اسّلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
ایک نئی غزل اصلاح کی متمنی ہے، تمام اساتذۂ کرام و دیگر اہلِ ذوق حضرات احسن سمیع راحل صاحب، شکیل احمد خان صاحب سے گزارش ہے کہ میری اس حقیر کاوش کو ایک بار دیکھ لیں۔
غزل
غیر طعنے بھی دے تم کو مدحت لگے
شکر بھی ہم کریں تو شکا یت لگے
سر بچا لائے ہم کوئے دلدار سے
سر کٹے پر نہ سر پر یہ تہمت لگے
کوئی رشتہ ہے کہنہ مرا تیرے ساتھ
ماسوا تیرے دِل کیوں نہ "خلوت" لگے
گم ہے دل اپنا یورپ کے ہنگام میں
بالِ عنقا سلف کی نصیحت لگے
جامِ جمشید ہو جائے جب ظرفِ دل
جلوہ گر بزمِ کثرت میں وحدت لگے
جان لے کوئے جاناں کے لائق نہیں
اپنے کاندھے پہ جب سر سلامت لگے​
کیا مقطعے کی بات واضح پہنچ رہی ہے قاری تک۔
بدر القادری
 

الف عین

لائبریرین
غیر طعنے بھی دے تم کو مدحت لگے
شکر بھی ہم کریں تو شکا یت لگے
.... ٹھیک

سر بچا لائے ہم کوئے دلدار سے
سر کٹے پر نہ سر پر یہ تہمت لگے
... ایک طرح سے دو لخت ہے کہ دونوں مصرعوں میں الگ الگ صیغے ہیں۔ پہلے مصرع میں عام ماضی لیکن دوسرے میں تمنائی
دوسرا مصرع 'پر نہ سر پر' کی وجہ سے عدم روانی کا شکار ہے
سر کٹے چاہے، سر / اس پر کہ تہمت لگے
کیا جا سکتا ہے

کوئی رشتہ ہے کہنہ مرا تیرے ساتھ
ماسوا تیرے دِل کیوں نہ "خلوت" لگے
... واضح نہیں ہوا

گم ہے دل اپنا یورپ کے ہنگام میں
بالِ عنقا سلف کی نصیحت لگے
.... یہ بھی سمجھ نہیں سکا

جامِ جمشید ہو جائے جب ظرفِ دل
جلوہ گر بزمِ کثرت میں وحدت لگے
.. بزم کثرت؟ اس کا بھی ابلاغ نہیں ہو سکا

جان لے کوئے جاناں کے لائق نہیں
اپنے کاندھے پہ جب سر سلامت لگے
.. درست

کیا مقطعے کی بات واضح پہنچ رہی ہے قاری تک۔
مقطع تو موجود ہی نہیں!
 
کوئی رشتہ پرانا ہے تجھ سے مرا
آپ کی محبّت کہ آپ نے اتنی اچھی تجویز عنایت فرمائی۔
یہ سوال نہیں لگتا شکیل بھائی
اور میرے خیال میں کہنہ اور پرانا میں فقط چہرے مہرے کا تفاوت ہے۔میں اردو لکھنا چاہتا ہو ادب کے ضابطے میں فقط اشعار نہیں۔
دل کھنچے اپنا یورپ کی رونق پہ یوں
بے مزا ب سَلَف کی نصیحت لگے
میرے استاذِ روحانی مرشدنا و مولانا عامر عثمانی رضیہ‌اللّٰہ عنہ نے کہا تھا "بے مزگی کچھ ناصحِ غریب کے ساتھ خاص نہیں مزا تو نصیحت پر اس حسن و جمال کے پیکرِ مجسم کی بھی نہیں آتا جو بال روم کے اسٹیج پر جلوے بکھیر دیتی ہے، یہ کمبخت نصیحت فی نفسہٖ بے مزا ہے۔"
اور آپ جانتے ہونگے یہ بال روم، اسٹیج اور جلوے بھی یورپ کے مرہونِ کرم ہے۔
نصیحت تو اور بے مزا... اصل میں ہم نے "نصائحِ سلفیّہ" کو "بالِ عنقا ہی سمجھا ہے۔
باقی آپکی اور استاذ الف عین صاحب کی استاذی و سخن فہمی کا انکار تو کفرِ ادب ہے، معاذ اللہ العظیم
 
جان لے کوئے جاناں کے لائق نہیں
اپنے کاندھے پہ جب سر سلامت لگے
مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ، ہم ردیف ہوتے ہیں(دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے۔۔۔۔۔آخر اِس درد کی دوا کیا ہے)
اور مقطع میں شاعر کا تخلص اُسے مقطع کہلانے کا حق دلاتا ہے(میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ۔۔۔۔۔۔مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے)ورنہ اسے غزل کا آخری شعر ہی کہا جائے گا مقطع نہیں۔
 
آخری تدوین:
مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ، ہم ردیف ہوتے ہیں(دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے۔۔۔۔۔آخر اِس درد کی دوا کیا ہے)
اور مقطع میں شاعر کا تخلص اُسے مقطع کہلانے کا حق دلاتا ہے(میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ۔۔۔۔۔۔مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے)ورنہ اسے غزل کا آخری شعر ہی کہا جائے گا مقطع نہیں۔
اصطلاحاتِ شعری سے کافی حد تک تہی دامن ہوں
پیر نصیر صاحب نے ایک بیان میں محض قطعِ کلام (نثری کلام کہ اب مقطعے پر ہوں اور بس) کو مقطع کہا ہے۔
آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملےگا۔
 
