کاشف اختر
لائبریرین
میری پہلی کاوش پیش ِ خدمت ہے! تمام اساتذہ کی توجہ و مشورے مطلوب ہیں! خصوصا جناب الف عین صاحب، تابش صدیقی، سید عاطف، ابن ِ رضا، ظہیر احمد ظہیر، سید کاشف اسرار احمد، راحیل فاروق، فاتح بھائ، اسامہ سرسری ودیگر، اب مجھے معلوم نھیں یہ کیا ہے غزل ہے؟ وزل ہے؟ ہزل ہے؟ یا اور کچھ؟ بہر حال بڑی مدت ہمت ہوئی ہے کہ یہاں حاضر کروں،
بڑھائے کوئی میرے سوزِ جگر کو
نہ رسوا کرے اس عزم ِ سفر کو
ہو جرات کسی میں تو جائے ادھر کو
جہاں سے لگی ہے نظر، اِس نظر کو
جو یکلخت تازہ کرے زخمِ دل کو
میں تکتا ہوں ہر آن ایسی نظر کو
بناتا رہا آشیانہ غموں کا
پلٹ کر نہ دیکھا کبھی بھی شرر کو
بھلا جام و ساغر سے کیسے بجھے گی
جو آتش جلاتی ہے میرے جگر کو
کسی دن تو آئیں وہ میرے شہر کو
لگی آس ان کی ہے شام و سحر کو
جفائے ستمگر تو ہائے! نہ پوچھ
میں صدیوں ترستا رہا اک نظر کو
چلاکر وہ دل پہ جفاؤں کے خنجر
برا اب سمجھتے ہیں خونِ جگر کو
میں مرتا تھا کاشف محبت میں جسکی
اسی نے اجاڑا مرے بام و در کو
بڑھائے کوئی میرے سوزِ جگر کو
نہ رسوا کرے اس عزم ِ سفر کو
ہو جرات کسی میں تو جائے ادھر کو
جہاں سے لگی ہے نظر، اِس نظر کو
جو یکلخت تازہ کرے زخمِ دل کو
میں تکتا ہوں ہر آن ایسی نظر کو
بناتا رہا آشیانہ غموں کا
پلٹ کر نہ دیکھا کبھی بھی شرر کو
بھلا جام و ساغر سے کیسے بجھے گی
جو آتش جلاتی ہے میرے جگر کو
کسی دن تو آئیں وہ میرے شہر کو
لگی آس ان کی ہے شام و سحر کو
جفائے ستمگر تو ہائے! نہ پوچھ
میں صدیوں ترستا رہا اک نظر کو
چلاکر وہ دل پہ جفاؤں کے خنجر
برا اب سمجھتے ہیں خونِ جگر کو
میں مرتا تھا کاشف محبت میں جسکی
اسی نے اجاڑا مرے بام و در کو