نوید ناظم
محفلین
زلف زنجیر بھی ہو سکتی ہے
اور نظر تِیر بھی ہو سکتی ہے
عشق میں موت سے بچ جانے کی
کوئی تدبیر بھی ہو سکتی ہے؟
لوگ کہتے ہیں محبت اس کو
بچ کے' تقدیر بھی ہو سکتی ہے
زیست جو ہم نے گزاری ہے وہ
دکھ کی تفسیر بھی ہو سکتی ہے
اُس کی ہر بات میں یہ خوبی ہے
دل پہ تحریر بھی ہو سکتی ہے
غم کے موضوع میں جو وسعت ہے
اس پہ تقریر بھی ہو سکتی ہے
ہم جسے پھول سمجھ بیٹھے تھے
تیری تصویر بھی ہو سکتی ہے
اور نظر تِیر بھی ہو سکتی ہے
عشق میں موت سے بچ جانے کی
کوئی تدبیر بھی ہو سکتی ہے؟
لوگ کہتے ہیں محبت اس کو
بچ کے' تقدیر بھی ہو سکتی ہے
زیست جو ہم نے گزاری ہے وہ
دکھ کی تفسیر بھی ہو سکتی ہے
اُس کی ہر بات میں یہ خوبی ہے
دل پہ تحریر بھی ہو سکتی ہے
غم کے موضوع میں جو وسعت ہے
اس پہ تقریر بھی ہو سکتی ہے
ہم جسے پھول سمجھ بیٹھے تھے
تیری تصویر بھی ہو سکتی ہے