برائے اصلاح: عاطف یہ بتا اور تجھے کیسا خدا دوں؟

عاطف ملک

محفلین
استادِ محترم جناب الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں تنقید و اصلاح کی درخواست کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔

ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

غزل

کچھ ایسا تجھے جرمِ محبت کا صلہ دوں
(کچھ ایسی تجھے جرمِ محبت کی جزا دوں)
تاعمر تجھے قیدِ جدائی کی سزا دوں

دل سے ترے ہر لطف و مسرت کو مٹا دوں
فن تجھ کو غمِ یار میں جینے کا سکھا دوں

اشکوں سے ڈبو دوں مہ و خورشید و کواکب
چیخوں جو تڑپ کر تو میں اک حشر اٹھا دوں

اے کاش مری بات میں تاثیر ہو ایسی
لوں نام تمہارا تو زمانے کو رُلا دوں

خود کو تو فراموش کیے بیٹھا ہوں کب سے
اک بت کی محبت میں خدا کو نہ بھلا دوں

کر مجھ کو عطا صبر کہ بگڑے نہ ترا کھیل
آشفتہ سری میں تری دنیا نہ جلا دوں

اب تک ہے تری ہرزہ سرائی پہ وہ خاموش
عاطف یہ بتا اور تجھے کیسا خدا دوں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث سر۔۔۔۔۔۔۔کچھ ارشاد فرما دیجیے بالخصوص مطلع کے بارے
جرم کی سزا ہوتی ہے، جزا اچھے عمل کی ہوتی ہے سو میرے خیال میں سزا پہلے مصرعے میں ہونی چاہیئے :) لیکن اس سے دوسرا مصرع 'ہِل' جائے گا جب کہ وہ اس وقت بہت اچھا بندھا ہوا ہے سو ہلنا نہیں چاہیے۔ دوسرا جیسا کہ قریشی صاحب نے فرمایا، جزا اور سزا کو مطلع میں لانے سے 'زے' کی قید بیچ میں آن پڑے گی جو کہ دیگر قوافی میں نہیں ہے سو سقم پیدا ہو جائے گا۔

مطلع کے پہلے مصرعے میں 'صلہ' بہتر ہے۔ اس سے قافیہ بھی مزید کشادہ ہو جاتا ہے گو کہ آپ نے ایسا قافیہ دوسرے اشعار میں استعمال نہیں کیا۔
 

عاطف ملک

محفلین
مطلع کے پہلے مصرعے میں 'صلہ' بہتر ہے۔ اس سے قافیہ بھی مزید کشادہ ہو جاتا ہے گو کہ آپ نے ایسا قافیہ دوسرے اشعار میں استعمال نہیں کیا۔
بہت بہتر!
یعنی ایطا سے بچتے بچاتے قافیہ کی کشادگی مفت میں ہاتھ آئی ہے۔
ہم خرما و ہم ثواب۔
اور سر آپ کی تعریف بلا شبہ کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔
سلامت رہیں۔

جزا اور سزا سے ایطا کا سقم پیدا ہو جائے گا اس لیے صلہ ہی بہتر رہے گا میرے مطابق۔
غزل اچھی ہے۔

بہت شکریہ ریحان بھائی ۔۔۔۔۔آپ کی نشاندہی سے قبل ایطا کا مسئلہ ذہن میں ہی نہیں تھا۔
غزل کی تعریف کیلیے بھی شکرگزار ہوں۔

فنی باریکیاں تو اساتذہ کرام ہی جانیں!
غزل زبردست ہے!
نوازش حماد بھائی!
 
واہ عاطف بھائی، بہت عمدہ۔
غزل

کچھ ایسا تجھے جرمِ محبت کا صلہ دوں
تاعمر تجھے قیدِ جدائی کی سزا دوں

دل سے ترے ہر لطف و مسرت کو مٹا دوں
فن تجھ کو غمِ یار میں جینے کا سکھا دوں

اشکوں سے ڈبو دوں مہ و خورشید و کواکب
چیخوں جو تڑپ کر تو میں اک حشر اٹھا دوں

اے کاش مری بات میں تاثیر ہو ایسی
لوں نام تمہارا تو زمانے کو رُلا دوں

خود کو تو فراموش کیے بیٹھا ہوں کب سے
اک بت کی محبت میں خدا کو نہ بھلا دوں

کر مجھ کو عطا صبر کہ بگڑے نہ ترا کھیل
آشفتہ سری میں تری دنیا نہ جلا دوں

اب تک ہے تری ہرزہ سرائی پہ وہ خاموش
عاطف یہ بتا اور تجھے کیسا خدا دوں؟
 
کمال کی غزل ہے عاطف بھائی!
مقطع کے علاوہ باقی اشعار پڑھ کے غالب کا یہ شعر ذہن میں گونجتا ہے۔

عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے مقطع نہیں پڑھا:)
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
ماشاء اللہ بہترین غزل ہے
شکریہ کلیم بھیا!
محبت ہے آپ کی۔
اچھی غزل ہے ماشا اللہ۔
بہت نوازش کاشف بھائی!
سلامت رہیں اور خوش رہیں۔
واہ عاطف بھائی، بہت عمدہ۔
متشکرم!
مری غیر موجودگی میں میرے حقوق کا دفاع کرنے پر الگ سے شکریہ :p
کمال کی غزل ہے عاطف بھائی!
مقطع کے علاوہ باقی اشعار پڑھ کے غالب کا یہ شعر ذہن میں گونجتا ہے۔

عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے مقطع نہیں پڑھا:)
آپ نے جس خوبصورتی سے اس غزل کی تعریف کی ہے،اگر آپ مقطع نہ بھی پڑھتے،تب بھی مجھے اتنی ہی خوشی ہوتی۔
:)
 
Top