برائے اصلاح

:AOA:

اصلاح کا منتظر!

گلشن ہی خزاں سے بگڑ چکا ہے
بلبل ہی چمن سے بچھڑ چکا ہے
باراں کی لگائی ہے آس اب جب
بادل سے ہی مطلع نکھر چکا ہے
تھا رہبری کا ایماں جس کے دم سے
وہ قطب فلک سے ہی جھڑ چکا ہے
مٹنی تھی جگر سوزی جس جہاں سے
میخانہ تو وہ اب اجڑ چکا ہے
کاسہ کی تھی لب کو امید جس سے
اس چشمے سے پانی اتر چکا ہے
دیدار کو اب آئے تو لا حاصل
جب نور بصر ہی اتر چکا ہے
وہ شیفتہ وہ با وفا اسامہ
جو قبر میں کب کا اتر چکا ہے
 
شکریہ! استاد محترم
بحر تو ٹھیک لگتی ہے۔
"بحر قریب مسدس اخرب مکفوف: مفعول مفاعیل فاع لاتن
قوافی کی غلطی پر توجہ ہی نہیں گئی میری ۔

گلشن ہی خزاں سے بگڑ چکا ہے
بلبل ہی چمن سے بچھڑ چکا ہے
باراں کی لگائی ہے آس اب جب
بادل ہی ہواؤں سے مڑ چکا ہے
تھا رہبری کا ایماں جس کے دم سے
وہ قطب فلک سے ہی جھڑ چکا ہے
مٹنی تھی جگر سوزی جس جگہ سے
میخانہ تو وہ اب اجڑ چکا ہے
کاسہ کی تھی لب کو امید جس سے
اس چشمے سے پانی نچڑ چکا ہے
دیدار کو اب آئے تو کیا حاصل
جب پردہ ہی آنکھوں پہ پڑ چکا ہے
وہ شیفتہ وہ با وفا اسامہ
وہ کنج لحد بھی پکڑ چکا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کچھ مصرعے ضرور اس بحر میں ہیں، تقطیع کر کے دیکھیں کہ کیا سارے مصرعے بھی ہیں، مجھے اس میں شک ہے۔
ضروری بات یہ ہے کہ مبتدیوں کو عروض کی کتابوں سے بحر منتخب کرنے کی بجائے مانوس بحروں کا استعمال کرنا چاہئے (تاکہ مجھ جیسے لوگوں کو بھی سہولت ہو کہ بغیر تقطیع کی ایکسرسائز کئے بحر کی خامیوں کی نشان دہی کر سکیں۔)
اوک اور بات۔ قوافی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ حروف کی حرکات بھی یکساں ہو۔ پڑ اور پکڑ قوافی آپس میں درست ہیں، لیکن ’مُڑ‘ اس گروپ میں نہیں آ سکتا۔
 
شکریہ! آئندہ ان باتوں کا دھیان رہے گا ۔ ان شاءاللہ

کچھ ماہ پہلے قوافی کی بحث پڑھی تھی اس میں حرف روی سے ما قبل اعراب کے اختلاف کو ناجائز لکھا تھا ۔

"حرفِ روی سے پہلے جو حرکت ( زیر ، زبر یا پیش ) ہوتی ہے اسے توجیہ کہتے ہیں ۔اس حرکت کا اختلاف ناجائز ہے ، اسی کو اختلافِ توجیہ کہتے ہیں ،۔نیز اسی عیب کو اقوا بھی کہتے ہیں ۔ مثالیں : دِل کا قافیہ گُل، طُول کا قافیہ ہَول ، دَشت کا قافیہ زِشت وغیرہ "

میں اس کی مزید وضاحت چاہتا ہوں کہ اختلاف ناجائز بھی ہے اور یہ عیب بھی ہے۔ تو کیا اس کے استعمال کی گنجائش ہے یا نہیں؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شکریہ! آئندہ ان باتوں کا دھیان رہے گا ۔ ان شاءاللہ

کچھ ماہ پہلے قوافی کی بحث پڑھی تھی اس میں حرف روی سے ما قبل اعراب کے اختلاف کو ناجائز لکھا تھا ۔

"حرفِ روی سے پہلے جو حرکت ( زیر ، زبر یا پیش ) ہوتی ہے اسے توجیہ کہتے ہیں ۔اس حرکت کا اختلاف ناجائز ہے ، اسی کو اختلافِ توجیہ کہتے ہیں ،۔نیز اسی عیب کو اقوا بھی کہتے ہیں ۔ مثالیں : دِل کا قافیہ گُل، طُول کا قافیہ ہَول ، دَشت کا قافیہ زِشت وغیرہ "

میں اس کی مزید وضاحت چاہتا ہوں کہ اختلاف ناجائز بھی ہے اور یہ عیب بھی ہے۔ تو کیا اس کے استعمال کی گنجائش ہے یا نہیں؟

محمدابوعبداللہ صاحب ! اگر حرفِ روی ساکن ہے تو اس سے ماقبل کی حرکت (یا سکون) کا یکساں ہونا لازمی ہے ۔ اس کے بغیر قافیہ قائم نہیں ہوگا ۔ ساکن حرفِ روی کو اصطلاحََا روی مقید کہا جاتا ہے ۔ بعض مصنفوں نے بغیر کسی دلیل کے اختلافِ توجیہ کو جائز قرار دیا ہے لیکن یہ غلط ہے ۔ دِل کا قافیہ گُل کسی صورت جائز نہیں۔ اختلافِ توجیہ اساتذہ کے کلام میں نہیں ملتا ۔ کوئی شاذ مثال الگ بات ہے لیکن اسے عیب ہی گردانا جائے گا ۔
 
Top