ میٹرک میں نوے فیصد سے اوپر نمبر آئے اور گھر والوں نے بائیو رکھنے کا کہہ ڈالا۔
ستم ظریفئ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اِس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کُچلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی رائے کی کیا اہمیت؟ اور وہ بھی اپنے لیے کیونکر لڑتی ؟ والدین کبھی برا تو نہیں چاہتے نا ! ان کی آنکھیں وہ دیکھتی ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔۔۔ چاہے ہمارا سب کچھ لہو لہو ہوتا رہے۔ کوئی بات نہیں ! سب کا ہوتا ہے! خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔ اسی لیے ہر گھر میں کتنی خواہشوں کے ستاروں کی بلی جان بوجھ کر لی جاتی ہے۔۔ کہ یہی ایک راستہ ہے اپنے پیاروں کو نویدِ سحر دینے کا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی اور معاشرے کی رَو سے ذرا اِدھر اُدھر کھِسکنے والی قوم نہیں !
خیر اُس نے ایف ایس سی پری میڈیکل کی۔ بائیولوجی میں سب سے کم جی لگا۔ فزکس سب سے زیادہ پسند تھی۔ انٹری ٹیسٹ میں سب سے زیادہ پورشن بائیولوجی کا تھا، سو وہ پاس نہ ہوسکا یا شاید یہی انٹری ٹیسٹ اُس کے کسی پسند کے شعبے کا ہوتا جس کیلئے وہ بنی تھی تو اس کی اپنی کوتاہیوں کی فہرست بھی اِتنی بڑی نہ ہوتی۔ مزید تعلیم کیلئے اُس کو فزکس کا شعبہ پسند تھا مگر ادارے فزکس کے شعبے میں صرف پری انجینئرنگ والے سٹوڈنٹس کو رکھتے ہیں اور اُسے بائیو کی ایک ایسی فیلڈ (نباتیات) میں داخلہ دلوا دیا گیا جس کی سمجھ اُسے پوری بائیو میں سب سے کم تھی۔ وطنِ عزیز میں بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت ہے کہ زندگی کے سبھی اہم معاملوں میں بچے کو کسی بھی جگہ ''اَڑا'' دو ، پیار خود ہی ہو جائے گا۔ مگر پانچ سال اس ''ارینج فیلڈ'' میں گُزارنے کے بعد بھی اُسے پیار نہ ہوسکا بلکہ شاید وہ پہلے سے بھی گئی گُزری ہوگئی۔ جو آتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ شوق سے کچھ بھی نہیں کِیا۔ مگر وقت کی بہترین خوبی یہی ہے کہ یہ گُزر جاتا ہے۔ پہاڑ سے پانچ سال بھی گُزر گئے۔ آسماں نے اپنا رنگ بدلا اور آج ایم فل کیلئے پاکستان بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں سے آئے ہوئے لگ بھگ دو سو بچوں میں سے اُس کو بین الاقوامی سطح پر مانا جانے والے اور پاکستان کے بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ کے بہترین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مٹھی بھر منتخب سٹوڈنٹس کی صف میں شامل کر لیا گیا اور آج اُسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ ''صحیح'' فیلڈ میں ہے۔ جس میں وہ پیار اور لگن سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور جس میں کام کرنے کا واقعی کوئی فائدہ پہنچے گا اور آگے کی کہانی تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع ہونے والی کہانی وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے پر ختم ہو جاتی ہے مگر اصل زندگی میں ایک کہانی کی ہنسی خوشی کسی نئی کہانی کی تمہید ہوتی ہے۔ خدا جانے کاتبِ تقدیر کیا لکھنے میں مصروف ہو مگر میں تو ایک ایسی لڑکی کی کہانی لکھنے میں مصروف ہوں جو کہ میں خود ہوں۔ مریم''![]()
آمین ثم آمین !!!!مریم!
بہت مبارک ہو۔
ماشاءاللہ۔اللہ نے آپ پہ اپنا خاص کرم کیا۔اللہ کا شکر ہے۔
اللہ اور بھی کامیابیاں اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
بہت مبارک ہو مریم! اللہ آپ کو مزید کامیابیاں عطا فرمائے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی تھی۔ جو پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں اچھی تھی۔ اسے لٹریچر یا فائن آرٹس کی فیلڈ میں جانے کا شوق تھا مگر اُسے میٹرک میں سائنس رکھوا دی گئی۔ کیونکہ آرٹس سے متعلق والدین کے کوئی سپنے نہیں ہوتے اور معاشرہ تو شاید یہی سمجھتا ہے کہ آرٹس رکھنے والے لوگ نالائق ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حالانکہ تاریخ ایسا نہیں کہتی مگر اُس بچی کے دلائل کون سُنے؟ وہ تو بچی ہے۔۔۔اُسے کیا پتا؟
وہ خوب روئی ، خوب روئی مگر صرف پہلے دن! کیونکہ وہ ایک بار ہی کئی سالوں کا رو لیتی تھی۔ پھر اس کو میٹرک میں ریاضی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور ایسی ہوئی کہ بورڈ کے امتحانات میں بھی ہمیشہ ریاضی میں پورے نمبر اور صرف ریاضی کی کتاب تھی جو ساری آتی تھی اور وہ شاید ریاضی ہی کرتی رہتی تھی۔ میٹرک میں نوے فیصد سے اوپر نمبر آئے اور گھر والوں نے بائیو رکھنے کا کہہ ڈالا۔
ستم ظریفئ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اِس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کُچلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی رائے کی کیا اہمیت؟ اور وہ بھی اپنے لیے کیونکر لڑتی ؟ والدین کبھی برا تو نہیں چاہتے نا ! ان کی آنکھیں وہ دیکھتی ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔۔۔ چاہے ہمارا سب کچھ لہو لہو ہوتا رہے۔ کوئی بات نہیں ! سب کا ہوتا ہے! خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔ اسی لیے ہر گھر میں کتنی خواہشوں کے ستاروں کی بلی جان بوجھ کر لی جاتی ہے۔۔ کہ یہی ایک راستہ ہے اپنے پیاروں کو نویدِ سحر دینے کا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی اور معاشرے کی رَو سے ذرا اِدھر اُدھر کھِسکنے والی قوم نہیں !
خیر اُس نے ایف ایس سی پری میڈیکل کی۔ بائیولوجی میں سب سے کم جی لگا۔ فزکس سب سے زیادہ پسند تھی۔ انٹری ٹیسٹ میں سب سے زیادہ پورشن بائیولوجی کا تھا، سو وہ پاس نہ ہوسکا یا شاید یہی انٹری ٹیسٹ اُس کے کسی پسند کے شعبے کا ہوتا جس کیلئے وہ بنی تھی تو اس کی اپنی کوتاہیوں کی فہرست بھی اِتنی بڑی نہ ہوتی۔ مزید تعلیم کیلئے اُس کو فزکس کا شعبہ پسند تھا مگر ادارے فزکس کے شعبے میں صرف پری انجینئرنگ والے سٹوڈنٹس کو رکھتے ہیں اور اُسے بائیو کی ایک ایسی فیلڈ (نباتیات) میں داخلہ دلوا دیا گیا جس کی سمجھ اُسے پوری بائیو میں سب سے کم تھی۔ وطنِ عزیز میں بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت ہے کہ زندگی کے سبھی اہم معاملوں میں بچے کو کسی بھی جگہ ''اَڑا'' دو ، پیار خود ہی ہو جائے گا۔ مگر پانچ سال اس ''ارینج فیلڈ'' میں گُزارنے کے بعد بھی اُسے پیار نہ ہوسکا بلکہ شاید وہ پہلے سے بھی گئی گُزری ہوگئی۔ جو آتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ شوق سے کچھ بھی نہیں کِیا۔ مگر وقت کی بہترین خوبی یہی ہے کہ یہ گُزر جاتا ہے۔ پہاڑ سے پانچ سال بھی گُزر گئے۔ آسماں نے اپنا رنگ بدلا اور آج ایم فل کیلئے پاکستان بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں سے آئے ہوئے لگ بھگ دو سو بچوں میں سے اُس کو بین الاقوامی سطح پر مانا جانے والے اور پاکستان کے بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ کے بہترین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مٹھی بھر منتخب سٹوڈنٹس کی صف میں شامل کر لیا گیا اور آج اُسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ ''صحیح'' فیلڈ میں ہے۔ جس میں وہ پیار اور لگن سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور جس میں کام کرنے کا واقعی کوئی فائدہ پہنچے گا اور آگے کی کہانی تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع ہونے والی کہانی وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے پر ختم ہو جاتی ہے مگر اصل زندگی میں ایک کہانی کی ہنسی خوشی کسی نئی کہانی کی تمہید ہوتی ہے۔ خدا جانے کاتبِ تقدیر کیا لکھنے میں مصروف ہو مگر میں تو ایک ایسی لڑکی کی کہانی لکھنے میں مصروف ہوں جو کہ میں خود ہوں۔ مریم''![]()
خیر مبارک بہنا۔ آمین!!! جزاک اللہ نیک تمناؤں کیلئے۔بہت مبارک ہو مریم! اللہ آپ کو مزید کامیابیاں عطا فرمائے.
