کاشف اختر
لائبریرین
ایک غزل نما تک بندی برائے اصلاح حاضر ہے محترم الف عین صاحب !
اپنوں کا ترانہ بھی مجھے یاد نہیں ہے
غیروں کا فسانہ بھی مجھے یاد نہیں ہے
اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا یاد ہے مجھے
پھر یہ بھی نہیں یاد کہ کیا یاد نہیں ہے
آئے وہ بزم میں تو اڑے ہوش یوں مرے
پلکوں کا بچھانا بھی مجھے یاد نہیں ہے
مومن ہوں پہ کافر کی نگہ کا قتیل ہوں
ایمان بچانا بھی مجھے یاد نہیں ہے
صیاد کا ستم کہ یہ احسان ہے خدا ؟
بلبل ہوں ترانہ بھی مجھے یاد نہیں ہے
قید قفس سے چھوٹنے کا حوصلہ نہیں
دیرینہ ٹھکانہ جو مجھے یاد نہیں ہے
کیا پوچھنا اس قامت محشر خرام کا
نظروں کا جھکانا بھی مجھے یاد نہیں ہے
بجھتی تھی غم کی آگ جو برسات اشک میں
موسم وہ سہانا بھی مجھے یاد نہیں ہے
کاشف عجیب تر ہیں کرشمے وصال کے
ہجراں کا زمانہ بھی مجھے یاد نہیں ہے ۔
غیروں کا فسانہ بھی مجھے یاد نہیں ہے
اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا یاد ہے مجھے
پھر یہ بھی نہیں یاد کہ کیا یاد نہیں ہے
آئے وہ بزم میں تو اڑے ہوش یوں مرے
پلکوں کا بچھانا بھی مجھے یاد نہیں ہے
مومن ہوں پہ کافر کی نگہ کا قتیل ہوں
ایمان بچانا بھی مجھے یاد نہیں ہے
صیاد کا ستم کہ یہ احسان ہے خدا ؟
بلبل ہوں ترانہ بھی مجھے یاد نہیں ہے
قید قفس سے چھوٹنے کا حوصلہ نہیں
دیرینہ ٹھکانہ جو مجھے یاد نہیں ہے
کیا پوچھنا اس قامت محشر خرام کا
نظروں کا جھکانا بھی مجھے یاد نہیں ہے
بجھتی تھی غم کی آگ جو برسات اشک میں
موسم وہ سہانا بھی مجھے یاد نہیں ہے
کاشف عجیب تر ہیں کرشمے وصال کے
ہجراں کا زمانہ بھی مجھے یاد نہیں ہے ۔