محمدابوعبداللہ
محفلین
اصلاح کا منتظر!
گلشن ہی خزاں سے بگڑ چکا ہے
بلبل ہی چمن سے بچھڑ چکا ہے
باراں کی لگائی ہے آس اب جب
بادل سے ہی مطلع نکھر چکا ہے
تھا رہبری کا ایماں جس کے دم سے
وہ قطب فلک سے ہی جھڑ چکا ہے
مٹنی تھی جگر سوزی جس جہاں سے
میخانہ تو وہ اب اجڑ چکا ہے
کاسہ کی تھی لب کو امید جس سے
اس چشمے سے پانی اتر چکا ہے
دیدار کو اب آئے تو لا حاصل
جب نور بصر ہی اتر چکا ہے
وہ شیفتہ وہ با وفا اسامہ
جو قبر میں کب کا اتر چکا ہے