برائے اصلاح ( بحرِ رمل)

نوید ناظم

محفلین
اب ان اشکوں میں روانی نہیں ہے
پیاس پی لو، ابھی پانی نہیں ہے

دل کا جو داغ لیے پھرتے ہو
کیا یہ بھی اس کی نشانی نہیں ہے

یہ فسانہ تو مِرے غم کا ہے
کوئی سادہ سی کہانی نہیں ہے

خیر وہ بات نہیں اب دل میں
اور کچھ رت بھی سہانی نہیں ہے

آ مِرے دل کہ چلیں میکدے کو
شامِ ہجراں ہے، منانی نہیں ہے؟

شب کے سینے میں اتارو سورج
دھیان سے، رات جلانی نہیں ہے
 
یاد فرمانے کا شکریہ، نوید بھائی۔
اب ان اشکوں میں روانی نہیں ہے
پیاس پی لو، ابھی پانی نہیں ہے
اچھا۔
دل کا جو داغ لیے پھرتے ہو
کیا یہ بھی اس کی نشانی نہیں ہے
دوسرا مصرع اگر یوں ہو جائے تو بہتر ہو گا:
یہ بھی کیا اس کی نشانی نہیں ہے؟​
یہ فسانہ تو مِرے غم کا ہے
کوئی سادہ سی کہانی نہیں ہے
اچھا۔
خیر وہ بات نہیں اب دل میں
اور کچھ رت بھی سہانی نہیں ہے
خوب۔
آ مِرے دل کہ چلیں میکدے کو
شامِ ہجراں ہے، منانی نہیں ہے؟
مصرعِ اولیٰ کچھ چست معلوم نہیں ہوتا۔
شب کے سینے میں اتارو سورج
دھیان سے، رات جلانی نہیں ہے
واہ۔
 

نوید ناظم

محفلین
یاد فرمانے کا شکریہ، نوید بھائی۔

دوسرا مصرع اگر یوں ہو جائے تو بہتر ہو گا:
یہ بھی کیا اس کی نشانی نہیں ہے؟​

اچھا۔

خوب۔

مصرعِ اولیٰ کچھ چست معلوم نہیں ہوتا۔

واہ۔
اللہ آپ کو سلامت رکھے، ظرف کا بھلا ہو۔

یاد فرمانے کا شکریہ، نوید بھائی۔
جملہ بہت وزنی اور کندھے بڑے کمزور ہیں ۔۔۔ آپ کی عاجزی اپنی جگہ، مگر مجھے بھی شرمندہ ہونے سے بچایا کریں:unsure:


دوسرا مصرع اگر یوں ہو جائے تو بہتر ہو گا:
یہ بھی کیا اس کی نشانی نہیں ہے؟
جی ٹھیک' یوں ہو گیا۔

مصرعِ اولیٰ کچھ چست معلوم نہیں ہوتا۔
مصرع بدل دیا' اب دیکھیے گا ذرا۔۔۔۔

دل چل آ میکدے کو چلتے ہیں
شامِ ہجراں ہے، منانی نہیں ہے؟
 
Top