نیرنگ خیال

لائبریرین
بد کار
از قلم واصف (میرے ایک محترم دوست)​

جب میں سنِ بلوغت کو پہنچا تو کچھ انجانے الفاظ نے ذہنی توجہ کا گھیراؤ کیاجن میں سے ایک تھا "جسم فروش"- جب ذہنی پختگی اور معاشرتی شعور سے ہمکنار ہوا تودرج بالا لفظ اور اس کے مفہوم سے آشنا ہوا-

معلوم ہوا کہ جسم فروشی ایک باقاعدہ پیشہ بن ہے اور کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پیشے کو نہ صرف سراہتی ہیں بلکہ اس میں شمار افراد کی حفاظت کے بھی کافی قوانین بن چکے ہیں- مغربی ممالک میں ان قوانین کی پاسداری نہ کرنا ایک سنگین جرم سے کم نہیں اور اس کی باقاعدہ سزا بھی ہے-

جسم فروش کا باہم تعلق بدکار سے ہوتا ہے جو محظ اپنی تسکین کے لیے کچھ روپے کے عوض کسی جسم فروش کا استعمال کرتا ہے- بد کار کی اسی پہچان سے میں برسوں سے آشنا تھا لیکن اک روز کچھ عجب ماجرا ہوا جس نے میرے سوچنے کا انداز بدل دیا-

نئی سوچ کے ترازو میں اگرتولوں توبہت سی با وقار شخصیات شرافت کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہیں- لیکن کیا میں صحیح سوچتا ہوں؟ میں اپنی قصیرالعلمی اور ناقص سوچ کے باعث ہر گز اپنے سوچنے کے انداز کو صحیح یا کسی اور کے سوچنے کے انداز کو غلط نہ کہوں گا- بلکہ یہ فیصلہ پڑھنے والے پر ہی چھوڑ دوں گا-

گھر میں لکڑی کا کچھ کام درپیش تھا، میں اتوار کے روز حسب عادت صبح صبح اٹھ چکا تھا اور دیگر افراد کو اٹھنے پر اکسا رہا تھا- بمشکل صبح کے دس بجے ناشتہ کر، سب کاموں کی فہرست بنا کر گھر سے نکلا- جو کام آج سب سے زیادہ ضروری تھا وہ لکڑی کٹوا کر بےبی کاٹ کا فرشی تختہ بنوانا تھا- اسی کام کی غرض سی میں پنڈورہ چنگی چلا گیا اور اپنی خواہش کے کام کے بارے میں چند لکڑی کے ٹالوں پر یکے بعد دیگرے بیاں کیا- آخرایک ٹال کے سیلز ڈیسک پر بیٹھے آدمی (جو شاید اس ٹال کا منیجر تھا) نے میرا بیان کردہ کام کرنے کی ہامی بھر لی- جب پیسوں کا معاملہ طے پا گیا تو اس نے مجھے اندر چلے جانے کو کہ دیا اور ایک آدمی کو شیشہ والی کھڑکی سے میرے اندر آنے کے بارے میں مطلع کیا۔

ٹال کے اندر بے حد شور تھا، کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی- میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر میں نے یہاں تھوڑا اور وقت گزارہ تو قوت سماعت سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا-

ایک آدمی سر سے لے کر پاؤں تک لکڑی کے برادے میں ڈوبا ہوا میری طرف بڑھا اور اندر کی طرف موجود ایک ہال کی طرف اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا- میں اس کے تعاقب میں اسے ہال میں پہنچ گیا- اس جگہ شورکم تھا میں نے اکرم کو اپنے مطلوبہ کام کے بارے میں بتلایا-

