نوید ناظم
محفلین
ہم سے رشتہ ذرا نہیں رکھتا
کہ ستم بھی روا نہیں رکھتا
ایک دل ہی نہیں ملا اس کو
دیکھ لو ورنہ کیا نہیں رکھتا
ہم اسی بت کے ہو گئے آخر
وہ جو خوفِ خدا نہیں رکھتا
ڈر نہیں ہے مجھے اب آندھی کا
میں کوئی بھی دیا نہیں رکھتا
ایک مدت ہوئی ہے سائل کو
لب پہ کوئی صدا نہیں رکھتا
بے وفائی کرو کہ اب دل بھی
آرزوئے وفا نہیں رکھتا
آدمی سانس لے سکے کُھل کر
ہجر ایسی فضا نہیں رکھتا
کہ ستم بھی روا نہیں رکھتا
ایک دل ہی نہیں ملا اس کو
دیکھ لو ورنہ کیا نہیں رکھتا
ہم اسی بت کے ہو گئے آخر
وہ جو خوفِ خدا نہیں رکھتا
ڈر نہیں ہے مجھے اب آندھی کا
میں کوئی بھی دیا نہیں رکھتا
ایک مدت ہوئی ہے سائل کو
لب پہ کوئی صدا نہیں رکھتا
بے وفائی کرو کہ اب دل بھی
آرزوئے وفا نہیں رکھتا
آدمی سانس لے سکے کُھل کر
ہجر ایسی فضا نہیں رکھتا