نوید ناظم
محفلین
گلہ اب کریں کس سے تِیرہ شبی کا
ہو جو شمس ہی دوست اس تِیرگی کا
یہ تو بس یوں ہی جی گئے چار دن ہم
چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا
سنا ہے اندھیرے اسے لے گئے تھے
کسی نے پتہ پھر کیا روشنی کا؟
ہمارا نہیں ہے تو پھر کیا ہے اس میں
ارے یہ بہت بن گیا وہ کسی کا
جبیں روزِ محشر ملی تیرے در سے
بھئی واہ! لطف آ گیا بندگی کا
اجی ایک دل تو ہمیں دے نہ پائے
سنا تھا بہت ان کی دریا دلی کا
اسے چوم کے رکھ جو سر پر پڑا ہے
یہ پتھر لگے ہے نوید اُس گلی کا
ہو جو شمس ہی دوست اس تِیرگی کا
یہ تو بس یوں ہی جی گئے چار دن ہم
چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا
سنا ہے اندھیرے اسے لے گئے تھے
کسی نے پتہ پھر کیا روشنی کا؟
ہمارا نہیں ہے تو پھر کیا ہے اس میں
ارے یہ بہت بن گیا وہ کسی کا
جبیں روزِ محشر ملی تیرے در سے
بھئی واہ! لطف آ گیا بندگی کا
اجی ایک دل تو ہمیں دے نہ پائے
سنا تھا بہت ان کی دریا دلی کا
اسے چوم کے رکھ جو سر پر پڑا ہے
یہ پتھر لگے ہے نوید اُس گلی کا
آخری تدوین: