برائے تنقید و اصلاح: میری پہلی پابندِ بحر غزل از دسمبر 10، 2012

غزل
سخت کافر جناب تم نکلے
کر کے الفت عذاب تم نکلے
جو بھی دیکھے تھے خواب تم نکلے
سب کو پرکھا جواب تم نکلے
ہم سے وعدے کئے بہاروں کے
اور سوکھے گلاب تم نکلے
وحشتوں نے ہمیں کو گھیر لیا
جب سے جاناں سراب تم نکلے
تم سے نفرت نہ تھی نہ ہونی ہے
کیسے مانیں خراب تم نکلے
تم کو اک عمر پڑھ کے دیکھا ہے
دل کے سارے نصاب تم نکلے
ایک ہی آشیاں بسایا تھا
کر کے خانہ خراب تم نکلے
تم بھی اِجلال ہو بڑے کافر
لے کے کتنے ثواب تم نکلے
----------------
10 دسمبر، 2012
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ مقطع دیکھ لیں۔ مجھے معنی سمجھ میں نہیں آ رہے۔
 
بہت عمدہ جناب۔


مندرجہ بالا دونوں شعروں میں شاید ٹائیپو ہے۔ تدوین کررہے ہیں
اچھی غزل ہے، اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ مقطع دیکھ لیں۔ مجھے معنی سمجھ میں نہیں آ رہے۔

آپ دونوں حضرات کا بیحد شکریہ۔

واقعی، 'ہمہیں' میں غلطی ہو گئی۔۔۔! شکریہ کہ آپ نے نشان دہی کر دی۔ البتہ، بار بار غور کرنے کے باوجود مطلع میں typo نظر نہ آ سکا۔

"وحشتوں نے ہمیں کو گھیر لیا" میری ناقص رائے میں درست نہیں۔ میں نے دراصل 'ہم ہی' کی تقطیع 'ہمہی' کرنے کی جسارت کی تھی جیسے تمہی کی ہوتی ہے۔ اب پتہ نہیں میں نے سہی کیا کہ غلط۔ اس مسئلہ پر آپ دونو حضرات کی رائے سے مستفیض ہونا چاہوں گا۔

الف عین بھائی، مطلع میں محبوب سے مخاطب ہوں، جو محبت کر کے ظلم پر اتر آیا ہے، اور باعثِ عزاب بن گیا (جبکہ اسے تو باعث رحمت ہونا چاہئے تھا۔) اسی بنا پر اسے 'سخت کافر' کے لقب سے نوازا گیا ہے کہ محبت کرتا بھی ہے اور باعثِ عزاب بھی بنا ہوا ہے۔ آپکی مزید تنقید سر آنکھوں پر!
 
آپ دونوں حضرات کا بیحد شکریہ۔

واقعی، 'ہمہیں' میں غلطی ہو گئی۔۔۔ ! شکریہ کہ آپ نے نشان دہی کر دی۔ البتہ، بار بار غور کرنے کے باوجود مطلع میں typo نظر نہ آ سکا۔

"وحشتوں نے ہمیں کو گھیر لیا" میری ناقص رائے میں درست نہیں۔ میں نے دراصل 'ہم ہی' کی تقطیع 'ہمہی' کرنے کی جسارت کی تھی جیسے تمہی کی ہوتی ہے۔ اب پتہ نہیں میں نے سہی کیا کہ غلط۔ اس مسئلہ پر آپ دونو حضرات کی رائے سے مستفیض ہونا چاہوں گا۔

الف عین بھائی، مطلع میں محبوب سے مخاطب ہوں، جو محبت کر کے ظلم پر اتر آیا ہے، اور باعثِ عزاب بن گیا (جبکہ اسے تو باعث رحمت ہونا چاہئے تھا۔) اسی بنا پر اسے 'سخت کافر' کے لقب سے نوازا گیا ہے کہ محبت کرتا بھی ہے اور باعثِ عزاب بھی بنا ہوا ہے۔ آپکی مزید تنقید سر آنکھوں پر!

لفظ "تمہی" میں جو ھ ہے یہ مخلوط التلفظ ہے جس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔
ہم ہی میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں درست لفظ ہمیں (یائے معروف کے ساتھ) استعمال ہوتا ہے۔ میر کا شعر دیکھیں:

تھا وہ تو رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

ہمیں بمعنی "ہم ہی" ہے۔
 
لفظ "تمہی" میں جو ھ ہے یہ مخلوط التلفظ ہے جس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔
ہم ہی میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں درست لفظ ہمیں (یائے معروف کے ساتھ) استعمال ہوتا ہے۔ میر کا شعر دیکھیں:

تھا وہ تو رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

ہمیں بمعنی "ہم ہی" ہے۔
شکریہ مزمل شیخ بسمل بھائی۔
 
آپ دونوں حضرات کا بیحد شکریہ۔

واقعی، 'ہمہیں' میں غلطی ہو گئی۔۔۔ ! شکریہ کہ آپ نے نشان دہی کر دی۔ البتہ، بار بار غور کرنے کے باوجود مطلع میں typo نظر نہ آ سکا۔

الف عین بھائی، مطلع میں محبوب سے مخاطب ہوں، جو محبت کر کے ظلم پر اتر آیا ہے، اور باعثِ عزاب بن گیا (جبکہ اسے تو باعث رحمت ہونا چاہئے تھا۔) اسی بنا پر اسے 'سخت کافر' کے لقب سے نوازا گیا ہے کہ محبت کرتا بھی ہے اور باعثِ عزاب بھی بنا ہوا ہے۔ آپکی مزید تنقید سر آنکھوں پر!
لفظ عذاب ذ کے ساتھ۔
 
مطلع کا میں نے کب کہا تھا سید اِجلاؔل حسین مقطع کا مفہوم سمجھ میں نہ آنے کا کہا تھا!!

الف عین بھائی،

میری جہالت کی بھی کوئی حد نہیں ہے!بے حد شرمندہ ہوں، جلدی میں تھا۔۔ اور جلدی میں مقطع کو مطلع پڑھ گیا اور جلدی جلدی جواب ارسال کر کے گھر سے نکل گیا! آپ نے درست فرمایا۔۔۔ مقطع واقعی بس خانہ پری کے لئے اُس وقت جو سمجھ میں آیا تھا، لکھ دیا تھا۔ اللہ نے چاہا، جلد اسے تبدیل کر کے آپ سے رجوع کروں گا۔

ایک بار پھر معافی مانگتا ہوں! امید ہے درگزر فرمائیں گے۔ :oops:
 
اچھا مقطع ہے۔ اگر یوں کر دیں تو
تم سے اجلال تھی امید بہت
تو زیادہ رواں ہو جاتا ہے۔

بالکل یہی مصرع مجھے بھی اپیل کر رہا تھا مگر رات بھر کی بےخوابی نے ذہن کو کند کر دیا تھا اور نہ جانے کیوں تقظیع میں غلطی ہو رہی تھی حالانکہ پڑھنے میں درست ہی لگ رہا تھا۔

بیحد شکریہ!
 
الف عین بھائی صاحب،

ایک اور زحمت دینا چاہوں گا۔ یہ شعر:
ہم سے وعدے کئے بہاروں کے
اور سوکھے گلاب تم نکلے
اس طرح ہو سکتا ہے۔۔۔
ہم سے وعدے کئے بہاروں کے
اور سوکھا گلاب تم نکلے
یا​
ہم سے وعدہ کیا بہاروں کا
اور سوکھا گلاب تم نکلے

دراصل یہ میری پہلی غزل تھی۔۔۔ بحر سے نئی نئی آشنائی تھی، اور' وعدے' میں 'ع' کی تقطیع میں غلطی ہو گئی تھی۔ پہلے یہی شعر ہوں کہا تھا:​
ہم سے کر کے وعدے بہاروں کے
ایک سوکھا گلاب تم نکلے
شکریہ!​

 

الف عین

لائبریرین
نہیں، وہی روپ درست اور بہتر ہے، سوکھے گلاب والا، ’تم‘ کے ساتھ ’سوکھے‘ ہی آنا چاہئے۔، سوکھا نہیں۔ اور ’وعدے‘ ہی بہتر ہے۔
 
Top