عباد اللہ
محفلین
خواب آنکھوں میں مرتے رہتے ہیں
مقبرے دل میں بنتے رہتے ہیں
کیا غضب ہے کہ ہر گھڑی من میں
غم کے بادل برستے رہتے ہیں
دل سا کافر کہیں نہیں موجود
اور ہم اس کی سنتے رہتے ہیں
ہے ازل سے یہ ارتقا کا مزاج
نقش بنتے بگڑتے رہتے ہیں
داد دیجے کہ اس خرابے میں
ہم بصد شوق بستے رہتے ہیں
آگہی سانحہ ہے جس کو ہم
جام کی نذر کرتے رہتے ہیں
خوبرو اک ذرا نہیں ہیں آپ
ہم تو بس یوں ہی تکتے رہتے ہیں
کائناتِ خراب حالت میں
لوگ کتنے بہکتے رہتے ہیں
آج بھی شاعری کی صورت میں
کچھ صحیفے اترتے رہتے ہیں
رنج کیا ہے کہ ان بہاروں میں
کتنے گلشن اجڑتے رہتے ہیں
اکثر و بیش ہم سے سہل انگار
خود ہی خود سے مکرتے رہتے ہیں
قصد کرتے ہیں شہر کا اور پھر
دشت کی سمت چلتے رہتے ہیں
مقبرے دل میں بنتے رہتے ہیں
کیا غضب ہے کہ ہر گھڑی من میں
غم کے بادل برستے رہتے ہیں
دل سا کافر کہیں نہیں موجود
اور ہم اس کی سنتے رہتے ہیں
ہے ازل سے یہ ارتقا کا مزاج
نقش بنتے بگڑتے رہتے ہیں
داد دیجے کہ اس خرابے میں
ہم بصد شوق بستے رہتے ہیں
آگہی سانحہ ہے جس کو ہم
جام کی نذر کرتے رہتے ہیں
خوبرو اک ذرا نہیں ہیں آپ
ہم تو بس یوں ہی تکتے رہتے ہیں
کائناتِ خراب حالت میں
لوگ کتنے بہکتے رہتے ہیں
آج بھی شاعری کی صورت میں
کچھ صحیفے اترتے رہتے ہیں
رنج کیا ہے کہ ان بہاروں میں
کتنے گلشن اجڑتے رہتے ہیں
اکثر و بیش ہم سے سہل انگار
خود ہی خود سے مکرتے رہتے ہیں
قصد کرتے ہیں شہر کا اور پھر
دشت کی سمت چلتے رہتے ہیں