مورل آف دا سٹوری: ماں باپ جہاں " اڑائیں " وہاں "اڑ " جاؤ . ایک دن " ارینج " سے پیار ہو ہی جائے گا .
مبارک ہوبہنا۔میں نے اب فیلڈ چینج کی ہے۔بائیو ٹیکنالوجی مجھے بائیولوجی کی فیلڈز میں سب سے زیادہ پسند ہے۔ فیلڈ چینج کرنے کا نقصان بھی ہوتا ہے مگر ہوتا ہے تو ہوا کرے۔۔۔ ارینج میں نہیں رہا جاتا۔ نہیں اَڑ پاتی۔ نہیں ہوا پیار !! کہانی میں یہ کہا تھا۔
اور یہ بھی کہ دن کی صحیح قدر اُس کو پتا چلتی ہے جو صدیوں سے تاریکی میں عازمِ سفر ہو۔ میری کلاس میں اور بھی لوگ ہوں گے مگر شاید انہوں نے یہ حالات نہ دیکھے ہوں اس لیے اُن کے لیے یہ نہ تو آسمان کا رنگ بدلنا ہے اور نہ ہی شاید میرے جتنی قدر ہو اس فیلڈ کی یا ان سب حالات کی جو تقریباََ ایک دہائی کے بعد میرے حق میں ہوئے ہیں۔
خیر مبارک بھیا!مبارک ہوبہنا۔
اللہ کریم آپ کو آپ کے مقاصد میں کامیاب اور کامران کرئے۔آمین
میں نے اب فیلڈ چینج کی ہے۔بائیو ٹیکنالوجی مجھے بائیولوجی کی فیلڈز میں سب سے زیادہ پسند ہے۔ فیلڈ چینج کرنے کا نقصان بھی ہوتا ہے مگر ہوتا ہے تو ہوا کرے۔۔۔ ارینج میں نہیں رہا جاتا۔ نہیں اَڑ پاتی۔ نہیں ہوا پیار !! کہانی میں یہ کہا تھا۔
![]()
مریم، آپ چاہے اپنے سابقہ مضمون سے بریک اپ کا اعلان کریں لیکن سچ تو یہی ہے کہ یہ اسی پانچ سالہ رفاقت کا نتیجہ ہے جو آج آپ کی مراد بر آئی. اب امید کی شاخ پر نئی کونپلیں پھوٹیں گی تو پھر ان سے پیار تو یقیناً ہو گا.اور یہ بھی کہ دن کی صحیح قدر اُس کو پتا چلتی ہے جو صدیوں سے تاریکی میں عازمِ سفر ہو۔ میری کلاس میں اور بھی لوگ ہوں گے مگر شاید انہوں نے یہ حالات نہ دیکھے ہوں اس لیے اُن کے لیے یہ نہ تو آسمان کا رنگ بدلنا ہے اور نہ ہی شاید میرے جتنی قدر ہو اس فیلڈ کی یا ان سب حالات کی جو تقریباََ ایک دہائی کے بعد میرے حق میں ہوئے ہیں۔
ایسا ہی ہے پیاری بہنا !!مریم، آپ چاہے اپنے سابقہ مضمون سے بریک اپ کا اعلان کریں لیکن سچ تو یہی ہے کہ یہ اسی پانچ سالہ رفاقت کا نتیجہ ہے جو آج آپ کی مراد بر آئی. اب امید کی شاخ پر نئی کونپلیں پھوٹیں گی تو پھر ان سے پیار تو یقیناً ہو گا.