"اکرم"، ہاں اس آدمی کا نام اکرم تھا، کسی نے اس کو اسی نام سے پکارا تھا- اس کی عمر لگ بھگ پچاس سال سے کچھ زیادہ ہو گی- اکرم بہت ہنر مند تھا، یہ میں اس کے کام کرنے کے انداز سے فورا سمجھ گیا تھا- اکرم دونوں کانوں سے تقریبا بہرہ تھا، اس کا ایک ہاتھ کلای تک کٹا ہوا تھا- اور لکڑی کے برادے سے اس کی آنکھیں دہکتے ہوئے انگارے کی مانند سرخ تھیں- اکرم میرے بتائے ہوئے کام کا آغاز کر چکا تھا- مجھے اس کو سمجھانے کے لیئے کافی اونچا بولنا پڑ رہا تھا- اپنی عادت سے مجبور مجھ سے رہا نہیں گیا اوراونچا بولنے کی زک کے باوجود میں نے اکرم سے بات چیت شروع کی-

جب اکرم مجھ سے کچھ بے تکلف ہو گیا تو میں نے اس کے کٹے ہوئے ہاتھ کے بارے میں دریافت کیا- اکرم نے میری شکل غور سے دیکھی، کچھ سوچا اور بولا صاحب رہنے دیں کیا کریں گے جان کر- میرے اسرار پر اکرم نے بتایا کہ وہ جو باہر آپ آرا چلتا ہوا دیکھ رہے ہیں نا اسی میں اک روز میرا ہاتھ پھنس کر کٹ گیا تھا- یہ کوئی بیس سال پرانی بات تھی- اکرم لگ بھگ پچیس سال سے اسی ٹال پر ملازم تھا- اکرم نے مزید بتایا کی اس کے دونوں کانوں کی قوت سماعت بھی اسی آرا مشین کے شور کی نظر ہو گئی ہے اور اب اس کو بہت کم سنائی دیتا ہے- اور آنکھیں بھی ساری رات پانی ٹپکاتی ہیں اور کسی نیم حکیم کی دوائی سے اس کی آنکھیں اور خراب ہو گئی ہیں-

میرے دریافت کرنے پر اکرم نے واضح کیا کہ مالک نے اس کے ہاتھ کٹ جانے کے حادثہ پر اس کی بیوی کو پانچ ہزار روپے دیے تھے جب اکرم سرکاری ہسپتال میں زیر علاج تھا- اس کے علاوہ آج تک اکرم کواگرمزید کچھ دیا گیا تھا تو وہ تھیں کام سےنکال دینے کی دھمکیاں، جھڑکیاں، اضافی کام اور کم تنخواہ پر کام کرنے پردباؤ-

میرے دریافت کرنے پر اکرم نے واضح کیا کہ میرے کٹے ہوئے ہاتھ کی وجہ سے مجھے کوئی اور ٹال والا کام پر نہیں رکھتا- ایک ٹال پر مجھے نوکری ملی بھی تھی مگر جب اس ٹال کے مالک کو پتہ چلا تو اس نے میری نوکری چھڑوا دی کیونکہ اس ٹال کا مالک بھی میرے مالک کا رشتہ دار تھا-

ٹال کا مالک اپنی چاندی کے لیےاکرم اور اس جیسے کئی اور ملازمین کے اجسام کا بلا تعلق استعمال پچھلے بیس سال سے کرتا آ رہا تھا- اکرم جو اپنے اعضا اس ٹال کے مالک کی ناکافی احتیاطی تدابیرکے باعث کھو بیٹھا تھا، اسی آس میں کام پر آ جاتا تھا کہ اس کے بچوں کو دو وقت کی روٹی میسر آ جائے گی- اس طرح کے جسمانی استعمال کہ جس کا معاوضہ بھی استعمال کے مطابق نہ ہو، میں بدکاری نہ کہوں تو کیا کہوں؟ بلکہ یہ فعل تو بدکاری سے بھے نچلے درجے کا ہے- بد کاری کرنے والا کم از کم جسم فروش کو اس کام کا طہ شدہ معاوضہ تو دے دیتا ہے- اکرم بیچارے کو تو اس کے کام کے مطابق معاوضہ بھی نہیں ملتا-

