امان زرگر
محفلین
۔۔۔
کس آس پہ آیا ہوں سرِ راہ گزر آج
کچھ بھی تو نہیں پاس مرے زادِ سفر آج
اک تا بہ افق زرد سی رنگت کا دھواں ہے
پھیلا ہوا ہے ایک فلک حدِ نظر آج
احساس نہ ہو سجدہ کناں تیری جبیں سے
بے کار ہے تسبیح بھی اور دیدۂِ تر آج
یہ ظلم فقط تیری ہی بستی میں روا ہے
ملتا ہے بدل میں جو ہر اک گل کے شرر آج
پابندِ قفس تھا یہ اداس اتنا بھلا کب
طائر کہ جو بیٹھا ہے سرِ شاخِ شجر آج
اس شہر کے باسی ہیں جبینوں کے شناسا
دیکھے ہے ترا کون یہاں قلب و جگر آج
یہ چار ہی تنکے ہیں مری عمر کا حاصل
گر برق و شرر بھول گئے اپنا ہنر آج
کس آس پہ آیا ہوں سرِ راہ گزر آج
کچھ بھی تو نہیں پاس مرے زادِ سفر آج
اک تا بہ افق زرد سی رنگت کا دھواں ہے
پھیلا ہوا ہے ایک فلک حدِ نظر آج
احساس نہ ہو سجدہ کناں تیری جبیں سے
بے کار ہے تسبیح بھی اور دیدۂِ تر آج
یہ ظلم فقط تیری ہی بستی میں روا ہے
ملتا ہے بدل میں جو ہر اک گل کے شرر آج
پابندِ قفس تھا یہ اداس اتنا بھلا کب
طائر کہ جو بیٹھا ہے سرِ شاخِ شجر آج
اس شہر کے باسی ہیں جبینوں کے شناسا
دیکھے ہے ترا کون یہاں قلب و جگر آج
یہ چار ہی تنکے ہیں مری عمر کا حاصل
گر برق و شرر بھول گئے اپنا ہنر آج
آخری تدوین: