برائے اصلاح (بحرِ خفیف)

نوید ناظم

محفلین
ہم سے رشتہ ذرا نہیں رکھتا
کہ ستم بھی روا نہیں رکھتا

ایک دل ہی نہیں ملا اس کو
دیکھ لو ورنہ کیا نہیں رکھتا

ہم اسی بت کے ہو گئے آخر
وہ جو خوفِ خدا نہیں رکھتا

ڈر نہیں ہے مجھے اب آندھی کا
میں کوئی بھی دیا نہیں رکھتا

ایک مدت ہوئی ہے سائل کو
لب پہ کوئی صدا نہیں رکھتا

بے وفائی کرو کہ اب دل بھی
آرزوئے وفا نہیں رکھتا

آدمی سانس لے سکے کُھل کر
ہجر ایسی فضا نہیں رکھتا
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو درست بلکہ اچھے ہیں۔ یہ دونوں ہی ہلکے ہیں یا واضح نہیں۔
ہم سے رشتہ ذرا نہیں رکھتا
کہ ستم بھی روا نہیں رکھتا

ایک دل ہی نہیں ملا اس کو
دیکھ لو ورنہ کیا نہیں رکھتا
 

نوید ناظم

محفلین
باقی تو درست بلکہ اچھے ہیں۔ یہ دونوں ہی ہلکے ہیں یا واضح نہیں۔
ہم سے رشتہ ذرا نہیں رکھتا
کہ ستم بھی روا نہیں رکھتا

ایک دل ہی نہیں ملا اس کو
دیکھ لو ورنہ کیا نہیں رکھتا
بہت شکریہ سر۔۔۔
اشعار کو بدل دیا ہے۔۔۔ آپ اِنھیں دیکھیے گا۔
وہ کرم جب روا نہیں رکھتا
کیوں ستم پھر اٹھا نہیں رکھتا

اُس کے سینے میں دل نہیں ہے بس
رکھنے کو ورنہ کیا نہیں رکھتا
 

عظیم

محفلین
بہت شکریہ سر۔۔۔
اشعار کو بدل دیا ہے۔۔۔ آپ اِنھیں دیکھیے گا۔
وہ کرم جب روا نہیں رکھتا
کیوں ستم پھر اٹھا نہیں رکھتا

اُس کے سینے میں دل نہیں ہے بس
رکھنے کو ورنہ کیا نہیں رکھتا

مطلع ابھی بھی درست نہیں لگ رہا نوید ناظم بھائی ۔ اور دوسرے شعر کو یوں کیا جا سکتا ہے ۔

اس کے سینے میں ایک دل ہی نہیں
ورنہ خوبی وہ کیا نہیں رکھتا
 
Top