اکرم نے میرا فرشی تختہ تیار کر دیا تھا، اکرم کا کام بہت عمدہ تھا میں نے اس کو اپنی استطاعت کے مطابق چند روپے بطورانعام دیے اور باہرنکل آیا- کافی سوچا کہ پولیس میں رپورٹ درج کروا دوں، اکرم کو کہیں اور نوکری دلوا دوں یا کسی طرح اکرم کی مدد کروں پرافسوس کچھ قابل ذکرنہ کر سکا-

لیکن اس دن کے بعد سے ایسے تمام مالکان جو اپنے ملازمین سے ان کی استطاعت سے زیادہ کام لیتے ہیں، ملازمین کی دوران کام حفاظت کو ترجیح نہیں دیتے، اپنی چاندی کے لیئے ملازمین کو اوور ٹائم لگانے پر مجبور کرتے ہیں اورملازمین کی محنت کا پھل اکیلے ہی ہڑپ کر جاتے ہیں ان کو میں اب نئی سوچ کے آئینے سے دیکھتا ہوں- اور آپ ایسے لوگوں کو کیسے دیکھتے ہیں یہ میں آپ پر چھوڑے دیتا ہوں----
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی اور سچی تحریر ہے۔

ہم میں سے ہر شخص کو اپنے معمولات کو انتہائی کڑی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ دانستہ یا نادانستہ کسی کا حق غضب تو نہیں کر رہا۔ کسی کے استحصال کا سبب تو نہیں بن رہا۔ کسی کی مجبوری کا فائدہ تو نہیں اُٹھا رہا۔

شکریہ اس شراکت کا۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جب تمہیں شرم نہیں تو جو جی میں آئے کرو۔۔۔ یہ وہ قول ہے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ برائی اور بھلائی کے درمیان حد فاصل صرف شرم ہے۔ غلط کام اور بدکاری دونوں کو ایک بتایا گیا، یہ الگ بات کہ ہر جرم ایک سا نہیں ہوتا۔ لیکن اس بات میں دونوں کو ایک ہی سمجھنا چاہئے کہ ان کا جرم ہونا یا غلط ہونا مشترک ہے۔ اس کے بعد یہ تقابل آتا ہے کہ کس جرم کی شدت کتنی اور کیا ہے۔ ایک جرم جسم فروشی کا ہے، یہ حیا اور ایمان کی بات ہے۔ اسلام کہتا ہے ایک دل میں حیا اور ایمان بالکل ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ جب ان میں سے ایک رخصت ہوجائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔ یعنی جسم فروشی کوئی مرد یا عورت اپنی مرضی سے کرے تو اس کا ایمان نہیں رہتا۔ لیکن لوگوں کے حقوق غصب کرنا، کام کروا کر اجرت نہ دینا کوئی معمولی گناہ نہیں ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص گدھے کے گوشت یا خنزیر سے تو کراہت کرے لیکن رشوت کی کمائی سے بکرا حلال کرکے کھانے کو برا نہ سمجھے ۔۔۔
 

زبیر حسین

محفلین
جھنجوڑنے والی تحریر ہے۔۔۔
لیکن یہ ایک اکرم کا قصہ نہیں ۔۔
اپنی آنکھوں سے دیکھے بہت سارے واقعات ہیں جو لوگ اپنا گھر بار اپنا وطن چھوڑ چھاڑ کے یہاں پردیس میں آ جاتے ہیں اچھے بھلے پڑھے لکھے لاکھوں روپے دے کر لیبر ویزے پر آتے ہیں جانوروں کی طرح بوجھ اٹھانے کا کام کرتے ہیں بیمار پڑ جائیں تو چھٹی نہیں کر سکتے ۔۔کہ سپلائی کمپنیاں اس دن کی اجرت کاٹ لیں گی۔۔۔۔بیماری کی حالت میں لوگوں کے ساتھ جانوروں والا سلوک ہوتے دیکھا ہے۔خالی پیٹ لوگوں کو کام کرتے دیکھا ہے،یہاں آکر بیچارے ایسے مجبور ہو جاتے ہیں کہ آنے کے لئے جو قرض لیا تھا اترتا نہیں تنخواہیں کم ۔۔۔گھر بھی چلانا ہے اس مجبوری میں دن چڑھتا ہے ڈھل جاتا ہے ان کے ساتھ یہ بدکاری کہیں اور نہیں مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتی رہتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے۔

ہمارے معاشرے میں یہ عام ہے۔ خاص کر اینٹوں کے بھٹے اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ اور ان پر تو پورے پورے خاندان کام کرتے ہیں اور ان کا اس سے بڑھ کر استحصال ہوتا رہتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کے علاوہ ہمارے ہاں اکثریت بچے یا خواتین جو گھر کے کام کرنے آتی ہیں، ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔ سخت سردیوں میں گھر میں پوچا لگوانا، ٹھنڈے پانی سے برتن دھلوانا، بارش کیچڑ والے دن بھی ان کو چھٹی نہ دینا، اگر وہ پھسل کر زخمی ہو جائیں یا ان کے بچے بیمار ہوں اور غیر حاضری کی صورت میں ان سے تلخ کلامی اور ان سے حقارت کا سلوک، ان کی اجرت کاٹ لینا یا بروقت نہ دینا، یہ سب بھی اسی بدکاری کی ہی قسمیں ہیں۔ بس اپنے آس پاس اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، اس بدکاری کی بے شمار اقسام دکھائی دے جائیں گی۔ اوپر میں نے اسی وجہ سے نو کمنٹس لکھا تھا :(
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس کے علاوہ ہمارے ہاں اکثریت بچے یا خواتین جو گھر کے کام کرنے آتی ہیں، ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔ سخت سردیوں میں گھر میں پوچا لگوانا، ٹھنڈے پانی سے برتن دھلوانا، بارش کیچڑ والے دن بھی ان کو چھٹی نہ دینا، اگر وہ پھسل کر زخمی ہو جائیں یا ان کے بچے بیمار ہوں اور غیر حاضری کی صورت میں ان سے تلخ کلامی اور ان سے حقارت کا سلوک، ان کی اجرت کاٹ لینا یا بروقت نہ دینا، یہ سب بھی اسی بدکاری کی ہی قسمیں ہیں۔ بس اپنے آس پاس اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، اس بدکاری کی بے شمار اقسام دکھائی دے جائیں گی۔ اوپر میں نے اسی وجہ سے نو کمنٹس لکھا تھا :(
ہم اس سے یہ سمجھے کہ آپ کو پوسٹ ہی پسند نہیں آئی ۔۔۔ گویا کہ آپ اس پر گفتگو کو غلط سمجھتے ہیں۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
گُڈ ۔۔ اچھی تحریر ہے نیرنگ ۔۔ معاشرے میں عام ۔۔ ایسی کئی مثالیں ہیں ۔۔ ہر گاؤں ہرشہر ۔۔ بلکہ مشروقِ وسطٰی میں بھی ۔۔
لیبر لاء تو موجود ہے پر عمل نہ ہونے کے برابر ۔۔ ایک دو واقعہ میں شئیر کرونگا بعد میں ۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم اس سے یہ سمجھے کہ آپ کو پوسٹ ہی پسند نہیں آئی ۔۔۔ گویا کہ آپ اس پر گفتگو کو غلط سمجھتے ہیں۔۔۔
دونوں ہی باتیں نہیں ہیں۔ پوسٹ پسند نہ آتی یا اس پر گفتگو نہ کرنا چاہتا ہوتا تو پہلے مراسلے کو متفق کی ریٹنگ نہ دیتا :)
اس پر بات اس لئے نہیں کرنا چاہ رہا کہ اس سے میری تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ دل نہیں چاہتا کہ پھر سے زخم کریدے جائیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اچھی اور سچی تحریر ہے۔

ہم میں سے ہر شخص کو اپنے معمولات کو انتہائی کڑی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ دانستہ یا نادانستہ کسی کا حق غضب تو نہیں کر رہا۔ کسی کے استحصال کا سبب تو نہیں بن رہا۔ کسی کی مجبوری کا فائدہ تو نہیں اُٹھا رہا۔

شکریہ اس شراکت کا۔
بے شک اور ایک حساس دل کا نوحہ بھی۔۔۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جھنجوڑنے والی تحریر ہے۔۔۔
لیکن یہ ایک اکرم کا قصہ نہیں ۔۔
اپنی آنکھوں سے دیکھے بہت سارے واقعات ہیں جو لوگ اپنا گھر بار اپنا وطن چھوڑ چھاڑ کے یہاں پردیس میں آ جاتے ہیں اچھے بھلے پڑھے لکھے لاکھوں روپے دے کر لیبر ویزے پر آتے ہیں جانوروں کی طرح بوجھ اٹھانے کا کام کرتے ہیں بیمار پڑ جائیں تو چھٹی نہیں کر سکتے ۔۔کہ سپلائی کمپنیاں اس دن کی اجرت کاٹ لیں گی۔۔۔ ۔بیماری کی حالت میں لوگوں کے ساتھ جانوروں والا سلوک ہوتے دیکھا ہے۔خالی پیٹ لوگوں کو کام کرتے دیکھا ہے،یہاں آکر بیچارے ایسے مجبور ہو جاتے ہیں کہ آنے کے لئے جو قرض لیا تھا اترتا نہیں تنخواہیں کم ۔۔۔ گھر بھی چلانا ہے اس مجبوری میں دن چڑھتا ہے ڈھل جاتا ہے ان کے ساتھ یہ بدکاری کہیں اور نہیں مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتی رہتی ہے۔
"مزدور یہاں کے دیوانے ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں" :(
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے۔

ہمارے معاشرے میں یہ عام ہے۔ خاص کر اینٹوں کے بھٹے اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ اور ان پر تو پورے پورے خاندان کام کرتے ہیں اور ان کا اس سے بڑھ کر استحصال ہوتا رہتا ہے۔
بھٹے کی تو بات ہی مت کریں شمشاد بھائی۔۔۔ انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے وہاں۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
گُڈ ۔۔ اچھی تحریر ہے نیرنگ ۔۔ معاشرے میں عام ۔۔ ایسی کئی مثالیں ہیں ۔۔ ہر گاؤں ہرشہر ۔۔ بلکہ مشروقِ وسطٰی میں بھی ۔۔
لیبر لاء تو موجود ہے پر عمل نہ ہونے کے برابر ۔۔ ایک دو واقعہ میں شئیر کرونگا بعد میں ۔۔
انتظار رہے گا عمر بھائی :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جب تمہیں شرم نہیں تو جو جی میں آئے کرو۔۔۔ یہ وہ قول ہے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ برائی اور بھلائی کے درمیان حد فاصل صرف شرم ہے۔ غلط کام اور بدکاری دونوں کو ایک بتایا گیا، یہ الگ بات کہ ہر جرم ایک سا نہیں ہوتا۔ لیکن اس بات میں دونوں کو ایک ہی سمجھنا چاہئے کہ ان کا جرم ہونا یا غلط ہونا مشترک ہے۔ اس کے بعد یہ تقابل آتا ہے کہ کس جرم کی شدت کتنی اور کیا ہے۔ ایک جرم جسم فروشی کا ہے، یہ حیا اور ایمان کی بات ہے۔ اسلام کہتا ہے ایک دل میں حیا اور ایمان بالکل ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ جب ان میں سے ایک رخصت ہوجائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔ یعنی جسم فروشی کوئی مرد یا عورت اپنی مرضی سے کرے تو اس کا ایمان نہیں رہتا۔ لیکن لوگوں کے حقوق غصب کرنا، کام کروا کر اجرت نہ دینا کوئی معمولی گناہ نہیں ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص گدھے کے گوشت یا خنزیر سے تو کراہت کرے لیکن رشوت کی کمائی سے بکرا حلال کرکے کھانے کو برا نہ سمجھے ۔۔۔
بے شک سچ بات کی آپ نے۔۔۔
 
Top