برائے اصلاح (الٹ پلٹ ہوئی دنیا - بسبب کرونا وائرس)

زبیر صدیقی

محفلین
السلام علیکم ۔تمام صاحبان اور محترم اساتذہ۔ اایک تازہ غزل ہے موجودہ حالات پر۔ برائے مہربانی ایک نظر ہو۔
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل

اُلٹ پُلٹ ہوئی دنیا، ہیں روز و شب بھی عجیب
یا مل رہی ہے اِنہیں قدرتاً نئی ترتیب

دیا گیا ہے محبت کو اِک نیا دستور
حبیب دُور ہوا ہے مگر قریب رقیب

تماشہ کیا ہو، کہاں ہو، تماش بیں ہی نہیں
تماشہ گر کو بھی کرنی ہے کچھ نئی ترکیب

تھمے جو وقت کی رفتار اور ملے موقع
امیر دیکھے کہ رہتا رہا ہے کیسے غریب

نمود اور نمائش ہوئی ہے یوں بے کار
فقط ہے چند نفَس پر ہی مشتمل تقریب

جو موج و مستی کا ہنگام تھا، نہیں ہے اب
تو سوچنا ہے کہ وہ تھا کیا عنصرِ تہذیب

سویرے دیر سے اٹھنا تو جاگنا شب بھر
نہیں رہی تھی کبھی بھی سلَف کی یہ ترغیب

محاسبہ ہو، ملا ہے یہ وقت قسمت سے
وگرنہ کہنے کو کیا ہو ہمیں حُضورِ حسیب

والسلام۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے بس دو اشعار میں کچھ سوال اٹھتا ہے
تھمے جو وقت کی رفتار اور ملے موقع
امیر دیکھے کہ رہتا رہا ہے کیسے غریب
....' رہتا رہا ہے' عجیب نہیں لگتا؟
امیر دیکھے کہ رہتا ہے کس طرح سے غریب
بہتر ہو گا

جو موج و مستی کا ہنگام تھا، نہیں ہے اب
تو سوچنا ہے کہ وہ تھا کیا عنصرِ تہذیب
.. اس کا بھی ثانی مصرع یوں بہتر ہو شاید
تو/یہ سوچنا ہے کہ کیا تھا وہ.... یا 'تھا کیا' بھی ممکن ہے
 

زبیر صدیقی

محفلین
اچھی غزل ہے بس دو اشعار میں کچھ سوال اٹھتا ہے
تھمے جو وقت کی رفتار اور ملے موقع
امیر دیکھے کہ رہتا رہا ہے کیسے غریب
....' رہتا رہا ہے' عجیب نہیں لگتا؟
امیر دیکھے کہ رہتا ہے کس طرح سے غریب
بہتر ہو گا

جو موج و مستی کا ہنگام تھا، نہیں ہے اب
تو سوچنا ہے کہ وہ تھا کیا عنصرِ تہذیب
.. اس کا بھی ثانی مصرع یوں بہتر ہو شاید
تو/یہ سوچنا ہے کہ کیا تھا وہ.... یا 'تھا کیا' بھی ممکن ہے
بہت نوازش۔ شکریہ آپ کا۔ بالکل میں ایسے ہی کیے دیتا ہوں۔ تصیح شدہ غزل درج ذیل ہے۔

اُلٹ پُلٹ ہوئی دنیا، ہیں روز و شب بھی عجیب
یا مل رہی ہے اِنہیں قدرتاً نئی ترتیب

دیا گیا ہے محبت کو اِک نیا دستور
حبیب دُور ہوا ہے مگر قریب رقیب

تماشہ کیا ہو، کہاں ہو، تماش بیں ہی نہیں
تماشہ گر کو بھی کرنی ہے کچھ نئی ترکیب

تھمے جو وقت کی رفتار اور ملے موقع
امیر دیکھے کہ رہتا ہے کس طرح سے غریب

نمود اور نمائش ہوئی ہے یوں بے کار
فقط ہے چند نفَس پر ہی مشتمل تقریب

جو موج و مستی کا ہنگام تھا، نہیں ہے اب
یہ سوچنا ہے کہ تھا کیا وہ عنصرِ تہذیب

سویرے دیر سے اٹھنا تو جاگنا شب بھر
نہیں رہی تھی کبھی بھی سلَف کی یہ ترغیب

محاسبہ ہو، ملا ہے یہ وقت قسمت سے
وگرنہ کہنے کو کیا ہو ہمیں حُضورِ حسیب

والسلام
 

زبیر صدیقی

محفلین
مشورہ:
اُتھل پُتھل ہوئی دنیا میں روز و شب ہیں عجیب
ماشااللہ۔زبردست روانی کر دی ہے۔
اس میں بس ایک بات ہے کہ، دوسرا مصرعہ میں جو ترتیب دینے کی بات ہو رہی ہے، وہ روز و شب کی محدود ہو جاتی ہے، جب کہ میرا موقف تھا کہ، دنیا کے مشغولات اور روز و شب کے معمولات - ان سب کو ننی ترتیب مل رہی ہے۔ اگلے اشعار میں ان سب نئی ترتیب کی وضاحت کی کوشش کی ہے۔
 
Top