اصطلاحاتِ شعری سے کافی حد تک تہی دامن ہوں
پیر نصیر صاحب نے ایک بیان میں محض قطعِ کلام (نثری کلام کہ اب مقطعے پر ہوں اور بس) کو مقطع کہا ہے۔
آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملےگا۔
میرے شہزادے بھائی میں خود کاسۂ احتیاج لیے اکثر ’’اُردُو محفل ‘‘ کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہوں اور یہاں آنے جانے والوں کو تکا کرتا ہوں کہ ماشاء اللہ ہر محفلین واقعی اُردُو کا شیدائی ، علم و فضل میں یکتا و یگانہ نظر آتا ہے اور مجھے حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈبو جاتا ہے۔۔۔آپ ہی کے قلم سے سچے موتیوں کی برسات دیکھتا ہوں تو مجھے بے اِختیار آپ کی اِس شستہ و شائستہ اُردُو پر رشک آتا ہے اور اپنی بے مائیگی کو اور زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔خدا آپ کو سلامت رکھے ،آپ کا لکھا ہوا ہر فقرہ،ہر جملہ اور ہر عبارت اُردُو ادب کا مرقع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ آپ کے علم و فضل میں برکت فرمائے۔آمین!
 
سر بچا لائے ہم کوئے دلدار سے
سر کٹے پر نہ سر پر یہ تہمت لگے
... ایک طرح سے دو لخت ہے کہ دونوں مصرعوں میں الگ الگ صیغے ہیں۔ پہلے مصرع میں عام ماضی لیکن دوسرے میں تمنائی
دوسرا مصرع 'پر نہ سر پر' کی وجہ سے عدم روانی کا شکار ہے
سر کٹے چاہے، سر / اس پر کہ تہمت لگے
کیا جا سکتا ہے

میرے شہزادے بھائی میں خود کاسۂ احتیاج لیے اکثر ’’اُردُو محفل ‘‘ کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہوں اور یہاں آنے جانے والوں کو تکا کرتا ہوں کہ ماشاء اللہ ہر محفلین واقعی اُردُو کا شیدائی ، علم و فضل میں یکتا و یگانہ نظر آتا ہے اور مجھے حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈبو جاتا ہے۔۔۔آپ ہی کے قلم سے سچے موتیوں کی برسات دیکھتا ہوں تو مجھے بے اِختیار آپ کی اِس شستہ و شائستہ اُردُو پر رشک آتا ہے اور اپنی بے مائیگی کو اور زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔خدا آپ کو سلامت رکھے ،آپ کا لکھا ہوا ہر فقرہ،ہر جملہ اور ہر عبارت اُردُو ادب کا مرقع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ آپ کے علم و فضل میں برکت فرمائے۔آمین!
اصلاح یوں کی ہے کہ
سر کٹے، سر ولے یہ نہ تہمت لگے​
بڑا بے مزا لگتا ہے "نصیحت" کی طرح
دوسرا مصرع یہ ہے
سر کٹے، سر نہ لیکن یہ تہمت لگے​
استاذ الف عین صاحب بتا ئیں کہ کہاں تک کامیاب ہوں
 
اصلاح یوں کی ہے کہ
سر کٹے، سر ولے یہ نہ تہمت لگے​
بڑا بے مزا لگتا ہے "نصیحت" کی طرح
دوسرا مصرع یہ ہے
سر کٹے، سر نہ لیکن یہ تہمت لگے​
استاذ الف عین صاحب بتا ئیں کہ کہاں تک کامیاب ہوں
میں نے آپ کے لیے ایک پیغام لکھا تھا مگر پھر اپنی کوتاہ علمی کے احساس کے باعث نہ بھیجا ۔ اسکریں شاٹ اُس کا بھیج رہا ہوں ۔اِس پر بھی اپنی رائے سے نوازیں:
 
میں نے آپ کے لیے ایک پیغام لکھا تھا مگر پھر اپنی کوتاہ علمی کے احساس کے باعث نہ بھیجا ۔ اسکریں شاٹ اُس کا بھیج رہا ہوں ۔اِس پر بھی اپنی رائے سے نوازیں:
شکیل بھائی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
ہم کوئے جاناں سے کوئے یار سے سر بچا لائے ہیں یہ جملہ کوئی ہمیں کہ نہ سکے(""سر بچا لائے ہم کوئے دلدار سے"") یہ مصرعہ(جملہ) ہی بجائے خود ایک تہمت ہے۔
شعر کو اُلٹا تشریح کریں۔
سر کٹ جائے(جان چلی جائے) لیکن میرے سر پر یہ تہمت نہ آئے کہ میں کوئے دلدار سے اپنا سر بچا کر لے آیا ہوں۔
اسغر حریمِ عشق میں ہستی ہی جرم ہے
رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لیے ہوئے
اسغر گونڈوی​
بدر القادری
 

الف عین

لائبریرین
ایک تجویز
سر کٹے، سر پہ لیکن نہ تہمت لگے
محض 'سر تہمت لگنا' محاورہ نہیں، 'پہ' ضروری ہے ۔ اس مصرعے میں بھی لیکن نہ' میں تنافر ہے۔ یا جب ولے استعمال کرنے کی سوج سکتے ہیں تو' لیک' میں کیا حرج ہے؟
سر کٹے، لیک سر پر نہ تہمت لگے
 
Top