شاہد شاہنواز
لائبریرین
اس غزل کے قوافی کچھ عجیب سے ہیں۔ میں انہیں صوتی قافیہ سمجھتا رہا ہوں لیکن بقول مزمل شیخ بسمل یہ غلط ہے۔ سو یہ قافیے بھی درست ہیں یا غلط، تنقید کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی رہنمائی کی درخواست ہے۔
بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟
ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے
وہ میدان اپنی مرضی سے مقدر چھوڑ دے جس کو
اسی میدان میں انسان خود قسمت بناتا ہے
دوا ممکن نہیں اس کی، دعا مانگی نہیں جاتی
نکلتی ہی نہیں دل سے محبت نام جس کا ہے
لہو دے کر کیاجاتا ہے روشن جن چراغوں کو
مقدر ان چراغوں کا سدا جلتے ہی رہنا ہے
وہ اپنی سوچ دیوانوں سے بہتر کیوں سمجھتے ہیں؟
خردمندوں نے کب سمجھا جو دیوانوں نے سوچا ہے؟
خزاں کے موسموں سے گل محبت کیوں نہیں کرتے؟
بہار آجائے گلشن میں تو کیونکر پھول کھلتا ہے؟
قدم کو چاند پر رکھ کر بھی انساں یہ نہیں سمجھا
جسے انسان کہتے ہیں، وہ ان چیزوں سے پیارا ہے
سبھی کہتے ہیں سب سے محترم جانوں کی حرمت ہے
لہو پھر بھی نہیں رُکتا، یہ آخر جرم کس کا ہے؟
سڑک دھل ہی گئی لیکن وہ سرخی اب بھی باقی ہے
مرے چاروں طرف آخر یہ کس کا خون بکھرا ہے؟
وہی ہے چار دیواری بھی، چھت بھی قید خانے میں
وہی سب کچھ ہے اس گھر میں جہاں اپنا بسیرا ہے
اب تین قطعات جو میں نے لکھے ہیں، وہ پیش ہیں، بشرطیکہ وہ قطعات کہلانے کے لائق ہوں۔
پہلے میں پہلا مصرع کمزور لگتا ہے مجھے، لیکن یہ فیس بک پر اسی طرح لکھا گیا تھا۔۔۔
بسے وہ ہم سے جا کر دور، کتنے دور؟ پوچھو مت!
صدائے زندگی کا جن کو سوز و ساز ہونا تھا
محبت کی تو پائی ہی نہیں ان کی جھلک شاہد
وہیں پر ختم افسانہ، جہاں آغا ز ہونا تھا
دوسرا یا تو مکمل طور پر درست ہے، یا پورا غلط۔۔۔
اجل کیوں زندگی لگنے لگی ہے ؟
تو اپنی زندگی پر غور کرلے
اگر بھاتی نہیں تجھ کو محبت
محبت چھوڑ دے، کچھ اور کرلے
تیسرا فرمائش پر لکھا گیا کہ آپ اس فتنے پر کیوں نہیں لکھتے جس پر ہر اہل قلم کو آج کے دور میں لکھنا چاہئے۔۔۔ سو یہ اب تک کی تمام کوششوں سے بالکل مختلف ہے، تاہم اس پر شک وزن سے گرنے کا بھی ہے کیونکہ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کی تقطیع میرے لیے بعید از فہم ہے۔۔۔
زمانہ ماضی سے بد تر ہے عہد حاضر کا
کہ جس کا سنتے تھے وہ حال سر پہ آپہنچا
صدائیں آنے لگی ہیں کہ جنگ لازم ہے
سنا ہے فتنہ دجال سر پہ آپہنچا
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب
بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟
ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے
وہ میدان اپنی مرضی سے مقدر چھوڑ دے جس کو
اسی میدان میں انسان خود قسمت بناتا ہے
دوا ممکن نہیں اس کی، دعا مانگی نہیں جاتی
نکلتی ہی نہیں دل سے محبت نام جس کا ہے
لہو دے کر کیاجاتا ہے روشن جن چراغوں کو
مقدر ان چراغوں کا سدا جلتے ہی رہنا ہے
وہ اپنی سوچ دیوانوں سے بہتر کیوں سمجھتے ہیں؟
خردمندوں نے کب سمجھا جو دیوانوں نے سوچا ہے؟
خزاں کے موسموں سے گل محبت کیوں نہیں کرتے؟
بہار آجائے گلشن میں تو کیونکر پھول کھلتا ہے؟
قدم کو چاند پر رکھ کر بھی انساں یہ نہیں سمجھا
جسے انسان کہتے ہیں، وہ ان چیزوں سے پیارا ہے
سبھی کہتے ہیں سب سے محترم جانوں کی حرمت ہے
لہو پھر بھی نہیں رُکتا، یہ آخر جرم کس کا ہے؟
سڑک دھل ہی گئی لیکن وہ سرخی اب بھی باقی ہے
مرے چاروں طرف آخر یہ کس کا خون بکھرا ہے؟
وہی ہے چار دیواری بھی، چھت بھی قید خانے میں
وہی سب کچھ ہے اس گھر میں جہاں اپنا بسیرا ہے
اب تین قطعات جو میں نے لکھے ہیں، وہ پیش ہیں، بشرطیکہ وہ قطعات کہلانے کے لائق ہوں۔
پہلے میں پہلا مصرع کمزور لگتا ہے مجھے، لیکن یہ فیس بک پر اسی طرح لکھا گیا تھا۔۔۔
بسے وہ ہم سے جا کر دور، کتنے دور؟ پوچھو مت!
صدائے زندگی کا جن کو سوز و ساز ہونا تھا
محبت کی تو پائی ہی نہیں ان کی جھلک شاہد
وہیں پر ختم افسانہ، جہاں آغا ز ہونا تھا
دوسرا یا تو مکمل طور پر درست ہے، یا پورا غلط۔۔۔
اجل کیوں زندگی لگنے لگی ہے ؟
تو اپنی زندگی پر غور کرلے
اگر بھاتی نہیں تجھ کو محبت
محبت چھوڑ دے، کچھ اور کرلے
تیسرا فرمائش پر لکھا گیا کہ آپ اس فتنے پر کیوں نہیں لکھتے جس پر ہر اہل قلم کو آج کے دور میں لکھنا چاہئے۔۔۔ سو یہ اب تک کی تمام کوششوں سے بالکل مختلف ہے، تاہم اس پر شک وزن سے گرنے کا بھی ہے کیونکہ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کی تقطیع میرے لیے بعید از فہم ہے۔۔۔
زمانہ ماضی سے بد تر ہے عہد حاضر کا
کہ جس کا سنتے تھے وہ حال سر پہ آپہنچا
صدائیں آنے لگی ہیں کہ جنگ لازم ہے
سنا ہے فتنہ دجال سر پہ آپہنچا
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب