برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
گلہ اب کریں کس سے تِیرہ شبی کا
ہو جو شمس ہی دوست اس تِیرگی کا

یہ تو بس یوں ہی جی گئے چار دن ہم
چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا

سنا ہے اندھیرے اسے لے گئے تھے
کسی نے پتہ پھر کیا روشنی کا؟

ہمارا نہیں ہے تو پھر کیا ہے اس میں
ارے یہ بہت بن گیا وہ کسی کا

جبیں روزِ محشر ملی تیرے در سے
بھئی واہ! لطف آ گیا بندگی کا

اجی ایک دل تو ہمیں دے نہ پائے
سنا تھا بہت ان کی دریا دلی کا

اسے چوم کے رکھ جو سر پر پڑا ہے
یہ پتھر لگے ہے نوید اُس گلی کا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
گلہ اب کریں کس سے تِیرہ شبی کا
ہو جو شمس ہی دوست اس تِیرگی کا
÷÷ہو جو میں پہلی واؤ کا اسقاط اور دوسری واؤ کا طویل کھنچنا اچھا نہیں لگ رہا۔
شمس بھی یہاں غربت ارکھتا ہے عمومی لفظی ماحول میں۔ سورج ہی ستعمال کرو۔

یہ تو بس یوں ہی جی گئے چار دن ہم
چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا
روزنی کا طالب ہے، ’تو‘ کا طویل کھنچنا یہاں نا گوار لگ رہا ہے۔

سنا ہے اندھیرے اسے لے گئے تھے
کسی نے پتہ پھر کیا روشنی کا؟
÷÷خوب

ہمارا نہیں ہے تو پھر کیا ہے اس میں
ارے یہ بہت بن گیا وہ کسی کا
÷÷الفاظ مضمون کا ساتھ نہیں دے رہے۔
جبیں روزِ محشر ملی تیرے در سے
بھئی واہ! لطف آ گیا بندگی کا
÷÷ بھئی کی ’ی‘ طویل کھینچی نہیں جاتی، اسقاط پسندیدہ ہے۔ البتہ یہاں اتنا برا بھی نہیں لگ رہا۔

اجی ایک دل تو ہمیں دے نہ پائے
سنا تھا بہت ان کی دریا دلی کا
۔۔درست

اسے چوم کے رکھ جو سر پر پڑا ہے
یہ پتھر لگے ہے نوید اُس گلی کا
÷÷’سر پر پڑا ہے‘ کا ٹکڑا اچھا نہیں لگ رہا۔ مقطع ضروری ہے کیا، ورنہ دوسرا مصرع بہتر ہو سکتا ہے
یہ پتھر تو لگتا ہے اس کی گلی کا
 

نوید ناظم

محفلین
گلہ اب کریں کس سے تِیرہ شبی کا
ہو جو شمس ہی دوست اس تِیرگی کا
÷÷ہو جو میں پہلی واؤ کا اسقاط اور دوسری واؤ کا طویل کھنچنا اچھا نہیں لگ رہا۔
شمس بھی یہاں غربت ارکھتا ہے عمومی لفظی ماحول میں۔ سورج ہی ستعمال کرو۔

یہ تو بس یوں ہی جی گئے چار دن ہم
چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا
روزنی کا طالب ہے، ’تو‘ کا طویل کھنچنا یہاں نا گوار لگ رہا ہے۔

سنا ہے اندھیرے اسے لے گئے تھے
کسی نے پتہ پھر کیا روشنی کا؟
÷÷خوب

ہمارا نہیں ہے تو پھر کیا ہے اس میں
ارے یہ بہت بن گیا وہ کسی کا
÷÷الفاظ مضمون کا ساتھ نہیں دے رہے۔
جبیں روزِ محشر ملی تیرے در سے
بھئی واہ! لطف آ گیا بندگی کا
÷÷ بھئی کی ’ی‘ طویل کھینچی نہیں جاتی، اسقاط پسندیدہ ہے۔ البتہ یہاں اتنا برا بھی نہیں لگ رہا۔

اجی ایک دل تو ہمیں دے نہ پائے
سنا تھا بہت ان کی دریا دلی کا
۔۔درست

اسے چوم کے رکھ جو سر پر پڑا ہے
یہ پتھر لگے ہے نوید اُس گلی کا
÷÷’سر پر پڑا ہے‘ کا ٹکڑا اچھا نہیں لگ رہا۔ مقطع ضروری ہے کیا، ورنہ دوسرا مصرع بہتر ہو سکتا ہے
یہ پتھر تو لگتا ہے اس کی گلی کا
سر بے حد شکریہ۔۔۔۔۔حکم کے مطابق مشق کی ہے' اشعار کو دیکھیے گا۔۔۔

گلہ پھر کریں کس سے تِیرہ شبی کا
اگر دوست سورج ہو اس تیرگی کا

گزر ہی گئی خیر جیسی بھی گزری
چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا

نہ جانے وہ کیسے مِرا ہو گیا ہے
ستم گر بھی ورنہ ہوا ہے کسی کا

لگا سر پہ تو زخم دل پہ دیا ہے
یہ پتھر بھی لگتا ہے اس کی گلی کا
 
Top