اینی ویز... گڈ جاب
بیسٹ آف لک
اس شاندار کامیابی پر ہماری طرف سے بہت سی مبارکباد سمیٹیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی تھی۔ جو پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں اچھی تھی۔ اسے لٹریچر یا فائن آرٹس کی فیلڈ میں جانے کا شوق تھا مگر اُسے میٹرک میں سائنس رکھوا دی گئی۔ کیونکہ آرٹس سے متعلق والدین کے کوئی سپنے نہیں ہوتے اور معاشرہ تو شاید یہی سمجھتا ہے کہ آرٹس رکھنے والے لوگ نالائق ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حالانکہ تاریخ ایسا نہیں کہتی مگر اُس بچی کے دلائل کون سُنے؟ وہ تو بچی ہے۔۔۔اُسے کیا پتا؟
وہ خوب روئی ، خوب روئی مگر صرف پہلے دن! کیونکہ وہ ایک بار ہی کئی سالوں کا رو لیتی تھی۔ پھر اس کو میٹرک میں ریاضی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور ایسی ہوئی کہ بورڈ کے امتحانات میں بھی ہمیشہ ریاضی میں پورے نمبر اور صرف ریاضی کی کتاب تھی جو ساری آتی تھی اور وہ شاید ریاضی ہی کرتی رہتی تھی۔ میٹرک میں نوے فیصد سے اوپر نمبر آئے اور گھر والوں نے بائیو رکھنے کا کہہ ڈالا۔
ستم ظریفئ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اِس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کُچلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی رائے کی کیا اہمیت؟ اور وہ بھی اپنے لیے کیونکر لڑتی ؟ والدین کبھی برا تو نہیں چاہتے نا ! ان کی آنکھیں وہ دیکھتی ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔۔۔ چاہے ہمارا سب کچھ لہو لہو ہوتا رہے۔ کوئی بات نہیں ! سب کا ہوتا ہے! خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔ اسی لیے ہر گھر میں کتنی خواہشوں کے ستاروں کی بلی جان بوجھ کر لی جاتی ہے۔۔ کہ یہی ایک راستہ ہے اپنے پیاروں کو نویدِ سحر دینے کا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی اور معاشرے کی رَو سے ذرا اِدھر اُدھر کھِسکنے والی قوم نہیں !
خیر اُس نے ایف ایس سی پری میڈیکل کی۔ بائیولوجی میں سب سے کم جی لگا۔ فزکس سب سے زیادہ پسند تھی۔ انٹری ٹیسٹ میں سب سے زیادہ پورشن بائیولوجی کا تھا، سو وہ پاس نہ ہوسکا یا شاید یہی انٹری ٹیسٹ اُس کے کسی پسند کے شعبے کا ہوتا جس کیلئے وہ بنی تھی تو اس کی اپنی کوتاہیوں کی فہرست بھی اِتنی بڑی نہ ہوتی۔ مزید تعلیم کیلئے اُس کو فزکس کا شعبہ پسند تھا مگر ادارے فزکس کے شعبے میں صرف پری انجینئرنگ والے سٹوڈنٹس کو رکھتے ہیں اور اُسے بائیو کی ایک ایسی فیلڈ (نباتیات) میں داخلہ دلوا دیا گیا جس کی سمجھ اُسے پوری بائیو میں سب سے کم تھی۔ وطنِ عزیز میں بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت ہے کہ زندگی کے سبھی اہم معاملوں میں بچے کو کسی بھی جگہ ''اَڑا'' دو ، پیار خود ہی ہو جائے گا۔ مگر پانچ سال اس ''ارینج فیلڈ'' میں گُزارنے کے بعد بھی اُسے پیار نہ ہوسکا بلکہ شاید وہ پہلے سے بھی گئی گُزری ہوگئی۔ جو آتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ شوق سے کچھ بھی نہیں کِیا۔ مگر وقت کی بہترین خوبی یہی ہے کہ یہ گُزر جاتا ہے۔ پہاڑ سے پانچ سال بھی گُزر گئے۔ آسماں نے اپنا رنگ بدلا اور آج ایم فل کیلئے پاکستان بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں سے آئے ہوئے لگ بھگ دو سو بچوں میں سے اُس کو بین الاقوامی سطح پر مانا جانے والے اور پاکستان کے بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ کے بہترین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مٹھی بھر منتخب سٹوڈنٹس کی صف میں شامل کر لیا گیا اور آج اُسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ ''صحیح'' فیلڈ میں ہے۔ جس میں وہ پیار اور لگن سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور جس میں کام کرنے کا واقعی کوئی فائدہ پہنچے گا اور آگے کی کہانی تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع ہونے والی کہانی وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے پر ختم ہو جاتی ہے مگر اصل زندگی میں ایک کہانی کی ہنسی خوشی کسی نئی کہانی کی تمہید ہوتی ہے۔ خدا جانے کاتبِ تقدیر کیا لکھنے میں مصروف ہو مگر میں تو ایک ایسی لڑکی کی کہانی لکھنے میں مصروف ہوں جو کہ میں خود ہوں۔ مریم''![]()